استعمال شدہ گاڑیوں کی طلب آسمان کو پہنچ گئی

0 275

اگر آپ پاکستان میں نئی گاڑی خریدنے کی حیثیت رکھتے ہیں تو خود کو خوش قسمت سمجھیں۔ آٹو انڈسٹری کی موجودہ صورت حال بہت پریشان کُن ہے اور اب خریداروں کے لیے ایک سیکنڈ ہینڈ یعنی استعمال شدہ گاڑی کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔ ابتداء میں توقع تھی کہ نئے ادارے، خاص طور پر کِیا اور ہیونڈائی، ہوا کا تازہ جھونکا بنیں گے۔ لیکن ملک کی معاشی صورتِ حال خراب ہونے سے ان نئے اداروں کی جانب سے کوئی قدم اٹھانے سے پہلے ہی یہ امیدیں بھی دم توڑ گئیں، جبکہ چند متوقع نئے اداروں نے ملک میں سرمایہ کاری سے ہی ہاتھ کھینچ لیا۔ 

ایک مقامی میڈیا ادارے کے مطابق مقامی کار مارکیٹ میں تمام تر منفی حالات کے باوجود استعمال شدہ گاڑیوں کی مارکیٹ پھل پُھول رہی ہے۔ کاروں پر لاگو FED، روپے کی قدر میں کمی اور ملک میں معاشی عدم استحکام نے صارفین کو استعمال شدہ گاڑیاں خریدنے پر مجبور کر دیا ہے، جس نے استعمال شدہ گاڑیوں کی پہلے سے مستحکم مقامی مارکیٹ کو مزید مضبوط بنا دیا ہے۔ 

توازن میں تبدیلی 

یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا کیونکہ بیشتر صارفین ویسے ہی جاپانی کاروں کا رحجان رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ SRO52 آ گیا ہے اور ایک مصیبت ٹوٹ پڑی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس قانون کے نفاذ سے گاڑیوں کی درآمد عملاً صفر ہوگئی ہے۔ دریں اثناء، ماہرین کا دعویٰ ہے کہ 95 فیصد درآمد رُک چکی ہے، جبکہ 5 فیصد جاری ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ 5000-6000 یونٹس سالانہ۔ درآمدات کو بالآخر رُکنا ہوگا کیونکہ یہ ملک پر مالی بوجھ ڈالتی ہے، اور عوام گاڑیوں کی کمرشل درآمد کے لیے بیگیج اور گفٹ اسکیموں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن اسے تبھی ہونا چاہیے تھا جب مقامی کمپنیاں صارفین کی طلب کو پورا کر پائیں۔ 

تو کیا ہوتا ہے جب آپ کی کرنسی اپنی آدھی قدر کھو دیتی ہے، ڈالر آسمان سے باتیں کرنے لگتا ہے اور حکومت گاڑیوں کی درآمد پر پابندی لگا دیتی ہے اور ناموافق سرمایہ کاری پالیسیاں نافذ کرتی ہے؟ عوام استعمال شدہ گاڑیوں کا رخ کرنے لگتے ہیں کہ جو ان کی ضرورت اور بجٹ دونوں پر پورا اترتی ہیں۔ اور بالکل ایسا ہی ہوا۔ شروع سے ہی ملک میں رسد اور طلب (ڈیمانڈ اور سپلائی) کا مستقل مسئلہ موجود تھا۔ بگ تھری صارفین کی طلب کو پورا کرنے کے لیے دن رات کام کر رہے تھے۔ بعد میں جب ان کمپنیوں نے ڈالر کی موجودہ شرح کے مطابق اپنے منافع کی شرح کو مرتب کرنا شروع کیا تو قیمتیں ناقابلِ برداشت ہو گئیں۔ 

سادہ الفاظ میں یہ کہ کمپنیاں اپنی گاڑیاں فروخت نہیں کر سکتیں کیونکہ صارفین اتنی قیمتیں ادا کرنے کو تیار نہیں۔ یہی مسئلہ بیشتر کار ڈیلرز کچھ مہینوں سے اٹھا رہے ہیں۔ کِیا اور ہیونڈائی کی کاروں کی قیمتوں کا ذکر ہی نہیں کہ جو باقی دنیا میں سستا برانڈ سمجھے جاتے ہیں ۔ ان کے مقابلے میں ان کی گاڑیوں کی قیمت تقریباً نئے گھر کی قیمت کے برابر ہے۔ یوں استعمال شدہ گاڑیاں اچانک سب کی مطلوب بن گئی ہیں کیونکہ یہ کہیں کم قیمت میں دستیاب ہیں۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر یہ رحجان جاری رہا تو گاڑیاں بنانے والے موجودہ اداروں کو اپنے اسمبلی پلانٹ کچھ عرصے کے لیے بند کرنا پڑ جائیں گے۔ اور یہ اچھی علامت نہیں ہے۔ 

صارفین کی رائے 

ایک پرائیوٹ کمپنی میں کام کرنے والے عبد العزیز نے ایک استعمال شدہ ڈائی ہاٹسو کورے خریدی جب انہیں اندازہ ہوا کہ نئی مہران انہیں 8 لاکھ روپے تک کی پڑے گی۔ انہوں نے بتایا کہ اچھی استعمال شدہ کاروں اور نئی کاروں کے درمیان فرق بہت زیادہ ہے، اس لیے لاکھوں روپے کسی ایسی چیز پر کیوں ضائع کریں کہ جس میں 10 سال پرانی گاڑی کے مقابلے میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ 

بات بالکل ٹھیک ہے کیونکہ ہماری صنعت بہت زیادہ آگے نہیں گئی اور ان کی انٹری لیول کی کاروں میں اب بھی بنیادی فیچرز نہیں ہوتے۔ پھر تمام انجن کی گاڑیوں پر FED کے نفاذ نے نہ صرف سیلز کو متاثر کیا ہے بلکہ خریداروں کی امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا ہے۔ PAMA کی رپورٹ میں پیش کیے گئے حالیہ اعدد و شمار یہی ظاہر کرتے ہیں۔ ستمبر 2019ء میں پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت میں پچھلے سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں 39 فیصد کمی آئی ہے۔ تو حیرت ہوتی ہے کہ آخر حکومت کیوں اِس FED کے ذریعے آٹو انڈسٹری کو تباہ کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ 

صارفین کے پاس پرانی گاڑیاں خریدنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا، جو بعد میں سڑکوں پر خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔ اس رحجان کی وجہ سے دلچسپی رکھنے والے سرمایہ کار اپنے فیصلے بدل سکتے ہیں جبکہ موجودہ بھی اپنا کام مکمل طور پر روک سکتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں یہ صارفین ہوں گے کہ جو داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا اور صنعت جلد ہی اپنے قدموں پر کھڑی ہوگی۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.