[RIGHT]عطاء صاحب کی دوکان سے نکلا تو سوا چار بج رہے تھے وہاں سے دو تین کلومیٹر گلگت سے باہر جاکر ایک
چوک سے سیدھا راستہ ہنرہ کی طرف جاتا ہے اس پر پل بنا ہوا ہے اس پل پر پہنچ کر مجھے یاد آیا کہ آئل چینج
کرواکر میٹر کی تصویر تو لی ہی نہیں تو اس پر پہنچ کر میٹر اور پل کی تصویر ایک ساتھ لی، اس پل کو کراس
کرکے اسماعیلوں کی آبادی شروع ہوجاتی ہے، جسے تینور کہتے ہیں، شام کا وقت تھا مرد، عورتیں اور بچے اس
خوبصورت سڑک کے کنارے واک کر رہے تھے تمام کے تمام افراد خوبصورت لباس میں ملبوس آنکھوں کو بہت
ہی بھلے لگ رہے تھے دل چاہ رہا تھا کہ بائیک روک کر انکے ساتھ واک شروع کردی جائے۔ میرے پاس وقت کم
تھا اور مجھے مغرب سے پہلے کم از کم علی آباد پہنچنا تھا گلگت سے ہنرہ کا راستہ بھی انتہائی خوبصورت ہے
جسکی شان وہاں کے خوبصورت نظارے اور خوبصورت لوگ بڑھا رہے ہوتے ہیں، محتاط اور مناسب رفتارسے
بائیک چلاتے ہوئے میں تقریباً ساڑھے چھ بجے علی آباد پہنچ گیا راستے میں سوائے چند ایک جگہوں کے میں
کہیں نہیں رکا۔ تصاویر بھی بہت کم بنائیں ان کو واپسی کے سفر کیلئے التوا میں رکھ دیا۔ علی آباد سے تھوڑا قبل
ایک چیک پوسٹ آئی تھی اور بیرئیر اٹھا ہوا تھا، میں اپنی خاص رفتار سے وہاں سے گذر گیا تو پیچھے سے آواز
آئی، مڑ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ پولیس والا آواز اور ہاتھ کے اشارے سے رکنے کیلئے کہہ رہا ہے، فوراً بائیک
روکی اور موڑ کر واپسی پولیس والے صاحب کے پاس آیا انہوں نے میرا اندراج کیا اور ویلکم کہا کہ ہنرہ میں
آگئے ہیں۔ جب علی آباد پہنچا تو مغرب کی آزانیں ہورہی تھیں اور علی آباد کے مین بازار میں اسکاؤٹ ٹائپ کے
لڑکے روڈ کو سائیڈوں سے بلاک کر رہے تھے تاکہ ٹریفک جماعت خانے آنے جانے والوں کی آمدورفت میں مخل
نہ ہو، میں ان کے بیچ میں سے ہوتا ہوا کریم آباد کیلئے چلتا چلا گیا، کریم آباد جانے کیلئے کے کے ایچ کو چھوڑ
کر اوپر کی طرف راستہ جاتا ہے اس راستے پر بائیک چڑھا دی اب اندھیرا ہوچکا تھا اس لئے بائیک کی ہیڈ لائٹس
آن کردیں تھیں پونے سات بجے تک میں اپنے مطلوبہ ہوٹل میں پہنچ گیا۔ ہم پہلے بھی اس ہوٹل میں ٹہرے تھے اس
لئے کہ وہ مناسب بھی تھا اور اسکے ریٹ بھی مناسب تھے وہاں جاکر کمرہ لیا اور سامان وغیرہ اتار کر ہوٹل
والے سے گرم پانی کیلئے کہا جو اس نے فوراً ہی والو کھول کر فراہم کردیا، ان علاقوں میں گرم پانی ایک نعمت
ہے گرم پانی سے نہاکر، مغرب، عشاء پڑھی اور رات کا کھانا کھانے میں بازار چلا گیا یہاں ایک دلچسپ بتاؤں کہ
جب آپ علاقوں، بازاروں، ہوٹلوں سے واقف ہوتے ہو تو معاملات نمٹانے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ یعنی آپ دیکھیں
ہوٹل لینا، نہانا، نمازیں پڑھنا اور کھانے کیلئے بازار میں جاکر کھانے کا آڈر دینے میں کل ملا کر بمشکل پون گھنٹہ
لگا جبکہ اگر آپ علاقے میں اجنبی یا ناواقف ہوتے ہو تو صرف ہوٹل کے کمرہ کو لینے لینے میں ہی آدھا پون
گھنٹہ لگ جاتا ہے جس ہوٹل میں کھانا کھانے گیا وہاں ہم پہلے بھی کھانا کھا چکے تھے۔اس وقت مین بازار کی
لائٹ نہیں تھی، ٹی وی نہیں چل رہا تھا اس لئے ہوٹل والوں سے گپ شپ لگی رہی کھانے سے فارغ ہوکر تھوڑا
بہت بازار میں گھوما پھرا، پھر کمرے میں آکر سوگیا۔
ناٹکو کے بس اڈے کے سامنے
میرا میٹر آئل تبدیل کروانے کے بعد
وادئ ہنزہ شروع
شام کا وقت اور وائ ہنزہ
[/RIGHT]