کہتے ہیں کہ سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے اور چونکہ یہ بات میں نے نہیں بلکہ کسی سیانے نے کہی ہے اس لیے ٹھیک ہی کہی ہو گی سو اس بات پر ہم نے بھی عمل کرنے کا سوچا اور اپنے یاران خاص کاشف (اجنبی مسافر) اور نعمان (آوارہ گرد ) براکیٹ میں دے گئے نام پر بلکل فٹ بیٹھتے ہیں. کاشف لمبا تڑنگا اور بےحد اچھا فوٹو گرفر اور فوٹوگرافی کرتے ہونے بلکل اجنبی بن جاتا ہے. نعمان (آوارہ گرد) ٣ بچوں کا باپ اور اپنے نام کی طرح شوخ اورشوقین باقی آپ سمجھدار ہیں. .ان سے مشورہ کیا جو کے پچھلے سال سے مرے ساتھ چولستان جیپ ریلی کا پروگرام بنا رہے تھے. دونوں نے اچھے دوستوں کی طرح پہلے حامی بھری لیکن بعد میں انکار کر دیا. حالانکہ میں نے بہت لالچ دیا کہ فوٹو گرافی کے بہت سے موقعے ملیں گے (جو کہ ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے اور ان سے ہی یہ لت مجھے لگی ہے) پر وہ ننہیں مانے. اس پر میں نے فیصلہ کیا کہ بجاے اکیلا جانے کے اپنی نصف بہتر کو ساتھ لیا جائے اس طرح اس کا گلا بھی دور ہو جائے گا ہمارا سفر15 کی صبح شروع ہوا اور تقریباً ٣ بجے ہم ملتان پہنچے. ملتان کا ذکر اتے ہی ذہن میں ٤ چار چیزیں آتی ہیں "گرما، گرد، گدا اور گورستان" چونکہ فروری کا مہینہ تھا اس لیے پہلی دونوں چیزیں تو نہی تھیں پر دوسری دونوں چیزیں وافر مقدار میں موجود تھیں. آپ جس طرف چلے جاییں آپ کو ان کی فوج ظفر موج ملے گی. اور ان سے جان چھڑانا مشکل ہو جائے گی. ملتان شہر میں ایک قدیم قلعہ ہے جو کہ قلعہ کوہنہ قاسم باغ بھی کہلاتا ہے اس قلعہ کو برٹش. فوج نے اپنے قیام کے دوران کافی نقصان پہنچایا اس قدیم قلعہ کی فصیل کہیں کہیں سے نظر آتی ہے باقی امتداد زمانہ کی نظر ہو چکی ہے. اس قلعہ کی تعمیر کی تاریخ تو نا معلوم ہے پر دفائی لحاظ سے یہ قلعہ بہت ہی اہم رہا ہے. یہی وہ قلعہ ہے جس پر ٣٢٦ ق م میں سکندر اعظم نے حملہ کیا اور اپنی ذاتی شجاعت کے بل بوتے پر اس کو فتح کر لیا. سکندر نے جنگ کے دوران بذات خود سیڑھی لگا کر سب سے پہلے قلعہ میں داخل ہوا اور محافظوں پر حملہ کر دیا اسے دوران سینہ میں تیر لگنے سے شدید زخمی ہو گیا. قلہ فتح ہو گیا پر یہی زخم بعد میں اس کے لیے مہلک ثابت ہوا اور ٤ سال بعد بابل کے قریب بخار میں مبتلا ہو کر مرا. پر یہاں پر یار لوگوں نے مشہور کیا ہوا ہے کے ہمارے تیر سے مرا اگر ان باتوں پر یقین کیا جائے تو سکندر کم از کم ہندوستان میں ١٠ یا ١٢ جگہ ضرور مرا ہو گا. ملتان کو اولیا الله کا شہر بھی کہتے ہیں. ١ روایت کے مطابق یہاں پر سوا لاکھہ اولیا مدفون ہیں. چونکہ وقت کم تھا اور جتنی تعداد بتائی جا رہی تھی اس کو دیکھنے کے لیے عمر خضر درکار تھی اس لیے فیصلہ کیا گیا کے چیدہ چیدہ بزرگان دین کے مزارات کی زیارت کی جائے اور بقایا سے معذرت. اسی لیے سب سے پہلے حضرت شاہ شمس کے مزار پر حاضری دی یہاں پر آپ کو عقیدت مندوں سے زیادہ گداگر ملیں گے دوسرے مرحلے میں حضرت بہاؤ الدین زکریا کے مزار پر حاضر ہوے اسی مزار کے احاطے میں ملتان کے آخری حکمران نواب مظفر خان سدوزئی بمع اپنے 9 بیٹوں کے مدفون ہیں جو سکھوں کے ساتھ لڑائی میں شہید ہوے تھے. حضرت بہاؤ الدین زکریاکے مزار سے بھر نکلیں تو آپ کے سیدھے ہاتھ آپکو ایک برٹش راج کی ١ یادگار نظر آےگی جو کہ غالباً ١٨٤٨ میں برٹش آرمی کے ٢ آفیسرز کی موت کی یاد میں بنائی گیئ ہےیہی واقعہ بعد میں ملتان پر انگریزوں کے قبضہ کی وجہ بنا. یہ یادگار کافی اچھیحالت میں ہےقلہ قاسم باغ کے آخری سرے پر حضرت شاہ رکن عا لم کا مقبرہ ہے ملتان کے سب مقابر میں یہ سب سے خوبصورت ہے مقبرے کی دیواریں نیلی ٹائلز جو کے ملتان کی پہچان ہیں اور کاشی گری کے عمدہ نمونوں کی وجہ سے انتہائی خوبصورت نظر اتا ہے. اس کی تعمیر غیاث الدین تغلق نے اپنے لیے کی تھے پر بعد میں اس کے بیٹے محمّد بن تغلق نے١٣٣٠ میں اس کو حضرت شاہ رکن عا لم کی تدفین کے لیے دے دیا. روڈ سے اس مزار کی اونچائ ١٥٠ فٹ ہے. حضرت شاہ رکن عا لم کے مزار سے نکلتے ہی آپ کو بائیں جانب ایک سنگی دروازہ یا گیٹ نظر آے گا جس کو باب القاسم کہتے ہیں اس کی تعمیر ١٩٥٣ میں ہوئی یہ ملتان میں محمّد بن قسم کی آمد کی یاد میں بنایا گیا ہے. اسی گیٹ کے بلکل سامنے آپ کو برٹش راج کی یاد اور ملتان کا مشہور گھنٹہ گھر نظر ہے گا. اسی گھنٹہ گھر کے پاس ہی ملتان کا مشہور حسسیں آگاہی بازار ہے جو کہ حضرت حسسیں آگاہی کے نام سے منسوم ہے. ملتان کی سوغاتوں میں سے ایک یہاں کے نیلی مٹی کے ظروف بھی ہیں جو کے ساری دنیا میں اپنی انفرادیت اور حسن کی وجہ سے مشہور ہے. نیلی مٹی کہ یہ برتن اپنی نفاست اور کاشی گری کا بہترین نمونہ ہیں. یہی کاشی گری آپ کو ملتان کے مزارات میں جا بہ جا نظر ہے گا. ملتان میں ایک سڑک ابدالی روڈ کے نام سے مشہور ہے وجہ تسمیہ اس کی یہ ہے کہ یہاں پر احمد شاہ ابدالی جس کو دررانی سلطنت افغانستان کا بانی کہا جاتا ہے جس کو نادر شاہ نے اپنی زندگی میں ہی اپنا جانشین بنایا. اس روڈ پر اس کی جائے پیدائش کی یادگار بنی ہے. ملتان کی ایک اور وجہ شہرت یہاں کے میٹھے آم، سوہن حلوہ اور ان سب سے بھی میٹھے یہاں کے لوگ ہیں اور یہاں کی ملتانی بولی کے کیا کہنے حالانکہ میرے اپنے ضلح میانوالی میں بھی سرائیکی بولی جاتی پر ملتان کی سرائیکی جتنی میٹھی ہے اس کے سامنے یہاں کا میٹھا سوہن حلوہجو کہ ملتان کی خاص سوغات ہے وہ بھی پھیکا لگتا ہے. اگر کوئی غیر ملتانی زیادہ عرصہ ملتان میں رہے تو اس کو شوگر ہونے کا شدید خطرہ ہے وجہ ملتان کا سوہن حلوہ نہیں بلکہ یہاں کے لوگوں کی زبان کی مٹھاس ہو گی.
in reply to "safar shumal kai" .......
nice trip. awaiting a lot of pics
More pics????????????????
@ Raheel Bhai yes Mustansar Sb. kee books parh kay hee to damagh kharab hooa hai
@ Nomi & Multani traveler yar meri tabeeat kafee kharab hai aaj kal so pics & detail will be uploaded soon sorry for that
Some pictures of Darawar Masjid
some more pics of darawar masjid
Great shots Irfan bhai.. waiting for more pics
Excellent pics janab....
Tomb of Hazrat Shah Shams
Tomb of Hazrat BAHA UD DIN ZIKRYA MULTANI
Patrick_Alexender_Monument from British Raj
very nice trip. very fabulous pictures.please share more pix with narration.
Tomb of shah rukn e alam
Ahmed shah abdali place of birth @ abdali road
اس شہر کی بنیاد داود پوتا خاندان کے دوسرے حکمران محمّد بہاول خان نے١٨٠٢ میں رکھی اور انھیں کے نام کی مناسبت سے اس شہر کا نام بہاولپور رکھا گیا. یہاں کا حکمران خاندان عبباسی خاندان بھی کہلاتا ہے.
قیام پاکستان سے پہلے ریاست بہاولپور برٹش راج کی اہم ترین ریاستوں میں سے ایک تھے جس کو مکمل اندرونی خود مختاری حاصل تھی. ریاست کے حکمران کا سرکاری خطاب نواب کا تھا اور نواب صاحب کو ١٧ توپوں کی سلامی کمپنی سرکار کی طرف سے دی جاتے تھی.
قیام پاکستان کے بعد ریاست بہاولپور کے نواب صادق محمّد خان پنجم نے پاکستان کی بہت مدد کی باوجود اس کے کہ پنڈت نہرو لندن میں ان کے قیام کے دوران بار بار ملے اور طرح طرح کے لالچ دے کر ہندوستان میں شامل ہونے کا کہا پر نواب صاحب نے انکار کر دیا. نواب صاحب نے پاکستان کے قیام کے وقت ٧ کروڑ روپیہ نقد حکومت پاکستان کو دیا اور حکومت پاکستان کے تمام اداروں کی ١ ماہ کی تنخواہ بھی اپنی ریاست کے خزانے سے ادا کی٥ اکتوبر ١٩٤٧ کو ریاست بہولپور نے پاکستان میں شامل ہونے کا حکومت پاکستان سے معاہدہ کیا. ریاست بہولپور پہلی ریاست تھے جو پاکستان میں شامل ہوئی. ١٩٥٥ میں نواب صادق محمّد خان اور پاکستان گورنمنٹ کے درمیں ایک معاہدہ ہوا جس کے نتیجہ میں ریاست بہاولپور پاکستان کا حصہ بن گئی. .
یوں تو بہاولپور میں دیکھنے کے قابل کئی مقامات ہے پر سب سے مشہور نور محل، دربار محل، اور گلزار محل ہیں. چونکہ ہم رات در سے بہاولپور پوھنچے اس لیے یہ سب تو نہ دیکھا سکے پر اگلی صبح لال سوہنرا باغ دیکھنے کا پروگرام بنایا. یہ باغ امریکا اور ہولنڈ کی مدد سے سیاہ ہرن کی افزائش کے لیے بنایا گیا ہے شہر سے اس کا فاصلہ ٣٠ کلو میٹر ہے ناشتہ کا سامان ساتھ تھا صرف بریڈ خریدی اور اس کے جانب چل دیے. وہاں پوہنچے تو ابٹ آباد لیڈیز کلب کی ممبران کی وین پہلے ہی موجود تھے. باغ میں موجود غزالوں کو بیگم کی کڑی نظروں کے موجودگی میں دیکھا جو ہرنوں سے زیادہ مجھ پر نظر رکھ رہی تھی کے کہیں میں ہرنوں کی بجانے
some shots of Black Buks
Nice going dear....!