چھ دن میں 6656 کیلو میٹر۔ اس پر سفرنامہ لکھنے کا بہت دل کر رہا ہے پر دماغ سو چکا ہے۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کے ریاض سے پاکستان کا سفر بھی 4300 کیلو میٹر ہے۔
اصل میں جب ایک عام آدمی بھی یہ سنے تو اسکا بھی دماغ سو ہی جاتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے جناب ۔ یہ چھ دن کا یادگار سفر راقم اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ طے کرتا ہے اور وہ بھی پردیس کے ایک ملک میں
دراسل بات کچھ اسطرح سے ہے کہ رمضان شروع ہونے سے ایک ہفتہ قبل محترم عبد اللہ بھائی کی کال ائی کے عبید بھای کیوں نہ عید کی چھٹیوں میں پردیس میں بھی اپنی روایت (سیر و سیاحت) قائم رکھی جائے۔ مجھے اس سے زیادہ اور کیا چاہئے تھا بیٹھ بیٹھ کے بور ہو چکا تھا فورا ہاں کر دی اور عید کی چھٹیوں میں جانے کا پروگرام طے کر لیا۔
پروگرام کچھ اسطرح سے تھا کے عبداللہ بھائی مدینہ سے مکہ ائیں گے جبکہ میں اور ساجد بھائی ریاض سے مکہ وہاں سے نوید بھائی اور چند اور دوست ہمارے سفر میں شامل ہوں گے۔ جمعرات کو چھٹیوں کا کنفرم ہوتے ہی میں نے اپنا دست سفر باندھا اور جمعہ کی سحری ریاض میں کھا کر ساجد بھائی کے ہمراہ ریاض سے مکہ المکرمہ کے لئے روانہ ہو گیا ریاض سے مکہ تقریبا 880 کلو میٹر ہے۔ اس سارے سفر میں ڈرائونگ کی ذمہ داری میری تھی۔ تقریبا 6 گھنٹے مسلسل ڈرائیو کرنے کے بعد طائف پہنچھے اور اس دوران کوئی بھی نا خوشگوار یا خوشگوار واقع نا ہوا مطلب یہ کہ میری سفر کے ساتھی یا تو اپنا سٹیس( جو کہ نہ ہونے کے برابر تھا) اپڈیٹ کرنے میں مصروف رہے یا پھر دم دبا کے سوئے رہے، جمعہ کی نماز طائف میں ادا کرنے کے بعد میقات سے احرام باندھ کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور عصر کے وقت عرفات کے میدان کے ساتھ واقع بھائی سرفراز کے رہائش پر پہنچھے تھکن زیادہ تھی اس لئے وہاں افطاری تک ارام کرنا طے پایا ۔ افطاری کے بعد عمرہ کی ادائگی کے لئے روانہ ہوئے اور وہاں سے عبد اللہ بھای بھی ہمسفر ہو گے جنہوں نے ڈراووننگ میں کافی مدد کی۔
نماز تراویح اور عمرہ ادا کرنے بعد عرفات واپس ائے(نماز تراویح مکمل ادا کرنے کا ارادہ تھا اس لئے لکھا کے ادا کی حالانکہ وہاں پر ہمارے ساتھ ایک بڑا انوکھا اور تاریخی واقعہ ہوا، ہوا کچھ یوں کے دین کی محبت اور لگن کی وجہ سے یہ ارادہ کیا کے حرم شریف کے قریب جا کر بیٹھ جاتے ہیں نماز پڑھنے کے فورا بعد حجر اسود کو چومنے کا موقع مل جائے گا یہی سوچ کر حرم میں داخل ہوئے کعبہ سے ساتھ جگہ نہ ہونے کی وجہ سے طواف کے لئے بنے مخصوص راستے جو کہ دوسری منزل پر ہے میں چلے گئے اور نماز عشاء با جماعت ادا کی اور وہاں پر ہی تراویح شروع کر دیں ، جو کہ پہلی رکعت میں ہی نماز توڑ کر عمرہ کرنا پڑا، کیونکہ وہ جگہ طواف کے لئے مخصوص ہے وہاں صرف فرض نماز ادا ہو سکتی ہے ورنہ وہاں اتنا رش ہوتا ہے کے شرطہ یا عسکری نمازیوں کو دھکے دے کر نکال دیتے ہین اور یہی ہمارے ساتھ بھی ہوا) وہاں کے احباب سے الوداعی ملاقات کر کے طائف (براستہ الھدا) روانہ ہوئے۔ ان تمام مقامات کی تصاویر بمع عنوان ساتھ اپلوڈ کروں گا۔ الھدا شھر سے گذرتے ہوئے اپنی ایک دوست کا یاد ایا جنہوں نے یہ کہ رکھا تھا کہ جب بھی طائف ائے تو ضرور ملنا تو سوچا کہ سلام کرتے چلیں نمبر ملایا تو نو آنسر بڑا افسوس ہوا لیکن برداشت کر گئے پھر اچانک خیال ایا تو گھڑی کی طرف دیکھا تو بھت پشیمان ہوئے کیوں کہ اس وقت صبح کے 6 بج رہے تھے اور رمضان میں رات کی ڈیوٹٰ کے بعد صبح کے چھ بجے کوئی کیسے فون اٹھائے گا، بھر حال وہاں سے ہوتے ہوئے طائف کے تاریخی مقامات پر جانے کا ارادہ کیا جن میں طائف کی وادی اور چند دوسری مساجد شامل ہیں، اب بڑے افسوس سے ساتھ یہ بات بتاتا چلوں کے وہاں طائف کے شھر میں کوئی بھی آدمی ایسا نا ملا جس کو پتہ ہو کے طائف میں قدیم دور کی مساجد کہاں واقع ہیں اور طائف کی وادی کہاں ہے بھر حال عبداللہ بھائی کو اچانک ساے الھام ہوا کے وادی وج نام کی وادی میں چلیں کیونکہ یہ مقام وہیں پر ہیں۔ ہم نے بھی جی پی ایس کھولا اور وادی وج تلاش کر کے اس سمت چل پڑے ۔ طائف کی بستی اور وہاں پر آج سے 1400سال پرانی مسجد دیکھی اور ابھا کی طرف نکل پڑے کیوں کہ طائف میں اور کچھ خاص تھا نہیں۔
ابھا سعودی عرب کے لوگوں کے لئے مری کی سی حیثیت رکھتا ہے اور یہ مکہ سے تقریبا 800کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
اس پورے سفر کے دوران ہمیں یہ نہیں پتہ تھا کہ کب دن ہوا اور کب رات بس ہم تھے ک دیوانوں کی طرح بڑھتے چلے جا رہے تھے، طائف سے الباھا(الباھا اور ابھا دو مختلف شھر ہیں) کیطرف راستے میں اماں حلیمہ سعدیة کا گائوں واقع ہے عبداللہ بھائی کے ساتھ کی وجہ سے حضور پاک ص کے بچپن کا گائوں بھی دیکھا اور پھر وہاں سے الباھا پھنچھے۔ الباھا میں نماز ظھر و عصر(ظھر کی نماز ادا کر کے سونے کا ارادہ کیا مسجد میں تو ناممکن سا لگا اس لئے گاڑی میں اے سی چلایا اور سے گئے اور عصر کے ٹائم کسی اللہ والے نے گاڑی کے شیشے پر دستک دی) ادا کی اور خمیس مشیط روانہ ہو گئے۔ راستے میں روزہ کھولا اور پھر چل پڑے۔روزہ کھول کر ہمارے جسم تو چارج ہو چکے تھے لیکن موبائل کو چارج کرنے کی ضرورت تھی دل ہی دل میں دعا مانگ رہا تھا کہ ای خدا کوئی سبب پیدا کر (گاڑی میں ایک عدد معصوم سا چارجر تھا اور 7 موبائل) راستے میں ایک پاکستانی نے رکنے کا اشارہ کیا تو میں نے عبداللہ بھائی کے مشورے سے گاڑی روک دی اس سے ائ ڈی کارڈ(اقامہ) کا پوچھا تو کہنے لگا کے ہاں جی موجود ہے اس کو ساتھ بٹھا لیا تعارف ہوا تو کشمیر کے کسی گائوں کا نکلا۔ اگے راستے میں ایک چیک پوسٹ ائی تو ان صاحب سے انکا اقامہ طلب کیا تو جواب ندارد، کہنے لگے وہ تو ایکسپائر ہو گیا تھا اور پاسپورٹ پاس ہے، دل ہی دل میں کہا کہ اللہ اب تو ہی مدد کرنا اور اللہ کی مدد ہوئی اور ہماری گاڑی نکل گئی۔ چیک پوسٹ سے نکلتے ہی دل نے کہا اس پر چڑہائی کر دو لیکن ایک رمضان دوسرا پردیس دل نا مانا اتنے میں اس کا سٹاپ قریب آ گیا تو اس نے جان چھڑانے والے انداز میں چائے کی دعوت دے ڈالی اور یہی اس نے غلطی کی، کیوں کہ ہم بھی کب کے چائے کی تلاش میں تھے چل پڑے اس کے کمرے میں اور چائے کے بہانے میں موبائل بھی چارج کر لئے۔ وہاں سے آگے خمیس مشیط تک تقریبا 4 گھنٹے کا راستہ باقی تھا تمام ڈرائیو بھی پہاڑی علاقے کی تھی لیکن سپیڈ لمٹ 120 ہی تھی۔ اس دوران باقی احباب نیند کے مزے لیتے رہے اور ہم 2 سحری سے ذرا پہلے وہاں پہنچ گئے۔
خمیس مشیط میں سحری کھائی اور سعودی عرب کے بلند ترین مقام السوداء گئے(السودا گئے یہ اس لئے لکھا تا کہ اپنے دل کو تسلی رہے حالانکہ حقیقت میں السودا کا راستہ ہی نہ ملا اور جب راستہ ملا تو ہمارے ارادے ہی دم توڑ چکے تھے ویسے بھی وہاں آکسیجن کی کمی کا مسئلہ بھت زیادہ ہوتا ہے اسلئے اس سفر میں میں اپنے ساتھیوں کو کسی پریشانی میں نہیں ڈالنا چاھتا تھا) اور وہاں سے واپس ابھا سے ہوتے ہوئے جیزان کی طرف نکل گئے۔ ابھا سے جیزان تک تقریبا 200 کیلومیٹر کا فاصلہ ہے لیکن مسلسل اترائی کی وجہ سے بہت محتاط ہو کر چلنا پڑتا ہے، اب اچانک خیال آیا کے روزہ بند ہونے کا ٹائم بھی ہونے والا ہے میں نے دبا کر پانی پیا اور ساتھیوں نے اختتامی سگریٹ لگایا اور عین اذان کے وقت ایک مسجد کے قریب جا پہنچے نماز ادا کے اور آگے نکل پڑے۔ راستے میں صبیا پہنچ کر اچانک عبد اللہ بھائی نے ایک سرپرائز پروگرام بنا لیا اس طرح ہم بجائے جیزان جانے کے صبیا سے فیفا روڈ پر چل نکلے ۔ فیفا صبیا سے 100کیلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ فیفا کو دیکھ کر مجھے یقین ہوا کے ان سعودی باشندوں سے زیادہ فضول خرچ اور کوئی نہیں ہو سکتا، فیفا کی پہاڑیاں اپنی بلندی کی وجہ سے مشہور ہیں اور یہ یمن کے بارڈر کے ساتھ واقع ہیں یہاں پر ہر پہاڑی چوٹی پر اپ کو ایک زبردست گھر، پلازہ یا قصر قلعہ نظر ائے گا۔ میرے اندازے کے مطابق اگر پیدل جایا جائے تو ایک گھر سے دوسرے گھر تاک 5 سے 6 گھنٹے لگ سکتے ہیں ۔ فیفا کی ان پہاڑیوں میں اتنی سہولیات دیکھ کر میں پریشان ہو گیا صبیا شھر جہاں سے گذر کر اس جگہ ائے تھے وہاں اتنی سہولیات نہیں تھی۔ مثال کے طور پر فیفا میں سرف ٹویوٹا کے 2شو روم تھے۔ یہ کوئی اتنا بڑا علاقہ نہیں ہے نہ ہی ایریا اور نہ ہی آبادی کے لحاظ سے بھر حال وہاں سے تنگ آ کر واپسی کا ارادہ کیا(فیفا سے واپسی پر ڈرائیو عبداللہ بھائی کر رہے تھے میں ان کی مدد کر رہا تھا جگانے میں جبکہ سونے کی ذمہ داری ساجد بھائی کی تھی) اور جیزان جا پہنچھے ، جیزان یمن بارڈر واقع ہے اس طرح ہمارا اس سمت کا سفر ختم ہو گیا اور واپس جدہ روانہ ہوئے جازان سے جدہ تقریبا 800 کیلو میٹر کا سفر ہو جو کے بحیرہ احمر کے ساتھ ساتھ ہے۔ جیزان سے سمندر کے کنارے کنارے کا سفر بھت مزے کا تھا ، ایک طرف صحراء ایک طرف سمندر اور راستے میں ریت اڑتی ہوئی ایک دلچسب منظر بنا رہی تھی، راستے میں پاکستان گھر سے فون پر بتایا گیا کے سعودی عرب میں چاند نظر آ چکا ہے اور صبح عید ہے۔ اس خوشی میں گاڑی کی سپیڈ بڑھائی تا کہ عید کی نماز مکہ یا مدینہ میں ادا کریں ۔ اب مجھ ناچیز کو ان سعودی کار وں کا تو پتہ نہ تھا پھر سپیڈ زیادہ کرنے کی وجہ سے پٹرول کم ہو گیا اور ایک وقت ایسا ایا کے پٹرول ختم اور پٹرول پمپ کا پتا نہیں لیکن خدا کی مدد نے ساتھ دیا اور گاڑی ایک پمپ تک پھنچ گئی(یہاں اصل کہانی بھی بتاتا چلوں کے راستے میں عبداللہ بھائی اور ساجد بھای خواب میں خرگوش کے مزے لے رہے تھے اور میں نے سوچا کیوں نے ریکارڈ بنایا جائے چنانچہ اپنے اس ارادے کو عملی جامہ بالکہ پاجامہ پہنانے کی غرض سے میں نے اکسیلیٹر پر اپنا پورا زور ڈال دیا اور نہ نہ کرتے بھی گاڑی 210 تک گئی تھی یہ وہ میں وجہ تھی کہ 450کیلومیٹر کی جگی 280کیلومیٹر میں ہی پٹرول ٹائین ٹائین فنش) وہاں سے جدہ تک بڑے محتاط ہو کر آئے اور جدہ پہنچھ کر خدا کا شکر ادا کیا۔ جدہ میں نہا دھو کر نماز عید کی تیاری کی اور بیت اللہ میں نماز کے لئے روانہ ہوئے،جدہ جا کر نوید بھای کو بھی اپنے اس سفر میں ہمسفر بنایا اور چند اور دوست احباب بھی ساتھ ہو لئے فجر کی نماز بیت اللہ میں ادا کی اور پھر نماز عید کا انتظار کرنے لگے اس دوران نیٹورک بھی بھت رش کی وجہ سے جام ہو گیا اور گھر رابطہ نہ ہو سکا۔ نماز عید ادا کر کے مکے سے جبل ثور گئے (جبل ثور میں جانے کا ارادہ بھی بھائی ساجد کے انتہای درجہ کی شوق کی وجہ سے بنا ) جبل ثور پر واقع غار میں حضور پاک ص مکہ سے مدینہ ھجرت کرے ہوئے دشمنوں سے چھپے تھے جبل ثور سے واپس ہوئے اور پھر وہاں سے واپس جدہ کی طرف روانہ ہوئے ابھی آدھے سے زیادہ مقدس اور تاریخی مقامات رہتے تھے۔
جدہ سے ہوتے ہوئے مدینة منورة کی طرف کا سفر شروع کیا راستے میں میدان بدر بھی واقع ہے جہاں پر تاریخی غزوہ بدر ہوا تھا وہاں پر بدر کی بستی دیکھی اور شھداء بدر کا مقبرہ بھی اور پھر مدینة کے لئے روانہ ہو گئے مدیںہ میں ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے پہلے جبل احد پر چلے گئے وہاں سے واپس مسجد نبوی ائے اور عشاء کی نماز وہاں ادا کی اس کے بعد تقریبا ہم سب کے دماغ سو چکے تھے آہستہ آہستہ آنکھیں بند ہونے لگی تو آرام کرنے کی غرض سے ایک کمرہ لیا(رات کے تقریبا 2 بج رہے تھے آنکھیں نیند سے چور تھی ایسی نیند کے چلتے چلتے بھی سو جاتے ساجد اور نوید بھائی کو مسجد نبوی میں بٹھا کے میں اور عبداللہ بھائی کمرے کی تلاش میں نکلے 15 سے 20 ہوٹلوں پر پتہ کیا لیکن کسی پر کمرے خالی نہ اور کہں غالی ، غالی عربی میں مہنگے کو کہتے ہیں بھر ہال ایک عدد پاکستانی دوکان دار سے مشورہ کرنے رکے تو اس نے بتاہا کے اس کے پاس ایک کمرہ ہے لیکن اس مین میٹریس زمین پر ڈالے ہیں ہم نے کہا اگر ہوا میں بھی ہوں تو چلیں گے ، ہم اس کے ساتھ ہو لئے اس نے ہمیں بتایا کے اس کا کمرہ 25 منٹ کی مسافت پر ہے ہم نے اپنے باقی ساتھیوں کو کال کر کے راستے میں بلایا اور اس کے ساتھ ہو لئے وہ ہمیں لے کر ایک بھت پیارے ہوٹل میں گیا اور پانی پلایا احتیاطا ایک بھائی نے پانی نہ پیا اور تھوڑی دیر بعد اس نے ہمیں کہا کے چلیں کمرہ تیار ہے وہاں سے اس نے ہمیں ایک اور بندے کے ہمراہ کیا اور اپنے پیسے مانگننے لگا ہم نے کہا کمرے میں تو پھنچائو کہنے لگا پیسے دو تو تھیک نہیں تو کمرہ نہیں ملے گاحرم کی حدود میں ہونے کی وجہ سے بس برداشت کر گئے اور واپس جا کر ایک غالی ہوٹل میں کمرہ لیا لیکن اس واقعہ کے بعد نیند آنکھوں سے غائب ) اور چند گھنٹے ارام کیا اور پھر خیبر کا قلعہ دیکھنے کی خواہش نے جگا دیا اور وہاں سے خیبر کی طرف چل پڑے۔
خیبر کی بستی اور قلعہ خیبر دیکھ کر ایمان تازہ ہو گیا غزوہ خیبر میں جب کفار قلعے کے اندر محصور ہو گئے تھے تب حضرت علی نے قلعے کا دروازہ اپنے ہاتھوں سے اکھاڑ لیا تھا ، خیبر کی بستی سے مفت کی کھجوریں توڑ کے کھائین اور مدائن صالح کا رخ کیا اور مدائن صالح جا کر رکے۔ مدائن صالح میں پہاڑوں کو تراش کر گھر بنائے ہوئے ہیں ہمیں ایک سب سے بڑے پہاڑ کی چوٹی پر گھر دیکھ کر یہ تجسس ہوا کہ وہاں کیسے جاہا جائے ارادہ باندھا اور اس کے ارد گرد گھومتے گھومتے اس کی چوٹی پر جا پہنچھے یہ پہاڑ عام پہاڑ نہیں ہیں یہ بڑی بڑی چٹانیں ہیں جن کو تراش کر گھر بنائے گئے ہیں وہاں کے دلفریب مناظر کو کیپچر کر کے العلا شھر چلے گئے وہاں کھانا کھا کر ہم مدیںہ روانہ ہو گئے اور باقی ساتھی ینبع کی طرف۔ مدینة پہنچ کر مسجد قباء اور مسجد قبلتین کی زیارت کی اور وہاں سے واپس جدہ روانہ ہوئے جدہ میں اپنے ساتھیوں کو ڈراپ کر کے میں اور ساجد بھائی واپس ریاض کی طرف نکل پڑھے ،جدہ سے ریاض کا 1000کیلو میٹر کا سفر اور پھر سے اکیلا ڈرائور خدا سے مدد مانگی اور نکل پڑے ساجد بھائی تو فورا ہی سو گئے میں نے پانی کی تقریبا 10بوتلیں لے لی اور مسلسل اس کے گھونٹ بھرتے بھرتے آدھا راستہ کراس کر آیا لیکن پھر بھی نیند کا غلبہ تھا کہ جان نہ چھوڑے ، موبائل میں کارڈ لوڈ کیا اور کالز کرنے لگ گیا تا کہ نیند نہ آئے اور بالاخر نا نا کرتے ہوئے 6656کا سفر 6 دن میں طے کر کے واپس اپنے گھر آ پھنچے