گھر سے روانہ ہوئے۔ گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ میرے ہاتھ میں تھی۔ جب میں گاڑی میں موجود ہوں تو میری کوشش ہوتی ہے کہ میں خود ڈرائیونگ کروں۔ بنیادی طور پر میں ایک ٹھنڈے ذہن کا ڈرائیور ہوں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ بر سکون ڈرائیونگ کروں چاہے کچھ وقت زیادہ ہی لگ جائے۔ حالانکہ دونوں کزنز بھی ڈرائیونگ جانتے ہیں لیکن پورے سفر میں گھوڑے کی لگامیں میرے ہی ہاتھ میں رہی۔ گھر سے نکلنے سے پہلے تمام کے شناختی کارڈز کے پرنٹ ایک ہی کاغذ پر نکلوائے گئے تاکہ کہیں مکمل انٹری کی صورت میں کوئی برابلم نہ ہوں۔ شمالی علاقہ جات میں سیر پر جانے سے پہلے میں ہمیشہ شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اور گاڑی کی رجسسٹریشن بک لازمی ساتھ رکھتا ہوں تاکہ کسی بھی پریشانی سے بچا جا سکے۔مناسب رفتار سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے تقریبا 15 سے 20 منٹ میں ٹھوکر نیاز بیک سے موٹر وے کی راہ لی۔ شام کے ساتھ موسم میں کچھ بہتری ہو گئی تھی۔ موٹر وے پر آ کر رفتار میں اضافہ ہو گیا اور احمد کے کہنے پر اے سی بند کرکے شیشے کھول دیئے ۔ حالانکہ احمد خود اے سی کا کام کرتا ہے لیکن بنیادی طور پر اسے اے سی میں سفر کرنا پسند نہیں کیونکہ اس سے اس کا سر درد شروع ہو جاتا ہے۔ پہلے ہم نے سوچا تھا کہ جی ٹی روڈ سے سفر کیا جائے لیکن وہاں ڈرائیور سکون سے ڈرائیونگ نہیں کر سکتا ۔ کبھی بریک کبھی کلچ، کبھی گیئر کی تبدیلی ۔ دوسرا ٹرک ڈرائیور جلدی سے راستہ نہیں دیتے جس سے سپیڈ بھی متاثر ہوتی ہے۔ حالانکہ موٹر وے کا راستہ جی ٹی روڈ سے زیادہ طویل ہے۔ لیکن پر سکون اور محفوظ سفر کے لئے موٹر وے کو جی ٹی روڈ پر فوقیت دی گئی۔ موٹر وے روڈ بہترین تھا۔ گاڑی کو پانچویں گیئر میں ڈال دیں اور سکون سے بیٹھ جائیں۔