ہُنزہ کے عقابوں کے نشیمن میں۔۔۔ ایگلز نیسٹ
مستنصر حسین تارڑ
دیران ریسٹ ہاؤس سیاحوں کا خاصا پسندیدہ مقام تھا۔۔۔ اکثر لوگ بال بچوں سمیت ہُنزہ یا گلگت جاتے ہوئے دوپہر کے کھانے کے لئے ادھر آ نکلتے اور خوب رونق ہو جاتی۔ ایک روز پوری آٹھ خواتین اور وہ برگر نسل کی نہ تھیں، گھریلو اور سادہ قسم کی تھیں، وارد ہو گئیں، اور ان کے ہمراہ ان کے خاندان کا کوئی مرد نہ تھا، پورے شمال میں دندناتی پھرتی تھیں۔۔۔ میں ان کی ہمت اور پہاڑوں سے عشق کا معترف ہو گیا۔۔۔ ایک ڈاکٹر صاحب خاصے باریش تشریف تھے ، اپنے بال بچوں سمیت تشریف لائے اور فروکش ہو گئے۔۔۔ وہ ہر دوچار ماہ بعد ادھر آتے ہیں، مناپن میں میڈیکل کیمپ قائم کرتے ہیں، نہ صرف بیماروں کا علاج کرتے ہیں بلکہ اپنے پلّے سے ان کو دوائیاں بھی مفت پیش کرتے ہیں، ایسے بے غرض لوگ ہی پاکستان کی پہچان ہیں۔۔۔ ایک اور خاتون اپنے متعدد بچوں کے ہمراہ یہاں مقیم تھیں، سارا دن کچھ نہ کچھ اپنے بچوں کو کھلاتی رہتیں، کھلاتے ہوئے خود بھی کھاتی چلی جاتیں۔۔۔ کسی سے کہنے لگیں، یہ بندہ کہتا ہے کہ میں راکاپوشی کے بیس کیمپ گیا تھا۔۔۔ دوستوں کے سہارے اٹھتا بیٹھتا ہے، سارا دن ہائے ہائے کرتا پھرتا ہے، ایک سیڑھی پر چڑھ نہیں سکتا راکاپوشی پر کہاں چڑھ گیا۔۔۔ اللہ معاف کرے یہ ادیب لوگ بھی کیسی کیسی چھوڑتے ہیں۔
اسرار نے مجھے ایک زبردست حیرت سے دوچار کیا۔۔۔ ریسٹ ہاؤس کے ڈائننگ روم میں باقاعدہ ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں مجھے ایک اونی ٹوپی اور نہایت دبیز کاڑھا ہوا قدیم شمالی چوغہ پیش کیا گیا۔۔۔ مجھے جب چوغہ پہنایا گیا تو جذبۂ تشکر سے میری آنکھوں میں نمی آ گئی۔ یہ چوغہ وادئ یاسین کے آخری گورنر اورنگر کے راجہ محبوب علی خان (1898-1938ء) کی ملکیت تھا جو ننھیال کی جانب سے اسرار کے عزیز تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ شمال کے حوالے سے آپ کی جو خدمات ہیں اور آپ نگر تشریف لائے تو میں کیسے آپ کی پذیرائی کروں۔ یہ چوغہ ہمارے خاندان میں چلا آتا تھا، ہمارے لئے بیش قیمت اور بزرگوں کی یادگار تھا تو یہ میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔۔۔ اس نے مجھے اپنے ہاتھوں سے چوغہ پہنایا اور اس عنایت پر میرے ساتھیوں نے خوب خوب تالیاں بجائیں۔ مجھے امید ہے کہ میرے بعد یہ چوغہ میرے پوتوں کے بھی کام آئے گا۔۔۔ فی الحال میں اس نادر تحفے کو موسم سرما کے لئے سنبھالتا ہوں تاکہ اسے پہن کر محسوس کروں کہ میں ایک مرتبہ پھر راکاپوشی نگر پہنچ گیا ہوں۔ یہ تو ممکن نہ تھا کہ ہم نگر سے منہ موڑ کر واپس لاہور چلے جاتے، ہُنزہ میں کچھ قیام نہ کرتے۔۔۔ پچھلے پہر ہم نے اسرار اور لیاقت کی مہربانیوں اور میزبانیوں کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا، میں نے وعدہ کیا کہ واپسی پر نگر کے بارے میں بہ شرط زندگی تحریری طور پر کچھ نہ کچھ پیش کروں گا اور پھر بہ چشم نم دیران ریسٹ ہاؤس سے جدا ہو گئے۔۔۔ مناپن گاؤں میں سے گزرتے شاہراہ قراقرم پر آئے اور پُل پار کر کے دوسری جانب چلے گئے۔
ہُنزہ بدل چکا تھا۔۔۔ میرے ذہن میں آج سے ربع صدی پیشتر کا ہُنزہ تھا، کچے راستے، پتھریلے مکان، خواتین مقامی لباسوں میں ٹوپیاں پہنے۔۔۔ جس گھر میں جی آئے جھانک لو، اہل خانہ آپ کو خوش آمدید کہیں گے، آپ کی خدمت میں خشک خوبانیاں اور بادام پیش کریں گے، صحن میں پھلدار درخت اور گلیشئر پانی کی ایک مختصر ندی۔ ہُنزہ کے پانیوں میں ریت ہوا کرتی تھی، لیکن اب گاؤں قصبے اور قصبے شہروں میں بدل چکے ہیں۔۔۔ ناصر آباد اور علی آباد کے شاپنگ سنٹر، وسیع بازار اور وہ سب کچھ جو پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر میں میسر ہے، بلکہ علی آباد کا کچھ حصہ تو لاہور کی لبرٹی مارکیٹ لگتا تھا۔ ہُنزہ کے مرکزی بازار میں کچھ قدیم شناساؤں سے ملاقات ہوئی اور پھر ہم نے ڈاکٹر احسن کی فرمائش پر ایک ریستوران میں خوبانی کا جوس پیا۔۔۔ یہ وہی پوشیدہ سا ریستوران تھا جو وادی پر کھلتا تھا اور جہاں ??سنولیک?? سے واپسی پر ایک شام آسٹریلوی لڑکی جو سٹیفی گراف کی ہم شکل تھی میرے ہمراہ تھی اور وہ مجھے ہُنزہ میں ٹھہر جانے کو کہہ رہی تھی۔۔۔ وہ کیا ہی سحر انگیز شب تھی۔۔۔ ہم چڑھائی چڑھتے اور میں تب بھی تھک جاتا تھا اور اب زیادہ تھکتا تھا، قدیم قلعہ کے سائے میں ایک سکول کے میدان میں پہنچے جہاں بچوں کے ایک بینڈ نے سلامی دے کر مجھے ہُنزہ میں خوش آمدید کہا۔۔۔ یہ طے ہو چکا تھا کہ ہم آج کی شب ہُنزہ کے مشہور ہوٹل ??ایگلز نیسٹ?? یعنی ??عقاب کے گھونسلے?? میں بسر کریں گے، اس سلسلے میں اس کے مالک علی مدد سے بھی رابطہ ہو چکا تھا جو ہُنزہ کے ہوٹلوں کی ایسوسی ایشن کا چیئرمین بھی ہے۔ مجھے اندازہ نہ تھا کہ یہ اتنی بلندی پر واقع ہے اور ہونا بھی چاہئے تھا کہ عقاب تو بلندیوں پر ہی گھونسلے بناتے ہیں۔ ہماری ویگن ہُنزہ کے قدیم اور بلند دیہات میں سے بل کھاتی اوپر چڑھتی چلی گئی اور اس کے ساتھ ہمارا سانس بھی رُکتا اور چڑھتا چلا گیا۔۔۔ ہوٹل کے ریسپشن کے برابر میں ایک ٹیلہ تھا جسے دیکھ کر فوٹوگرافر حضرات کی تو باچھیں کھل گئیں۔۔۔ ??تارڑ صاحب آ جایئے، سورج غروب ہونے کو ہے اور اس ٹیلے کی چوٹی سے راکاپوشی کے علاوہ درجنوں دنیا کی خوبصورت ترین برفانی چوٹیوں کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔۔۔ دور دور سے سیاح اس غروب کے منظر کے لئے یہاں تک آتے ہیں??۔ شفیق الرحمن لکھتے ہیں کہ روم میں ایک مقام پر کوچ رکی اور گائیڈ نے اعلان کیا کہ حضرات ذرا بلندی پر واقع کلیسا میں مائیکل انجلو کا تراشا ہوا مشہور زمانہ حضرت موسےٰ کا مجسمہ ہے آیئے چلتے ہیں تو ایک بوڑھے سیاح نے ان درجنوں سیڑھیوں کو ایک نظر دیکھا جو کلیسا تک اٹھتی تھیں اور کہنے لگا??میرا خیال ہے حضرت موسےٰ کے بغیر بھی میرا گزارہ ہو سکتا ہے?? چنانچہ میں نے ٹیلے کی بلندی دیکھی اور پھر اپنے اکڑے ہوئے بدن کو دیکھا اور کہا ??میرا خیال ہے برفانی چوٹیوں پر غروب آفتاب کا منظر دیکھے بغیر بھی میرا گزارہ ہو سکتا ہے?? اور وہ چاروں فوٹوگرافر بندروں کی طرح کودتے ہوئے ٹیلے پر چڑھ گئے۔۔۔ ??ایگلز نیسٹ?? کا منیجر اور مالک علی مدد، خوش شکل اور خوشگوار کسی پرانی انڈین فلم کا ہیرو لگتا تھا۔۔۔ اس نے میری آمد پر ایک تقریر کی اور مجھے خوش آمدید کہا۔۔۔ ??ایگلز نیسٹ?? اتنی بلندی پر تھا کہ یہاں سے ہُنزہ کا قدیم قلعہ ایک کھلونا سا دکھائی دیتا تھا اور کریم آباد قدموں میں پھیلا ہوا تھا۔۔۔ کمرے میں داخل ہوا تو اس کی آرائش اور سہولتیں کسی فائیوسٹار ہوٹل سے کم نہ تھیں اور بالکونی سے وادی کا نظارہ تو حیرت انگیز تھا۔۔۔ اور پھر شام ہو گئی۔۔۔ ایک ایسی شام جو مدتوں یاد رہتی ہے۔۔۔ برفانی سہانی جادوئی شام۔۔۔ ہم نیچے ریسپشن ہال میں گئے تو اس کے برابر وسیع ڈائننگ روم کی ثقافتی سجاوٹ اور آرائش نے ہمیں بے حد متاثر کیا۔ دیواروں پر قدیم قالین، تصاویر، پرانے ظروف او رغالیچے۔۔۔ میں نے ایسی باذوق آرائش کم ہی دیکھی تھی بلکہ دیران ریسٹ ہاؤس میں کسی حد تک دیکھی تھی۔۔۔ علی مدد کے بھائی جو بے حد خوش لباس تھے وہ بھی بہت مہربان تھے۔ انہوں نے خصوصی طور پر مجھے اپنے عمررسیدہ والدین سے ملایا، صاف ستھرے اور شفقت سے دمکتے چہرے۔۔۔ والدہ کی آنکھوں میں اپنے بیٹوں کی کامرانی اور کامیابی کا فخر جھلکتا تھا۔۔۔ ??ایگلز نیسٹ?? انسانی عزم، حوصلے اور بدن توڑ مشقت کی داستان ہے۔۔۔ کہا جاتا ہے کہ ہُنزہ کا کوئی گائیڈ جاپانی سیاحوں کو اس ٹیلے تک لایا کرتا تھا تاکہ وہ ایک عظیم برفانی سلسلے پر غروب اور طلوع کے حیرت ناک مناظر دیکھ سکیں، قریب ہی ایک غریب کسان کا جھونپڑا تھا اور تھوڑی سی زمین تھی۔ وہ ان جاپانی سیاحوں کے لئے گھر سے چائے بنوا کر لاتا تو ایک جاپانی نے اسے مشورہ دیا کہ وہ یہاں ایک دو سادہ سے کمرے تعمیر کر لے تو وہاں سیاح شب بسر کر کے اگلی صبح طلوع آفتاب سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور اس نے کچھ مالی معاونت بھی کی۔۔۔ وہ دو کمرے جو اس شاندار ہوٹل کا آغاز ثابت ہوئے اب بھی موجود ہیں۔ پورے خاندان نے اس ہوٹل کی تعمیر کے لئے مزدوروں کی مانند مشقت کی، چٹانیں توڑیں، پتھر ڈھوئے، دن رات محنت کی اور آج اس کا نتیجہ ??ایگلز نیسٹ?? کی صورت پوری دنیا میں مشہور ہے۔ اور یہ نام اس لئے رکھا گیا کہ ایک روز اس بلندی پر ایک عقاب پرواز کر رہا تھا جسے دیکھ کر یہ نام وجود میں آیا۔
??ایگلز نیسٹ?? میں قیام ،مدد علی کی میزبانی میرے لئے ایک یادگار تجربہ تھے۔
شہباز کرے پرواز تے جانے حال دِلاں دے