[right]
ایسی بائیک ھے۔ ویسی بائیک ھے۔ کیسی بائیک ھے۔
کے متعلق مختلف جگہوں پر مختلف رائے۔ yamaha ybr 125g
ساری رائے , سارے کمنٹس,سارے تھریڈ اپنی جگہ مجھ سے پوچھیں کے بائیک کیسی ھے۔ تومیں وہ بتاوں گا۔ جو سچ ھے۔
adventures leagueکیونکہ میں اور
دوسرے ممبر حسان بن حیدر واحد بائیکر ھیں۔ جو سب سے پہلے اس پر شمالی علاقہ جات کی سیر پر گئے۔
تو اس لحاظ سے میری رائے معتبر تصور کی جائے گی۔ کیونکہ میں نے اس پر 3500 کلومیٹر کا سفر کیا۔
کشمیر کی ساری پٹی کور کی, تاوں بٹ بھی گیا, اور تاوں بٹ بالا پر جانے والی پیدل پگٹنڈی پر بھی بائیک لے گیا۔
شاردہ سے سرگن اور سرگن سے نوری ٹاپ 13000 فٹ کی بلندی پر بھی گیا۔ اور بابو سر ٹاپ 13700 فٹ پر بھی۔
سوست سے ہوتے ہوئے بلند وبالا خنجراب پاس 16700 فٹ کو بھی اسی بائیک پر اسیر کیا.
۔ شاہراہ قراقرم پر عطا آباد ٹنل کے فل سلپری فرش پر اس کی گرپ کو بھی ٹیسٹ کیا۔ آن روڈ بھی چلائی
اور نوری ٹاپ کا خطرناک آف روڈ ٹریک بھی اسی دلاری پر کیا۔ ندی نالوں کے یخ بستہ پانیوں میں بھی چلائی۔
اور چھوٹے موٹے پتھروں سے بھرےٹریک پر گرفت اسی کی مرھون منت ھے۔
دوسرے لفظوں میں کوئی آن روڈ یا آف روڈ ٹیسٹ ایسا نہیں جو میں نے اس پر نہ کیا ھو۔
اور میں یہ بات پورے دعوے سے کہتا ھو۔ کہ اس کیٹگری یا اس پاور رینج میں اس سے اچھی بایئک پاکستان میں نہیں۔
حالانکہ یاماھا کے متعلق میری رائے کوئی اتنی اچھی نہیں تھی۔ کیونکہ یاماھا کے متعلق ایک لطیفہ بہت مشہور ھے۔
وہ یہ کہ ایک والد اپنے بیٹے کو کہتا ھے۔ کہ بیٹا اگر تم میٹرک میں اچھے نمبروں سے پاس ھو گئے
تو میں تمیں ھنڈا لے کر دوں گا۔ کالج جانے کے لئے اور اگر تم فیل ھو گئے تو تب بھی بائیک ھی لے کر دوں گا۔
اور وہ بھی یاماھا ۔۔۔۔۔۔۔گھروں میں دودھ کی سپلائی کے لئے۔
کیونکہ یاماھا کے ان ماڈل سے پہلے یاماھا کے تصور کے ساتھ گوالے کا تصور بھی ان ٹپکتا تھا۔
اور وہ گوالہ جو دودھ میں پانی نہیں ملاتا تھا۔ بلکہ پانی میں دودھ ملا کر اسی عجوبہ روزگار پر ہمارے گھر دینے آتا تھا۔
خیر یہ بات تو مزاق کی تھی۔
اس مزاق کے برعکس یاماھا نے واقعی اس بجٹ میں ایک شاندار بائیک دی ھی۔
اور یقینا اب اس دوڈ میں ان کمپنیوں کو بھی ھوش آجائے گئی۔ جو ہمیں صرف بائیک کی ٹینکی کا سٹکر بدل کر نئے سال کا ماڈل پیش کر دیتی ہیں۔
ان اعلی پایہ کی کمپنیوں کا حال اس بچے کا سا ھے۔ جو ہانپتے کانپتے گھر آتا ھے۔ اور اپنی ماں کو خوشخبری دیتا ھے۔
کہ ماں میں اج ریس میں فرسٹ آیا ھو۔ ماں اپنے لخت جگر کو چومنے کے بعد پوچھتی ھے۔ کہ بیٹا سیکنڈ اور تھرڈ کون آیا۔
بیٹا نہایت ھی محبت سے اپنی ماں کو کہتا ھے۔ کہ ماں میں ریس میں اکیلا ھی تھا۔
شکر ھے یاماھا نے ایک فرد کی ریس میں اور بھی افراد کو شامل کیا ھے۔ تاکہ مقابلے کی فضا پیدا ھوسکے۔
اور بچاری پاکستانی عوام کو کوئی کام کی بائیک دے سکے۔حالانکہ یہ عوام صرف ھنڈا کی سائیلنسر کی زور دار آواز
سن کے ھی حوش ھو جاتی ھے۔ قصور عوام کا بھی نہیں ھے۔ بچاری عوام کے پاس اور کوئی چوائیس بھی نہیں تھی۔
میں نے ہمیشہ ٹور ھنڈا پر ہی کئے۔ پاکستان کے کافی علاقوں کی خاک چھانی ھے۔ اور میں ھنڈا کا لور تھا۔
لیکن اس دفعہ کے یاماھا کے ٹور نے مجھے جنجھوڑ کے رکھ دیا۔ کہ میں اس سے پہلے کسی پرانے دور کی مشین پر وقت ضائع کرتا رھا ھوں۔
یاماھا کے اوپر کئے ھوئے ٹور نے مجھے وہ مزہ دیا جو کہ اس پہلے سوزوکئ یا ھنڈا نے نہیں دئیے۔
یہ بات میں یاماھا کہ خوشامد میں نہیں کہہ رھا۔ کیونک میں میں نے بائیک مارکیٹ سے لی ھے۔ یاماھا کی تعریفوں کے عوض نہیں لی۔
پورے سفر میں نے یاماھا کو سفر کی زینت ھی نہیں بنایا بلکہ ھر لحاظ سے اس کا ٹیسٹ بھی لگایا۔
اور اس کیٹگری یا اس پاور کی کی حامل رینج میں اس کو ھر لحاظ سے اعلی پایا۔
اپنے کئے ھوئے ٹور کے مشاھدے کے مطابق میں اپنے کمنٹس آپ کے ساتھ شئیر کرتا ھوں تاکہ جو لوگ یاماھا کی پرفارمنس
کے بارے میں کسی اچھے دلائل کے منتظر ھیں۔وہ آسانی کے ساتھ اپنا فیصلہ کر سکے۔ جن میں پاک ویل کے طارق مجید صاحب بھی ھیں
جو صرف میرے کمنٹس کے انتظار ابھی تک بائیک نہیں لے سکے۔
تو ایک ایک کر کے اس بائیک کا عقابی مشابدہ کرتے ھیں۔
سب سے پہلے میں عرض کر دوں کہ یاماھا کو میں بہثیت سیمی آف روڈ یا سیمی ٹورنگ بائیک کے طور پر لے رھا ھو۔ فیملی بائیک کے طور پر نہیں۔
کیونکہ اس کا موازنہ فیملی بائیک کے طور پر نہیں کیا جاسکتا۔ فیملی بائیک کی خصوصیات اس میں نہیں۔ جیسا کہ ھنڈا ایک فیملی بائیک ھے۔
کیونکہ کے اس کی ٹینکی کی بناوٹ ایسی ھے۔ جس پر آپ بچے نہیں بٹھا سکتے۔
اس کے ھینڈل کے ساتھ کھانے کا ٹفن یا شاپر نہیں لٹکا سکتے۔ اس کو عوامی پارکنگ میں بے فکری کے ساتھ کھڑا نہیں کر سکتے۔
اس لیے اس کو وہ لوگ خریدے۔جو چھوٹے موٹے ٹور یا اپنے شہر میں ایک مزے کی ڈرائیو لینا چاھتے ھیں۔
اب چلتے ھیں اس کے باقی پہلوں پر
لوگوں کو اس کی ساونڈ پر اعتراض ھے۔ تواس کے لئے عرض ھے۔ اگر آپ نے ساونڈ کو صرف اس غرض سے لینا ھے۔
کہ محلہ میں موجود آپ کے شریکوں اوررشتہ داروں کو یا آپ کی ان کو پتہ چلے کہ جناب موصوف گلی میں چکر لگا رھے۔ تو اس حد تک تو یہ بات ٹھیک ھے۔ لیکن اگر آپ یاماھا کو بطور ٹورنگ بائیک کے طور ر لے رھے ھیں۔ تولمبے ٹور میں تیز آواز آپ کے عصاب کو تکھاتی ھے۔ ناکہ سکون دیتی ھے۔
ھنڈا پر میں ایک دفعہ گلگت سے ھری پور ایک ڈرائیوپر آیا تھا۔ اور ھری پور پہنچتے پہنچتے میرے دماغ کی دھی ھو گئی تھی۔
اور اس دفعہ یاماھا پر گلگت سے اسلام آباد ایک ڈرائیو پر آنے کے باوجود میں پرسکون رھا۔ اس کی مثال ایسے ھی ھے۔
جیسے تیز آوا ز کے لاوڈ سپیکر کے سامنے آپ زیادہ دیر نہیں بیٹھ سکتے اور ہلکی ہلکی آواز کے سر آپ دیر تک سن سکتے ھیں۔ لمبے سفر میں سائیلنسر کی معتدل آواز آپ کو کم تکھاتی ھے۔ بنسبت تیز آواز کے۔ اس لحاظ سے یاماھا کی آواز بہت بہتر ھے۔
اس کے بعد بات ھوگی۔ اس کی ٹینکی کی بناوٹ پر۔ اسکی اوپر سے ابھری ہوئی ٹینکی کئی لحاظ سے اچھی ھے۔
ایک تو پٹرول کی وافر گنجائش مل جاتی ھے۔ سپیڈ میں گاڑی چلاتے ہوئےاچانک بریک لگانے کی وجہ سے
اس کی اوپر کو ابھری ھوئی ٹینکی ولاسٹی بریکر کا کام کرتی اور اپنے سوار کو پھسل کر ٹینکی پر
چڑھ جانے سے بچاتی ھے۔ اترائی پر بھی یہی سہولت مل جاتی ھے۔ اور سوار اگے کی طرف پھسلنے سے بچا رھتا ھے۔
اور یہ بناوٹ اس کو پہلی نظر دیکھنے والے کو ہیوی بائیک کی لک دیتی ھے۔
اس کے بعد سیٹ کے متعلق عرض کردوں۔ کہ میں ھمیشہ لونگ ٹورنگ پر فوم کی گدی یا ٹائر کی ٹیوب تکھاوٹ سے بچنے
سے ساتھ لے کر جاتا ھو۔ اس بار بھی ساتھ لے کر گیا ھو۔ لیکن یاماھا کی آرام دہ سیٹ کی وجہ سے
وہ گدی سارے راستے استعمال نہیں ہوئی۔ سیٹ آرام دہ بھی ھے۔ اور کشادہ بھی۔
اس کے بعد اس کے شاک کو لیتے ھیں۔لونگ ٹور میں شاک ایسے ھونے چاھئے جو کے ان روڈ بھی
مزے دار ھو اور آف روڈ کے نشیب و فراز کو بھی خود ھی جزب کریں۔ اور سوار کو ایک جھٹکوں سے پاک رائیڈ کا لطف آئے۔
اس کی گول شیپ کی لائٹ دیکھنے میں بھی اچھی لگتی ھے۔ اور کارکردگی کے لحاظ سے بھی ۔میں ھمیشہ رات کی ڈرائیونگ کے دوران ھیڈ لائٹ کی کمی
کا شکوہ کرتا تھا۔ لیکن اس کی ہیڈ لایٹ کی پروجیکشن نے میرا شکوہ ختم کردیا۔ تقریبا ھائی بیم پر پونا کلومیٹر مار کرتی ھے۔
اور آف روڈ میں اس کی لو بیم ایک ایک نشیب فراز کو واضح کر دیتی ھے۔اور سب سے بڑھ کر ڈائریکٹ بیٹری سے چلنے
کی وجہ سے بغیر انجن سٹارٹ کئے اس کی روشنی کا بھرپور مزہ لے سکتے ھیں
اس کے بعد کچھ باتیں اس کے انجن کے بارے میں۔
اس کا انجن او۔ایچ۔ سی ٹیکنولوجی کا حامل ھے۔ اور جو پرابلم ھنڈا کا انجن بلندی پر آکسیجن کی کمی کی وجہ سے کرتا ھے۔
یعنی فل مسنگ یا بار بار بند ھو جانا وہ اس میں نہیں ھے۔نوری ٹاپ بابو سر ٹاپ اور خنجراب ٹاپ کی بلندی پر اس
کی کارکردگی اعلی رھی۔ اکسیجن کی کمی کی وجہ سے اس کے انجن کی پاور کم ھو جاتی ھے۔ لیکن یہ بند یا مسنگ نہیں کرتا۔
انجن کے نیچے لگی پروٹکٹنگ شیلڈ بھی ایک اچھا اضافہ ھے۔ جس سے کا فائدہ آف روڈ میں میں نے لیا۔ کیونکہ آف روڈ میں نیچے
سے جو پتھر انجن کو لگتے ھیں ۔وہ انجن کو نقصان دیتے ہیں۔ لیکن اس کے نیچے لگی شیلڈ کی وجہ سے انجن محفوظ رھا۔
انجن کی کارکردگی میرے ٹور کے دوران تو ہر لحاظ سے اچھی رھی۔ صرف ایک بات بار بار زہن میں آتی کہ کاش
اس باڈی کے ساتھ 150 سی سی کا انجن ھوتا۔ 125 سی سی کے انجن کے ساتھ اگر آپ کم سامان کے ساتھ بہت
زیادہ چڑھائی چڑھتے ھیں۔ تو اس کی کارکردگی بہت بہتر ھوتی ھے۔ لیکن زیادہ سامان کے ساتھ پھر آپ کو
انجن کی پاور کے ساتھ ساتھ اپنی بھی پاور اور ڈرائیونگ کی قابلیت لگانی پڑتی ھے۔
جیسا کے ہمارے ساتھ نوری ٹاپ پر ہوا۔ کہ ہمارے ایک تیسرے ساتھی جو کہ برانڈ نیو سوزوکی 150 پر تھے۔
اپنے انجن کی پاور کا درست استعمال نہ کر سکے۔ اور نوری ٹاپ کی چڑھائی سے پہلے ھی کلچ پلیٹوں سے ہاتھ دو بیٹھے۔
اصل بات یہ کہ اگر کمزور ڈرائیور مرسڈیز پر بیٹھ جائے اور غلط ڈرائیونگ کرے تو اس میں گاڑی کا کیا قصور۔
جب ہم لوگ سر گن گاوں سے اگے نکلے تو چیک پوسٹ والوں نے ہمیں روکا۔ اور ہمیں کہا کہ آپ لوگ کم طاقت کی بائیکوں پر
چڑھائی کیسے کرے گے۔ کیونک دو روز پہلے کچھ 500 سی سی والی لڑکے نوری ٹاپ نہیں چڑھ سکے۔ان میں سے کچھ کی کلچ پلیٹ فارغ ہو گئی تھی۔
اور واپس سرگن گاوں سے جیپ لے کر بایئک کو اس پر لے گئے۔ ان کے بقول اس روڈ کے اوپر تازہ تازہ بلڈوزر چلایا گیا ھے۔
اس وجہ سے بائیک کے ٹائر مٹھی کی دبیز تہہ میں پھس جاتے ہیں۔ اور چڑھائی کو ناممکن بنا دیتے ہیں۔
خیر ہم نے اللہ کا نام لیا۔اور چڑھائی پر بائیک ڈال دی۔اور اللہ کے فضل سے نوری ٹاپ کو سر کیا۔
یاماھا کےاوپر یہ تاثرات میرے سفر سے متعلق ھیں۔ ھو سکتا ھے ۔آپ کو سفر کے دوران اس سے مشکل حالات سے دوچار ہونا پڑ جائے۔
اب آتے ہیں اس کے الائے رم کی طرف۔۔۔۔ اصولی طور پر آف روڈ بائیک میں الائے رم نہیں لگے ہوتے۔ تاروں کے جال والے رم ھوتےہیں۔
اس بات پر مجھے بھی تحفضات تھے۔اور کچھ لوگوں نے بھی ڈرایا کہ یہ الائے رم پتھریلے ٹریک پر کسی نقصان کا سبب بنے گئے۔
اور یہ ڈر نوری ٹاپ کے پتھریلے ٹریک پر ہر وقت ساتھ رھا۔ لیکن الحمداللہ کسی قسم کی کوئی مشکل الاےرم کی وجہ سے پیش نہیں آئی۔
بلکہ الائے رم کا ٹیسٹ میرے ساتھ لگا۔ وہ بھی کمال تھا۔ بابو سر ٹاپ سے چلاس جاتے ہوئے رات کو دس بجے میری بائیک کا ٹائر پنکچر ہو گیا۔
اور پنکچر کٹ بھی اگے پیچھے ھوگی۔ بابو سر ٹاپ سے چلاس تک میں نے پنکچر ٹائر کے ساتھ بمہ سامان اور
بائیک کے اوپر بیٹھ کر میں نے یہ سفر تین گھنٹے میں کیا۔ چلاس پہنچتے پہنچتے صرف ٹیوب پھٹی۔ نا ٹائر پھٹا
اور نہ ھی الاے رم کو کچھ ھوا۔ بابوسر سے چلاس تک کے سفر میں پنکچر ٹائر کے ساتھ سفر میری زندگی کا نہ بھولنے والا واقعہ ھے۔
صبح اٹھ کر میں صرف ٹیوب چینج کروائی۔ اور اسی الائے رم کے ساتھ ابھی تک بائیک چلا رھا ھو۔ یہ ٹیسٹ الائے رم کی مضبوطی کا منہ بولتا ثبوت ھے۔
قصہ مختصر میں نے یاماھا کو ھر موڑ پر کامیاب پایا۔ اور میں کہہ سکتا ھو کہ یاماھا خریدنے کا فیصلہ درست تھا۔
[/right]