پیش خدمت ہے نئی سوزوکی مہران – سال 2050 کا خاص تحفہ!

کیا آپ کو 13 مئی کی تاریخ یاد ہے؟ اگر نہیں تو چلیے میں چند اشارے دیتا ہوں جسے پڑھ کر شاید آپ کو یاد آ ہی جائے۔ اس تاریخ کو پہلی بار ہم نے ایک ایسی گاڑی کو رخصت کیے جانے کی خبر سنی تھی کہ جو عرصہ دراز سے پاکستان میں راج کر رہی ہے۔ اب تک آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ میں جس گاڑی کا ذکر کر رہا ہوں وہ کوئی اور نہیں بلکہ سوزوکی مہران (Mehran) ہی ہے جو پاکستان میں سب سے زیادہ تیار و فروخت ہونے والی گاڑی کا اعزاز بھی رکھتی ہے۔ سوزوکی مہران کو 1989 میں ایک Kei کار کے طور پر پیش کیا گیا تھا اور تب اس کی قیمت صرف 90 ہزار روپے تھی۔ جب سے اب تک اس نے پاکستان کی سڑکوں پر حکمرانی قائم کر رکھی ہے۔ گو کہ اسے 21 ویں صدی کی شروعات میں ہیونڈائی سانترو سے مسابقت کا سامنا کرنا پڑا تاہم وہ بھی اس کے سامنے زیادہ عرصہ نہ ٹک سکی۔ قصہ مختصر یہ کہ اب سال 2016 جاری ہے اور مہران آپ کو اب بھی بیسویں صدی کی یاد دلاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نئی سوزوکی آلٹو 2016 سے متعلق اہم معلومات

اصل موضوع پر واپس آتے ہیں اور بات کرتے ہیں 13 مئی کی۔ رواں سال یہی وہ تاریخ تھی کہ جب وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال صاحب نے پاک سوزوکی کے ایک کارخانہ کا دورہ کیا۔ اس دوران انہوں نے پاک سوزوکی کے عہدیداران سے ملاقات کی اور آٹھویں جنریشن سوزوکی آلٹو کا بھی معائنہ کیا۔ اس دورے کی تفصیلات اور تصاویر پاک ویلز بلاگ پر بھی شائع کی گئیں۔

وفاقی وزیر کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے تصاویر جاری ہونے کے باوجود بعض لوگوں نے اس دورے کی کامیابی اور نئی گاڑی کی آمد سے متعلق کئی طرح کے لیے شکوک شبہات ظاہر کیے۔ بعد ازاں پاک سوزوکی (Suzuki) نے اسے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے ری-ٹویٹ کر کے اس دورے کی تصدیق کی تاہم مزید تفصیلات اب تک صیغہ راز رکھی گئی ہیں۔

جناب احسن اقبال کے دورے اور ان تصاویر کو منظر عام پر آئے تقریباً تین ماہ گزر چکے ہیں اور دونوں ہی فریقین کی جانب سے مکمل خاموشی اختیار رکھی ہوئی ہے۔ اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں: ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ سوزوکی مہران بذات خود جانا ہی نہیں چاہتی یا پھر دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ پاک سوزوکی فی الوقت آٹھویں جنریشن آلٹو کی اکھاڑ پچھاڑ میں مصروف ہے تاکہ نئی ممکنہ گاڑی کو مہران ہی کی قیمت میں پیش کیا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا پاکستان میں مہران کی جگہ نئی آلٹو متعارف کروائی جارہی ہے؟

سب سے پہلے ہم اس امکان کا جائزہ لیتے ہیں کہ مہران بذات خود اپنی رخصتی میں رکاوٹ ہے۔ جیسا کہ میں نے مضمون کے شروع میں ذکر کیا کہ سوزوکی مہران نے ایک طویل عرصے تک یہاں راج کیا ہے تو اسی بات سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اب اس میں راجہ مہاراجہ کی وہ صفات بھی شامل ہوچکی ہیں کہ جن میں طویل عرصے تک عوام پر مسلط رہنے اور اپنی بادشاہت کو زیادہ سے زیادہ طویل دینے کا شوق بھی شامل ہے۔ غرض یہ کہ انٹرنیٹ پر بننے والی پہلی ویب سائٹ سے بھی زیادہ پرانی مہران اب بھی ہماری سڑکوں پر اپنا راج قائم و دائم دیکھنا چاہتی ہے۔

آگے چلتے ہیں اور دوسری ممکنہ وجہ پر روشنی ڈالتے ہیں پاک سوزوکی آلٹو کی دوسری جنریشن یعنی مہران کو رخصت کرنے میں دیر کیوں کر رہی ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ وفاقی وزیر نے جس گاڑی کا معائنہ کروایا وہ سوزوکی آلٹو کی آٹھویں جنریشن سے تعلق رکھتی ہے۔ آج یہ بھی جان لیجیے کہ دنیا بھر میں نئی گاڑی کی باضابطہ رونمائی سے قبل ایک خاص جگہ پر آزمائشی سفر کیا جاتا ہے ۔ پاکستان میں یہ آزمائشی سفر کسی مخصوص جگہ نہیں بلکہ عام شاہراہ پر ہی ہوتا ہےجس کا مقصد کم سے کم سہولیات کی حامل گاڑی کی کارکردگی جاننا ہوتا ہے۔ اگر تو یہ گاڑی حفاظتی اور دیگر بنیادی سہولیات کے بغیر ہی چار پہیوں پر بخوبی سفر کرتی ہے تو اسے قابل فروخت سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہ پاکستان میں گاڑیاں تیار کرنے والے اداروں کی عام روایت رہی ہے جس کا مقصد گاڑی کی قیمت کم کرنا ہوتا ہے۔کار ساز ادارے اس کا تمام تر ملبہ گاڑیوں کے پرزوں پر عائد بھاری ٹیکس کو قرار دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ڈاٹسن ریڈی-گو: سوزوکی آلٹو 800 کی بہترین متبادل

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں آٹھویں جنریشن سوزوکی آلٹو پہلے ہی دستیاب ہے۔ جاپان سے درآمد کی گئی آلٹو کی قیمت 10 لاکھ روپے ہے جبکہ پاک سوزوکی اس وقت مہران ساڑھے 6 لاکھ رومیں فروخت کر رہا ہے۔ اگر جاپانی گاڑی ہی کی قیمت کو مدنظر رکھا جائے تو سمجھیے کہ پاک سوزوکی کو کسی طریقے سے 3 لاکھ روپے قیمت کم کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ جاپانی سوزوکی میں شامل سہولیات ک کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ اس کے علاوہ انہیں اپنا منافع بھی رکھنا ہے تو سمجھیے مہران کی قیمت میں ملنے والی نئی آلٹو کی حالت کیا ہوگی۔

اس کے برعکس اگر ہم سوزوکی جاپان کی تیار کردہ آٹھویں جنریشن آلٹو کے سادے ورژن ہی کی مثال سامنے رکھیں تو شاید زیادہ مناسب رہے گا۔ جاپان میں سوزوکی آلٹو کا سادہ ماڈل آلٹو وین کے نام سے فروخت کیا جارہا ہے جس کی قیمت 696,600 جاپان ین یعنی 7,21,000 پاکستانی روپے ہے۔ یہ ماڈل بھی وفاقی وزیر کے زیر استعمال آلٹو سے بالکل ملتی جلتی ہے کیوں کہ آلٹو وین کا ظاہری انداز اور پیمائش بالکل سوزوکی آلٹو جیسا ہی ہے۔البتہ اس میں چند ایک خصوصیات کی کمی ہے جس میں پاور ونڈوز، معیاری آڈیو سسٹم، الائے رمز وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تمام خصوصیات پاکستان میں دستیاب نسبتاً مہنگی آلٹو کا حصہ ہیں تاہم آلٹو وین میں شامل نہیں ہیں۔

اس کے علاوہ آلٹو وین میں ایندھن بچانے کی صلاحیت بھی زیادہ متاثر کن نہیں ہے۔ جہاں سوزوکی آلٹو ایک لیٹر میں 37 کلومیٹر تک سفر کرسکتی ہے وہیں آلٹو وین 25.8 کلومیٹر فی لیٹر کی مسافت فراہم کرسکتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ آلٹو میں شامل سیمی-ہائبرڈ سسٹم ہے جسے سوزوکی ene-چارج کے نام سے جانتا ہے۔ آلٹو وین میں ایندھن بچانے کی صلاحیت اور چند بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی کے باوجود ABS اور ایئر بیگز جیسی خصوصیات شامل ہیں جنہیں جاپانی قوانین کے تحت شامل کیا جانا لازمی ہے۔ تاہم پاکستان میں چونکہ ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے اور نئی آٹو پالیسی میں بھی صرف امموبلائزر کا ذکر کیا گیا ہے اس لیے پاکستان میں پیش کیے جانے سے قبل پاک سوزوکی ان دونوں ہی چیزوں کو باآسانی نکال سکتی ہے۔ اس کے علاوہ پرزوں کی مقامی تیار کے ذریعے بھی گاڑی کی تیاری پر خرچ ہونے والے اخراجات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہونڈا بریو: پاکستان میں سوزوکی مہران کا عہد تمام کرسکتی ہے!

آخر میں یہ بھی پڑھتے جائیے کہ حکومت کی تیار کردہ نئی آٹو پالیسی برائے 2016-21 کا نفاذ بھی سندھ کی اعلی عدالت نے پاک سوزوکی اور ٹویوٹا انڈس موٹرز کی درخواست پر رکوا دیا ہے۔ البتہ اہم بات یہ ہے کہ پاک سوزوکی نے آٹو پالیسی کا نفاذ رکوانے کے لیے دی جانی والی درخواست میں کہا ہے کہ وہ سوزوکی مہران کی جگہ نئی گاڑی پیش کرنے کی تیاری کر رہے ہیں اور اس کے لیے آٹو پالیسی میں دیا گیا وقت کافی نہیں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اب مہران کی رخصتی اور نئی سوزوکی گاڑی کی آمد کے امکانات کافی روشن ہوچکے ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ ہمیں ان امکانات کو حقیقت کے روپ میں دیکھنے کے لیے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا کیوں کہ ہم سال 2050 میں نئی مہران کی آمد کا جشن ہر گز نہیں منانا چاہتے۔

Exit mobile version