استعمال شدہ سوزوکی کلٹس سے کیا توقعات رکھی جاسکتی ہیں؟

میں نے حال ہی میں ایک سوزوکی کلٹس خریدی ہے۔ اور یہ میری اور اسی استعمال شدہ سوزوکی کلٹس کی کہانی ہے۔

مجھے روز مرہ استعمال کے لیے ایک چھوٹی گاڑی درکار تھی۔ گو کہ میرے پاس اپنی ہونڈا سِوک 2000 بھی موجود تھی جسے میں دل کی اتاہ گہرائیوں سے کئی (لاتعداد) سالوں سے فخریہ چلا رہا ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے یہ قدیم زمانے کی اور جدید سہولیات مثلاً اکانومی موڈ یا اسٹیئرنگ پر ملٹی میڈیا بٹن سے عاری ایک ریڑھی نما 4 پہیوں والی گاڑی ہو۔ لیکن میرے لیے یہ گاڑی بہت معنی رکھتی ہے۔ ہونڈا سِوک کو تاریخی گاڑیوں میں شمار کیا جاتا ہے نہ ہی کیا جائے گا۔ لیکن 90 کی دہائی اور نئی صدی کے اولین عشرے میں دستیاب گاڑیوں کی محدود تعداد کو دیکھا جائے تو بہترین حالت میں سوک 2000 کا ملنا مشکل ہی سمجھا جاتا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو مجھے قدامت پسند بھی کہہ سکتے ہیں لیکن میرے لیے وہ گاڑی زیادہ اچھی ہے کہ جو طویل سفر میں میرا ساتھ دے۔ یہی وجہ ہے کہ میرا سوک سے لگاؤ بہت پرانا اور گہرا ہے۔ اتنا گہرا کہ اسے انارکلی اور اچھرا جیسی جگہوں پر لے جانے پر مجھے ایک دو بار رونا ہی آگیا۔ اور کیوں نہ آتا ہے کہ جب ایک موٹر سائیکل سوار بچے نے میری سوک کے فینڈر کو اپنی زنگ آلود نمبر پلیٹ سے کھرچنے کے بعد پیچھے مڑ کر ‘ساری بھائی’ (جی ہاں اردو ہی میں) کہا اور یہ جا وہ جا۔

یہ بھی پڑھیں: سوزوکی کلٹس لمیٹڈ ایڈیشن: صرف 55 ہزار روپے اضافی قیمت میں!

بہرحال، مجھے 4 لاکھ روپے کے بجٹ میں کوئی عام سی گاڑی چاہیے تھی۔ میں صرف یہ چاہتا تھا کہ سال 2000 کے بعد کا کوئی ماڈل مل جائے۔ مگر اس کے پرزے زیادہ مہنگے نہ ہوں۔ اس بجٹ میں جو گاڑیاں عام فروخت ہورہی تھیں ان میں ڈائی ہاٹسو کورے، سانترو، آلٹو اور مہران شامل تھیں۔ سوزوکی آلٹو میں تقریباً 1 دہائی تک چلا چکا تھا اور مجھے وہ بالکل بھی پسند نہیں آئی۔ میں نے کورے میں بیٹھ کر دیکھا تو وہ مجھے کافی چھوٹی معلوم ہوئی۔ میں سانترو کو بہت پسند کرتا تھا لیکن میرے دوستوں نے اس کے مہنگے پرزوں سے خوفزدہ کر کے مجھے اس سے دور کردیا۔ رہی سوزوکی مہران تو میں اسے کم از کم 4 لاکھ روپے میں خریدے جانے کے قابل نہیں سمجھتا۔

ایک دن میرے دیرینہ دوست کا فون آیا جس کا شوروم سمن آباد کے علاقے میں ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ ‘میرے پاس تمہارے لیے ایک گاڑی ہے، یہ سوزوکی کلٹس VXR کا 2004 ماڈل ہے جس کا رنگ نقرئی (silver) ہے، لاہور میں ہی رجسٹر کروائی گئی ہے اور قیمت صرف 3 لاکھ 70 ہزار روپے ہے’۔ مجھے لگا کہ میرا دوست مجھ سے مذاق کر رہا ہے تبھی میں نے اس سے کہا کہ ‘سچ سچ بتا یار کہ کہانی کیا ہے؟’ مجھے بخوبی علم ہے کہ اس طرح کی کلٹس ہو نہ ہو پانچ لاکھ روپے سے کم میں تو مل ہی نہیں سکتی تھی۔ میرے سوال پر دوست نے بتایا کہ اس کی رجسٹریشن بک نقل شدہ (duplicate) ہے تبھی یہ کم قیمت میں فروخت ہورہی ہے۔ میرے لیے یہ اتنا بڑا مسئلہ نہ تھا اس لیے میں نے اپنے دوست کو گاڑی کا سودا کرنے کا کہہ دیا۔

جب میں نے گاڑی چلائی تو میرا پہلا تجربہ ہی خاصہ برا ثابت ہوا۔ گاڑی کے سسپنشن سے کچھ ایسی آوازیں آرہی تھیں کہ جو میں نے اب تک اپنی زندگی میں کبھی نہ سنی تھیں۔ بمپر کو کئی جگہوں سے ٹانکیں لگا کر جوڑنے کی کوشش کی گئی تھی اور پچھلی لائٹس میں سمجھیے اتنا پانی تھا کہ آرام سے گننے کے کھیت کو سیراب کیا جاسکتا ہے۔ البتہ اس گاڑی کا انجن بہت اچھا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سوزوکی کلٹس: دنیا بھر میں 14 مختلف ناموں سے پیش کی گئی!

گاڑی کی حالت ٹھیک کروانے کے لیے میں اسے مکینک کے پاس لے گیا اور اس سے تمام چیزوں کو ٹھیک کرنے کا کہہ دیا۔ چائے کے چھ کپ اور چند سیاسی موضوعات پر گرما گرم بحث پر مشتمل آٹھ گھنٹے گزارنے کے بعد مجھے تمام کاموں کا بل تھمایا گیا تو مجھے حیرت کا جھٹکا لگا۔انجر پنجر ہلی ہوئی گاڑی کو بالکل درست حالت میں کرنے پر مجموعی طور پر 9 ہزار روپے لاگت آئی۔ اس میں 610 روپے کے بمپر (جوا پنےانداز ہی سے ظاہر کر رہے تھے کہ انہیں پاکستان میں تیار کیا گیا ہے)، 2000 روپے کی لائٹس، 1000 روپے کے انڈیکیٹر اور سسپنشن (بہترین معیار کا کیوں کہ اس پر کوئی سمجھوتا ممکن نہیں) کے 3000 روپے بھی شامل تھے۔

میرے دوستوں میں شامل کلٹس کے مداحوں نے مجھے اس شاہکار کو استعمال کرنے کے بہت سے فوائد گنوائے تھے۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اس کے پرزے اور مرمت انتہائی سستے داموں ممکن ہے اور یہ بات بالکل ٹھیک ثابت ہوئی۔ اس کے علاوہ جو باتیں مجھے کہی گئیں ان میں سے چند یہ بھی ہیں:
1: یہ ‘بڑی’ گاڑیوں کی طرح چلتی ہے
2: ایندھن کی بچت کا تو پوچھیں ہی ناں
3: سڑک پر اس کی گرفت بہتر نہیں بہترین ہے
4: بالکل مکھن کی طرح (ہموار) سفر کرتی ہے
5: گاڑی کے اندر تو کسی قسم کا شور نہیں

اپنے تجربہ کی روشنی میں کوئی مجھ سے اوپر بیان کی جانے والی باتیں پوچھے تو میرے جوابات کچھ یوں ہوں گے:
1: غلط
2: غلط
3: غلط
4: غلط، اور
5: بالکل غلط

یہ گاڑی بالکل کلٹس کی طرح ہی چلتی ہے۔ نہ اس سے اچھی اور نہ اس سے بری۔ ایندھن بچانے والی بات واقعی پوچھنے کی نہیں کیوں کہ میں اس پر ایک لیٹر میں زیادہ سے زیادہ 12 کلومیٹر تک ہی سفر کرسکا اور یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ میری 1600cc سوک بھی کم و بیش اتنی ہی مسافت فراہم کرتی ہے اور میری E90 335i ٹون ٹربو بھی اس سے تھوڑا ہی کم سفر کرتی ہے۔ سڑک پر اس کی گرفت بھی زیادہ اچھی نہیں۔ دراصل یہ گاڑی مہران اور آلٹو سے کچھ نیچی ہے اس لیے چلانے والے کو سڑک سے زیادہ قریب ہونے پر گرفت کا جعلی احساس ہوتا ہے۔ سسپنشن کی بات کریں تو ان کی موجودگی میں کبھی کوئی کرتب دکھانے کا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ رہی بات ہموار سفر کی تو ایسا بالکل بالکل بھی نہیں ہے۔ گو کہ اسے مہران اور آلٹو سے بہتر کہا جاسکتا ہے لیکن یہ سانترو جیسی گاڑی کے قریب بھی نہیں ہے۔ آخر میں بات کریں کیبن کے اندر شور شرابے کی تو گاڑی کے اندر موجودپلاسٹک کی تمام چیزیں نکال بھی لی جائیں تو اس میں سے آنے والی آوازوں کو روکا نہیں جاسکتا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سوزوکی کلٹس خریدی جانے چاہیے؟ تو اس کا جواب ہے: جی ہاں! اگر آپ کسی ایسی جگہ جانا چاہتے ہیں کہ جہاں چلتے ہوئے آپ کی انتڑیاں جسم میں گھستی چلی جائیں گی تو یہ گاڑی لے جائیں۔ اگر آپ کے خاندان میں کوئی گاڑی سیکھنا چاہتا ہے تو سوزوکی کلٹس اس کے حوالے کردیں۔ اگر آپ مچھی بازار، پھلوں کی مارکیٹ یا کسی بھی ایسی جگہجانا چاہیں کہ جہاں آپ کے گم ہوجانے کا خطرہ ہو تو کلٹس میں ہی جائیں۔ اس کی پچھلی نشستوں پر بیٹھنے والے مسافروں کے لیے کافی گنجائش رکھی گئی ہے جو کم از کم مقامی تیار شدہ کئی ہیچ بیکس سے تو بہتر ہی ہے۔

یہ بھی دیکھیں: سوزوکی کلٹس اور سوزوکی خیبر کا موازنہ

اور پھر بات آتی ہے بعد از استعمال فروخت یعنی resale کی۔ فرض کیجیے کہ ایک انتہائی کھچاڑا ہونڈا سوک کی بہت بری resale ہے – بلکہ یہ سمجھیے کہ ہے ہی نہیں۔ ایک انتہائی بری سوک ناقابل فروخت ہے۔ اس کے باوجود کلٹس کسی بھی حالت میں قابل فروخت ہے۔ ظاہری حالت بگڑی ہوئی، کئی جگہ سے پینٹ اترا ہوا یا پھر دوبارہ کیا گیا، اندر سے انتہائی گندی غرض کہ کسی بلڈنگ کی چھت پر کھڑی ایسی کلٹس بھی فروخت ہوجائے گی کہ جس کا تیا پانچہ ہوچکا ہو۔ اس گاڑی کو خریدنے کے بعد مجھے مسلسل اسے بیچنے کی آفر آرہی ہے جن میں سے کئی ایک تو اچھی خاصی قیمت والی بھی ہیں۔

کسی بھی گاڑی کی طلب غیر معمولی حد تک بڑھ جائے تو اس کے چوری ہونے کے امکانات میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ شاید آپ کو یہ جان کر ہنسی آئے کہ یہ میری واحد گاڑی ہے جس کا میں نے بیمہ کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔

تو اگر آپ 5 لاکھ روپے کے بجٹ میں ایسی گاڑی خریدنا چاہتے ہیں کہ جو روز مرہ کے کاموں میں آپ کا ساتھ دے، اسے رگڑا لگے یا کچھ اور لیکن وقت آنے پر اچھی قیمت پر فروخت بھی ہوجائے تو استعمال شدہ سوزوکی کلٹس ہی آپ کا بہترین انتخاب ثابت ہوسکتی ہے۔

Exit mobile version