موٹروے پر ڈکیتیوں میں اضافہ؛ مسافروں کو جانی و مالی نقصان کا خطرہ

زندگی میں کئی مرتبہ ہمیں ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں کہ جس میں کسی شخص کا موت سے آمنا سامنا ہوا اور وہ اسے بال برابر فرق سے چھو کر گزرگئی۔ بدقستی سے ہم ایسی باتوں کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتے اور انہیں قصہ یا کہانی قرار دے کر نظر انداز بھی کردیتے ہیں۔ خود میرے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا لیکن جب میرے اپنے دوست کے ساتھ موٹروے پر انتہائی خوفناک حادثہ پیش آیا تو مجھے ان واقعات کی سنگینی کا احساس ہوا۔

چند روز قبل میرا دوست لاہور سے اسلام آباد جاتے ہوئے سیال سروس اسٹیشن سے گزرا۔ ابھی اس کی گاڑی بهيره سے تقریباً 40 کلومیٹر دور تھی کہ اچانک بائیں دروازے کا شیشہ دھماکے سے پھٹ گیا۔ شیشے کے پھٹنے کی قوت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے کرچیاں میرے دوست کے چہرے، قمیض اور بازو سے جاٹکرائیں۔ اس وقت رات کے تقریباً ساڑھے دس بجے تھے اور موٹروے پر دور دور تک کسی دوسری گاڑی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ انتہائی کم روشنی کے باعث آس پاس کا منظر بھی بمشکل دیکھا جاسکتا تھا۔ پہلے پہل میرا دوست سمجھا کہ گاڑی کے شیشے پر کسی بندوق کی اندھی گولی آن ٹکرائی ہے اور یہ خیال آتے ہی اس نے سر جھکاتے ہوئے بمشکل گاڑی کو سنبھالا۔

یہ بھی پڑھیں: استعمال شدہ پرانی بیٹری کو “نئی بیٹری” بنا کر بیچا جانے لگا

لیکن پھر میرے دوست کو اچانک پیچھے سے دو ٹارچ لائٹس اپنی جانب بڑھتی ہوئی نظر آئیں۔ ٹھیک اسی وقت میرے دوست نے یہاں سے فرار ہونے کا فیصلہ کیا اور پوری رفتار سے گاڑی دوڑا دی۔ چند میل گاڑی دوڑانے کے بعد بالآخر موٹروے پولیس کی گاڑی نظر آئی۔ میرے دوست نے خود کو بمشکل سنبھالتے ہوئے وہاں گاڑی روکی اور انہیں تمام مدعا بیان کیا۔ اس خطرناک حادثے کی روداد سننے کے بعد پولیس اہلکاروں کا رویہ انتہائی حیران کن تھا۔ انہوں نے میرے دوست کو بتایا کہ سیال اسٹیشن کے بعد ایسے واقعات بہت عام ہیں اور آپ نے گاڑی نہ روک کر بالکل ٹھیک فیصلہ کیا۔ اہلکاروں نے مفت مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ بھیرہ یہاں سے تقریباً 30 کلومیٹر دور ہے اس لیے مزید کسی پریشانی سے بچنا ہے تو بغیر رکے گاڑی چلانی ہوگی اور جب ایک بار آپ بھیرہ پہنچ جائیں گے تو پھر کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔

گستاخی معاف لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ شہریوں تحفظ اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کاروائی کریں۔ مگر پولیس اہلکاروں سے اس طرح کا جواب کم از کم میرے لیے حیران کن اور ناقابل قبول ہے۔ اس تمام واقعے کے انتہائی پریشان کن پہلوؤں میں موٹروے پولیس کی جانب سے واقعے پر روکھے پن کا مظاہرہ بھی شامل ہے۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ انہیں اس واقعے کا پہلے ہی سے علم تھا تبھی ان کے چہرے پر کسی قسم کی حیرانی یا پریشانی ظاہر نہ ہوئی۔ بھرہ پہنچنے کے بعد میرے دوست نے جب گاڑی کا جائزہ لیا تو اسے پچھلی نشست پر ایک نوکیلا پتھر نظر آیا۔

یہ بھی پڑھیں: نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس کو ٹویوٹا پرایوس کی فراہمی

یوں علم ہوا کہ گاڑی کا شیشہ دراصل اسی پتھر کو پھینک کو توڑا گیا ہے۔ تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے پر اندازہ ہوا کہ اس انتہائی خطرناک حرکت سے کم از کم تین شدید نوعیت کے نقصانات ہوسکتے ہیں۔ مثلاً:
– اگر میرے دوست (ڈرائیور) کے ساتھ والی سیٹ پر کوئی شخص بیٹھا ہوتا تو یہ پتھر براہ راست اس کے سر یا جسم کے کسی حصہ سے ٹکرا کر شدید زخمی کرسکتا تھا۔
– اگر یہ پتھر بائیں دروازے پر لگنے کے بجائے اگلی ونڈ اسکرین سے ٹکرا جاتا تو اس سے گاڑی اور ڈرائیور دونوں ہی کو ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا تھا۔ ایسے واقعات میں ڈرائیور کا جان سے ہاتھ دھوبیٹھنے بھی خارج از امکان نہیں۔
– اگر اس وقت موٹروے پر مزید گاڑیاں ہوتی تو ہنگامی صورتحال میں ان کے آپس میں تصادم کا بھی خطرہ تھا۔

اس تمام واقعے کی سنگینی ایک طرف لیکن موٹروے پولیس کی جانب سے ملوث افراد کے خلاف فی الفور کاروائی کرنے کے بجائے انتہائی غیر سنجیدہ رویہ اختیار کرنا اور متاثرہ شخص ہی کو مشوروں سے نوازنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ پہلا واقعہ نہیں کہ جب موٹروے پر کسی شخص کو اس طرح لوٹنے کی کوشش کی گئی ہو۔ اور اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں دی جاسکتی کہ اب موٹروے پر اس طرح کی ڈکیتیاں ختم ہوگئی ہیں کہ جن میں مالی و جانی نقصان کا خطرہ ہو۔ اس لیے میں تمام لوگوں سے درخواست کروں گا کہ موٹروے پر سفر کرتے ہوئے انتہائی محتاط رہیں۔ بالخصوص رات میں سفر کرتے ہوئے بہت احتیاط کریں اور کسی بھی ایسی صورتحال کا سامنا ہو تو اپنے اوسان پر قابو رکھیں۔ امید ہے کہ موٹروے پولیس بھی جلد خواب غفلت سے جاگے گی اور مسافروں کی حفاظت کا ذمہ انجام دے گی۔ لیکن تب تک ہمیں اپنی مدد آپ ہی کرنا ہوگی۔

Exit mobile version