گاڑیوں پر نئے درآمدی ٹیکس سے متعلق غلط فہمیاں

پاکستان کی حکومت ایک عرصے سے روپے کی قدر میں بہتری کے لیے کوششیں کر رہی ہے اس کے باوجود اب تک پاکستانی روپے کی قیمت میں اتار چڑھاؤ کا سلسلہ جاری ہے جس کے باعث پاکستان کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اس صورتحال نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ مقامی کارخانوں کو مزید مواقع دینے اور روپے کی قدر میں جاری گراوٹ کو روکنے کے لیے درآمد شدہ اشیاء پر نئی ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرے۔ چند روز قبل فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کی جانب سے جاری کردہ ایس آر او 1035 (I) / 2017 میں شامل فہرست میں پاکستان درآمد کی جانے والی چیزیں بشمول گاڑیوں وغیرہ کے ساتھ ان کی ریگولیٹر ڈیوٹی کی تفصیلات شامل ہیں۔ تاہم اس فہرست کے سامنے آتے ہی گاڑیوں کی درآمدی کسٹم ڈیوٹی سے متعلق بے بنیاد افواہوں کا بازار گرم ہوگیا۔ لہٰذا پاک ویلز ڈاٹ کام نے ضروری سمجھا کہ درآمد کی جانے والی گاڑیوں پر عائد ریگولیٹری ڈیوٹی سے متعلق پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا ازالہ بذریعہ مضمون کیا جائے۔

ڈاؤن لوڈ کریں: پاک ویلز موبائل ایپ

حکومتی فیصلہ سامنے آنے کے بعد سے ایسی افواہیں گردش کرتی رہیں کہ حکومت نے تمام درآمد شدہ گاڑیوں کی کسٹم ڈیوٹی میں اضافہ کردیا ہے چاہے وہ نئی ہوں یا پھر استعمال شدہ۔ تاہم حقیقت میں معاملہ مختلف ہے۔ اگر ایس آر او کو بغور پڑھا جائے تو معلوم ہوگا کہ بالکل نئی اور 1800cc سے زائد انجن والی گاڑیوں پر 20 فیصد ڈیوٹی بڑھائی گئی ہے۔ اس سے پہلے ان گاڑیوں پر 60 فیصد ڈیوٹی وصول کی جارہی تھی جبکہ تازہ اضافے کے بعد یہ 80 فیصد ہوگئی ہے۔ ایسی تمام درآمد شدہ گاڑیاں جو 1800cc سے کم انجن والی ہیں کے لیے ڈیوٹی میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ علاوہ ازیں نئی اور استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور انہیں پہلے کی طرح 60 فیصد ہی پر برقرار رکھا گیا ہے۔

ایس آر او کے بعد گاڑیوں پر عائد کسٹم ڈیوٹی کا خلاصہ کچھ یوں ہے:

اس میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے کہ صرف 1800cc سے زائد انجن والی نئی گاڑیوں ہی پر ٹیکس بڑھایا گیا ہے۔ غلط خبروں اور افواہوں کے باعث بہت سے لوگوں کو یہ غلط فہمی لاحق ہوگئی کہ حکومت نے تمام ہی درآمد شدہ گاڑیوں پر ٹیکس عائد کردیا ہے، بہت سے لوگوں نے ایس آر اوز پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کی اور اپنی توپوں کا رخ حکومت کی جانب کردیا۔ پاک ویلز درست اطلاعات کی فراہمی کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے افواہوں پر کان دھرنے والوں کو مشورہ دیتی ہے کہ کوئی بھی بات آگے بڑھانے سے پہلے اس کی تحقیق کرلیا کیجیے۔

Exit mobile version