مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کی گاڑیاں بحال کرنے کا کام شروع
جو زندہ قومیں اپنی ثقافت اور ورثے کی پاسداری نہیں کرتیں وہ تاریخ کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گم ہوجاتی ہیں کیوں کہ ثقافتی ورثہ ہی وہ چیز ہے کہ جو ایک قوم کو تاریخی حیثیت فراہم کرتا ہے۔
یہ جان کر مجھے شدید افسوس ہوا کہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے زیر استعمال گاڑیاں انتہائی ابتر حالت میں ایک عمارت کے باہر پڑی ہوئی ہیں۔ گو کہ میں بابائے قوم محمد علی جناح کی ہمشیرہ سے وابستہ ان گاڑیوں کے لیے کچھ نہ کرسکا تاہم میری دلی خواہش رہی کہ کوئی ان کی دیکھ بھال کا ذمہ اٹھائے اور انہیں پہلے جیسی حالت میں بحال کر سکے۔ یہ خواہش صرف میری ہی نہیں بلکہ مجھ جیسے سینکڑوں افراد کی بھی تھی جن میں سے ایک محسن اکرام بھی ہیں۔ محسن اکرام نے بالآخر اس کام کا بیڑہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور فی الفور حکومت سے رابطہ کرنے کی ٹھانی۔ تاہم حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث یہ معاملہ ایک عرصے تک التوا کا شکار رہا۔
یہ بھی دیکھیں: دبئی کے صحراؤں میں مدفن بیش قیمت اور نایاب گاڑیاں
طویل انتظار کے بعد اب محسن اکرام اور ان کی ٹیم کو محترمہ فاطمہ جناح کی دونوں گاڑیوں، سنہرے رنگ کی 1955 کیڈیلاک سیریز 62 کنورٹ ایبل اور سفید رنگ کی 1965 مرسڈیز بینز 200 کی بحالی کا کام شروع کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ محسن اکرام اور ان کی ٹیم کے تمام ہی رکن اس کام کے لیے کافی متحرک ہیں اور جلد از جلد ان گاڑیوں کو پرانے روپ میں بحال کر کے عجائب گھر کا حصہ بنانا چاہتے ہیں تاکہ مستقبل میں ان کی بہتر دیکھ بھال ہوسکے۔
محسن اکرام ونٹیج اینڈ کلاسک کار کلب آف پاکستان کے بانی و صدر ہیں۔ انہوں نے مادر ملت کے استعمال میں رہنے والی گاڑیوں کی بحالی سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ان گاڑیوں پر کام کرنے سے قبل اس گیراج کو ایک ورکشاپ کی شکل دینا ہوگی کہ جہاں یہ گاڑیاں طویل عرصے سے موجود ہیں۔ اس کا مقصد گاڑیوں کے بحالی کے تمام کاموں کو بغیر کسی رکاوٹ اور تعطل کے مکمل کرنا ہے۔ ان دونوں ہی گاڑیوں کو اصل سے قریب ترین حالت میں بحال کرنے کے بعد قائد اعظم ہاؤس کی زینت بنایا جائے گا۔
مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی ان گاڑیوں کی بحالی پر 2 کروڑ 30 لاکھ روپے کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ حکومت کی جانب سے ٹیکس کی مد میں رعایت کے بعد اخراجات میں 1 کروڑ 50 لاکھ روپے تک کمی کی جاسکی ہے۔