ہونڈا CG125 – پاکستان کی رائل انفلیڈ

آپ نے بچپن میں پہلی مرتبہ کس سواری کا خواب دیکھا تھا؟ قوی امکان ہے کہ سائیکل کا ہی دیکھا ہوگا۔ پھر آپ کے ساتھ خواب بھی بڑے ہوتے گئے اور سائیکل کی جگہ موٹر سائیکل نے لے لی۔ اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ جب آپ اپنی موٹرسائیکل پر مزے سے سفر کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں آپ کو کسی کے غرانے کی آواز سنائی دیتی ہے اور کوئی چیز آپ کے انتہائی نزدیک سے گولی کی رفتار سے گزر جاتی ہے۔ آپ لاکھ کوشش کے باوجود اسے نہیں دیکھ پاتے بس ایک چنگھاڑتے ہوئے سائلینسر کی شبیہ آپ کے دماغ پر چپک جاتی ہے۔ کیوں، ایسا ہی ہوتا ہے ناں؟

جی ہاں! میں دو پہیوں والی سواری سے پہلے عشق کی ہی بات کر رہا ہوں۔ اور صرف آپ ہی نہیں بلکہ ملک کے اکثر نوجوانوں کے اس خواب کو تعبیر دینے کے لیے ہونڈا CG125 کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ ایٹلس انڈسٹریز اور ہونڈا جاپان کے اشتراک سے مقامی سطح پر تیار ہونے والی یہ موٹر سائیکل کئی دہائیاں سے تن تنہا ہمارے دلوں پر راج کر رہی ہے۔

لوگ اسے صرف ’ہونڈا‘ کے نام سے پکارنا پسند کرتے ہیں۔ اور اس کی بے پناہ مقبولیت کے باعث پورا نام لینے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ یہ ایک ایسی موٹر سائیکل ہے جو ہر طبقے کی سفری ضروریات کو پورا کرتی ہے۔ اس کی اس منفرد صلاحیت کے پیچھے موجود وجوہات میں کام اور وزن کا اضافی بوجھ برداشنت کرنے اور مالک کو بار بار مرمت کی اذیت میں مبتلا نہ کرنا بھی شامل ہے۔

چار دہائیوں پرانا انجن انتہائی سہل ڈیزائن کا حامل ہونے کے علاوہ اتنی عمدگی سے تیار کیا گیا ہے کہ جو صرف تیل کی ایک چوتھائی سطح پر بھی زبردست کارکردگی پیش کرتا ہے۔ اس بائیک میں نہ اضافی ششکے ہیں اور نہ ہی یہ تیز رفتاری پر تھرتھرانے لگتی ہے بلکہ اس میں ایسی بھی کوئی چیز موجود نہیں جس کے ٹوٹنے یا گر جانے پر آپ کو بار بار مکینک کے چکر لگانا پڑیں۔

اس کے برقی آلات کو استعمال کرنے کے لیے اضافی بیٹری کی ضرورت نہیں ہوتی کیوں کہ سارے آلات براہ راست انجن سے ہی چلتے ہیں۔ یہ روزانہ سفر کرنے والوں سے لے کر ریسنگ کے شوقین افراد، جو ایک پہیے پر بائیک چلانے یا دیگر کرتب دکھانے کا شوق رکھتے ہیں، تک سب ہی کی من پسند ہے۔ آپ بس نام لیں اور لوگ آپ کو اس موٹر سائیکل کی مہارت دکھا کر حیران کردیں گے۔ ان خصوصیات کے باعث یہ نہ صرف عام افراد بلکہ چوروں اور ڈاکوں کی بھی پسندیدہ ترین سواری ہے جس کی بنیادی وجہ اس کی برق رفتاری، بہترین گرفت اور تنگ جگہوں یا گنجان ٹریفک سے باآسانی ’رفو چکر‘ ہوجانے کی قابلیت ہے۔

پاکستان میں پیش کردہ CG125 کا موجودہ ماڈل اب دنیا بھر میں ختم کیا جاچکا ہے البتہ اس کا جدید ماڈل بین الاقوامی سطح پر دستیاب ہے۔ لیکن یہاں کی مارکیٹ اور شعبے کے غیر جدت پسندانہ رویے اور حکومت کی ناقص حکمت عملی جدید تقاضوں کے تحت تبدیلیوں میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ میری ناقص معلومات کے مطابق شاید پاکستان ہی صرف ایک ایسا ملک ہے جہاں ہونڈا CG125 کا یہ ماڈل اب تک برائے فروخت ہے۔

اس حقیقت سے کراہت کے باوجود میں اس کی پریکٹیکل قابلیت کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ خصوصیات ہی اس کے طویل قیام کی وجہ نہیں ہیں بلکہ اصل وجہ حقیقی مسابقت کا نہ ہونا ہے۔ جی ہاں، یہ بالکل وہی معاملہ ہے جس کی وجہ سے سوزوکی مہران بھی آج تک یہاں سے نہیں گئی۔ دوسری طرف ہمارا طرز زندگی ہے جو ہمیں ایسی ہی گاڑی رکھنے پر ہی مجبور کرتا ہے جس کی دیکھ بھال پر زیادہ خرچ نہ ہو اور کسی بھی صورتحال میں بس چلتی رہے۔

اسی لیے میں اسے ’پاکستانی کی رائل انفیلڈ‘ قرار دیتا ہوں کیونکہ ہونڈا CG125 کو (اس کی شرارتی بہن ہونڈا CD70 کے سوا) کوئی بھی موٹر سائیکل اتنے طویل عرصے تک ٹک نہیں پائیں۔ یہ بلاشبہ ’’انڈین انفلیڈ بُلٹ‘‘ کی طرح پاکستان میں سب سے لمبے عرصے تک تیار اور فروخت ہونے والی موٹر سائیکل ہے۔

ہونڈا کی اس عظیم موٹر سائیکل کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت سے ادارے میدان میں اترے مگر اس کی مجموعی کارکردگی کے مقابل بری طرح ناکام رہے۔ پاک ویلز سے پرانی وسبتگی کے بعد میں کہہ سکتا ہوں کہ CG125 نے ایک معیار طے کر دیا ہے اور اب جو بھی مارکیٹ میں داخل ہونا چاہتا ہے، اسے ہونڈا 125CG سے زیادہ بہتر رفتار، سہولت مندی فراہم کرتے ہوئے قیمت بھی مناسب رکھنی ہوگی۔

پچھلی دہائی میں صرف سوزوکی ہی ایک ایسا ادارہ ہے جس نے تمام تر ہمت مجتمع کرتے ہوئے GS150 کو میدان میں اتارا۔ مگر افسوس کہ وہ بھی یکساں قوت، ٹارک اور حد رفتار کے باعث زیادہ لوگوں کو متوجہ نہ کرسکی۔ تاہم اپنے بہترین سسپنشن اور اچھے پاور بینڈ و دیگر سہولیات مثلاً سیلف اسٹارٹر کے باعث سیاحوں میں اسے کافی پسند کیا گیا۔

تاہم GS150 کو مرمت کی شدید ضرورت پیش آتی جس کی وجہ سادے ڈیزائن میں برقی سہولیات شامل کرنے کی معذوری، اسمبلی لائن کی کوتاہی اور موٹر سائیکل کی تیاری میں غیر معیار ساز و سامان تھی۔ اس کے علاوہ بہت زیادہ قیمت میں بہت کم سہولیات کی فراہمی کے باعث اس کی فروخت بہت کم رہی اور یوں وہ حقیقی معنی میں CG125 کو ٹکر دینے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئی۔

ہونڈا کے مقابلے کے لیے ایک اور کمپنی Piaggio بھی میدان میں اتری۔ یہ اٹلی کی برانڈ تھی جس نے پاکستان کی مارکیٹ میں “راوی پیاگیو اسٹورم 125” کے نام سے چینی ری برانڈڈ موٹر سائیکل متعارف کروائی۔ یہ بائیک اضافی لوازمات، خوبصورت اور جدید انداز کے باعث جلد ہی نوجوانوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ لیکن اپنی تمام تر خصوصیات کے باوجود یہ  CG125  کو پیچھے چھوڑنے میں ناکام رہی۔ بعدازاں اس کے تابوت میں آخری کیل خود اسے فروخت کرنے والے ادارے المعروف راوی انڈسٹریز نے ٹھوکی جو موٹر سائیکل فروخت کرنے کے بعد اپنے گاہکوں کو بعد از استعمال سروسز فراہم کرنے کا معیار برقرار نہ رکھ سکے اور اسی وجہ سے یہ بائیک پاکستان کی سڑکوں سے آہستہ آہستہ غائب ہوتی جارہی ہے۔

اس کے بعد بھی بہت سی چینی اداروں نے اپنی نقل شدہ 150cc موٹرسائیکلوں کے ذریعے CG کے ساتھ چلنا چاہا مگر غیر معیاری ہونے کے باعث وہ ایک سال بھی یہاں نہ ٹک پائیں۔

حال ہی میں یاماہا نے اپنی 125cc موٹر سائیکل YBR کے نام سے متعارف کرائی ہے۔ یاماہا کی یہ نئی موٹر سائیکل پیاگیو اسٹورم 125 سے زیادہ خوبصورت اور دیگر اضافی لوازمات سے لیس ہے۔ اس کے علاوہ اس میں موجود الائے رمز بھی بہت معیاری ہیں۔ سب سے خاص بات اس کی مناسب قیمت ہے۔

 

یاماہا YBR کو عوام کی جانب سے خاصی پزیرائی ملی ہے تاہم اس میں بھی وقفے وقفے سے نقائص سامنے آنا شروع ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ پیاگیو کی طرح یہ بھی عوام کے دلوں سے اترنا شروع ہوگئی ہے اور یہ بات بہت سے لوگوں کے لیے خاصی مایوس کن ہے۔ اس کا YBR-125G ماڈل، جو کہ یاماہا کے بقول ایک آف-روڈ بائیک ہے، درحقیقت آف-روڈر نہیں بلکہ بالکل سادے ماڈل جیسی ہی ہے۔ اگر فرق ہے تو صرف اتنا کہ اس میں صرف گول لائٹس اور اونچا مڈگارڈ موجود ہے۔

یاماہا YBR اس حد تک تو کامیاب کہی جاسکتی ہے کہ نوجوان اسے روز مرہ استعمال اور چند سیاح اپنے سفر کے لیے اس پر بھروسہ کر رہے ہیں۔ تو خلاصہ یہ ہوا کہ YBR اپنی علیحدہ مارکیٹ بنانے میں تو کامیاب رہی مگر CG کے سامنے اس کی پھر بھی نہ چلی کیوں کہ ہونڈا CG125 نے کارکردگی میں بہت اعلی معیار قائم کر رکھا ہے۔

حال ہی میں روڈ پرنس نے بھی ویگو اور ویگو آف روڈ کے نام سے ایک ہی موٹر سائیکل کے دو مختلف ماڈل (شہری اور آف روڈ) متعارف کروائے ہیں۔ یہ بائیکس ایک ایسی مارکیٹ میں متعارف کروائی گئی ہے جہاں قیمت کے معاملے میں زبردست مقابلہ جاری ہے۔ یہ موٹر سائیکلیں YBR اور پیاگیو کی نسبت زیادہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ اضافی لوازمات سے بھی لیس ہیں لیکن قیمت کی وجہ سے یہ بھی شاید YBR کی طرح اپنی الگ مارکیٹ بنا سکے گی لیکن CG کو مات دینا، اس کے بس میں بھی نہیں ہے۔

ویسے تو راوی انڈسٹریز بھی اسی نوعیت کی دو اقسام کی بائیک چند تبدیلیوں کے ساتھ اضافی قیمت پر متعارف کروا چکا ہے اور پچھلے چند سالوں میں متعدد بائیکس فروخت بھی کرچکا ہے۔ مگر یہ موٹر سائیکل بھی بہت زیادہ مقبولیت حاصل نہ کرسکی تاہم آپ کی معلومات کے لیے اس کا ذکر شامل کرلیا۔

آخر میں جس واحد 125cc کا ذکر رہ گیا وہ CG125 کی اپنی ہی ہمشیرہ ہے جسے ہونڈا CG125 ڈیلکس کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ دراصل CG ہی کا ایک ماڈل ہے جو کارکردگی، ٹارک کی وجہ سے الگ پہچان رکھتا ہے مگر اس کی مارکیٹ میں بہت محدود ہے۔ دیگر موٹر سائیکلوں کی طرح یہ بھی ہونڈا کے مداحوں کے دلوں کو پھیرنے میں ناکام رہی ہے۔

حال ہی میں ہونڈا نے CG125 کا ایک اور ماڈل متعارف کروایا ہے جس کا نام CG-ڈریم ہے۔ یہ دراصل CG125 ہی ہے لیکن اس میں پلاسٹک کا استعمال کیا گیا ہے تاکہ اسے زیادہ ہموار اور ‘جدید’ بائیک کے طور پر پیش کیا جاسکے تاہم یہ بھی لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

لہٰذا میری رائے تو یہی ہے کہ ایٹلس ہونڈا CG125 ناقابل شکست موٹر سائیکل ہے اور اس وقت میدان میں کوئی ایک بھی ایسی بائیک نہیں جو اس کو ٹکر دے سکے۔ کم از کم موجودہ حالات میں تو دور دور تک ایسی کوئی بائیک نظر نہیں آتی جو اس کے مارکیٹ شیئر میں سے معمولی سا حصہ بھی اپنے نام کرسکے۔

میری رائے میں جو اہم نکات ہونڈا CG125 کو ایک عرصے تک فاتح بنائے رکھے ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں:

1۔ بہترین ڈیلرز نیٹ ورک اور بعد از استعمال قدر

2۔ پورے ملک میں مرمت کرنے والوں کا وسیع نیٹ ورک

3۔ دیکھ بھال میں کم خرچ

4۔ کسی بھی 125cc بائیک سے بہتر کارکردگی

5۔ ہلکا وزن اور بہترین گرفت

6۔ دبلی ساخت؛ ٹریفک جام اور تنگ جگہوں سے نکلنے میں موثر

7۔ آف-روڈنگ کے لیے بہترین گراؤنڈ کلیئرنس

ویسے تو لوگ اس کی خراب گرفت، کمزور بریک، آرامدے نہ ہونے اورکئی دہائیوں پرانی ٹیکنالوجی کا حوالہ دیتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن جب بات ہو جدید بائیک کے ساتھ تقابل کی تو پھر CG125 سب سے آگے اور نمایاں نظر آتی ہے۔

Exit mobile version