کیا ٹویوٹا اور ہونڈا نئی آٹوپالیسی کی خلاف ورزی کے مرتکب نہیں؟

پاکستان کی پنچ سالہ آٹو پالیسی تیار کرنے والی کمیٹی کا دعوی تھا کہ نئی پالیسی تیار کرتے ہوئے نہ صرف موجودہ اور نئے کار ساز اداروں کے لیے کاروباری مواقعوں کی فراہمی بلکہ صارفین کی ضروریات کو بھی خاص طور پر مدنظر رکھا گیا ہے۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ ڈھائی سال سے بھی زائد عرصے میں تیار ہونے والی آٹو پالیسی برائے 2016-21 کے مکمل ڈرافٹ میں صرف ایک ہی صفحہ Consumer Welfare کے نام سے شامل کیا گیا ہے جس میں شامل نکات انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ زیادہ افسوس ناک امر یہ نہیں کہ عوامی مفادات کے تحفظ کے نام پر چند نکات پر اکتفا کرلیا گیا ہے بلکہ قابل افسوس بات یہ ہے کہ کار ساز ادارے ان گنتی کی ہدایات کو بھی کسی خاطر میں نہیں لارہے۔

مزید پڑھیں: ٹویوٹا ڈیلرشپ پر دھوکا دہی کا انکشاف؛ نیب نے تحقیقات کا آغاز کردیا

خریدار کو 2 ماہ میں گاڑی فراہم کرنے کی ہدایت

ٹویوٹا انڈس موٹرز نے سال 2014 میں نئی ٹویوٹا کرولا (Toyota Corolla) پاکستان میں متعارف کروائی۔ حسب توقع ابتداء ہی سے انڈس موٹرز کو سینکڑوں کی تعداد میں کرولا بُک کروادی گئیں۔ اس وجہ سے طلب و رسد کا اتنا زیادہ فرق پیدا ہوگا کہ آج کئی ماہ گزر جانے کے باوجود انڈس موٹرز کے صارفین کو نئی کرولا کے حصول کے لیے تین سے چار ماہ کا طویل انتظار کرنا پڑا رہا ہے۔ دوسری طرف حال ہی میں پیش کی جانے والی نئی ہونڈا سِوک (Honda Civic) کی فراہمی کے لیے بھی ہونڈا ایٹلس یہی روش اختیار کیے ہوئے ہے۔ ایک اندازے کے مطابق نئی ہونڈا سِوک 1.5 ٹربو بُک کروانے والوں کو تقریباً ڈھائی ماہ اور سِوک 1.8 اوریئل بُک کروانے والوں کو تین سے چار ماہ بعد گاڑی فراہم کرنے کا وعدہ کیا جارہا ہے۔

اس صورتحال سے گاڑیوں پر غیر قانونی منافع خوری اور “اون” رکھ کر گاڑیاں فروخت کرنے کا سلسلہ فروغ پا رہا ہے۔ شاید بہت سے لوگ جانتے نہ ہوں کہ اسی معاملے کا سدباب کرنے کے لیے نئی آٹو پالیسی میں کار ساز اداروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ نئی گاڑی بُک کروانے والوں کو زیادہ سے زیادہ 2 ماہ میں گاڑی فراہم کریں۔ بصورت دیگر صارفین کو انتظار کرنے کے عوض رعایت دیتے ہوئے رقم کا کچھ حصہ واپس کیا جائے گا۔ تاہم نئی آٹو پالیسی کے بعد بھی ٹویوٹا کرولا اور ہونڈا سِوک بُک کروانے والے صارفین اپنی نئی گاڑی حاصل کرنے کے لیے تین سے چار ماہ تک انتظار کرنے پر مجبور ہیں۔

نئی ہونڈا سِوک آسان اقساط پر حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

یہ تو محض ایک چھوٹی سی مثال ہے ورنہ موجودہ کار ساز اداروں کے غیر ذمہ دارانہ رویہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ البتہ اس ضمن میں حکومت کی خاموشی معنی خیز اور حیران کن ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کو نئی آٹو پالیسی پر عملدارآمد کے لیے بھی اتنا ہی وقت درکار ہے کہ جتنا اس کی تیاری کے لیے صرف کیا گیا۔ اگر واقعی حکومت اپنی ہی بنائی گئی پالیسیوں پر عمل نہیں کرواسکتی تو بھلا ہم نئے کار ساز اداروں کی آمد، غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے جیسے دعوؤں پر کیوں یقین کرلیں؟

Exit mobile version