آلودگی کے خلاف جہاد: خیبر پختونخوا میں برقی رکشا کی آمد متوقع
خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور کو دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق دنیا میں آلودگی کا شکار 10 شہروں میں کراچی، پشاور اور راولپنڈی بھی شامل ہیں۔ ان شہروں میں فضائی آلودگی کے علاوہ صوتی آلودگی کی سطح پر بھی بہت زیادہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بڑے شہروں میں آمد و رفت کے لیے استعمال ہونے والا رکشا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پشاور میں 13 ہزار سے زائد رجسٹرڈ رکشا چل رہے ہیں جبکہ غیر رجسٹر رکشاؤں کی تعداد 37 ہزار سے بھی زیادہ ہے۔ آلودگی پر قابو پانے اور شہریوں کو بہتری سفری سہولیات کی فراہمی کے لیے خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے پشاور میں بجلی سے چلنے والی برقی-رکشاؤں کو متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ برقی-رکشا، جنہیں ای-رکشا بھی کہا جاتا ہے، چین میں تیار کیے جائیں گے۔ ان کی قیمت سی این جی رکشاؤں سے بھی کم ہوگی۔ اس وقت ایک عام رکشا کی قیمت تقریباً 3 لاکھ روپے ہے جبکہ یہ ای-رکشا لگ بھگ 2 لاکھ 40 ہزار روپے میں دستیاب ہوں گے۔ اس رکشے میں 4 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہوگی۔ اس کی زیادہ سے زیادہ رفتار 45 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگی۔
بجلی سے چلنے والی دیگر چیزوں کی طرح اس نئے برقی-رکشا کو بھی 240 واٹ کے عام ساکٹ سے چارج کیا جاسکے گا۔ مکمل چارجنگ کے لیے تقریباً 7 گھنٹے درکار ہوں گے۔ البتہ جدید تکنیک کی مدد سے اسے 2 گھنٹوں میں 80 فیصد بھی چارج کیا جاسکتا ہے۔ 80 فیصد چارجنگ کے ساتھ یہ رکشا تقریباً 50 کلومیٹر سفر کرسکے گا۔
صوبائی حکومت برقی-رکشا کے بعد ٹیکسی اور مال برداری کے لیے بھی برقی ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ برقی-ٹیکسی میں زیادہ سے زیادہ 5 افراد سوار ہوسکیں گے اور یہ ایک بار مکمل چارجنگ کے بعد تقریباً 150 کلومیٹر کا سفر طے کرسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا میں شاہراہوں کی تعمیر و مرمت: وزیر اعلی نے انتظامات مکمل کرنے کی ہدایت کردی!
اس میں کوئی شک نہیں کہ نئے برقی-رکشا کی آمد سے آلودگی پر قابو پانے میں مدد ملے گی تاہم اس کے لیے بجلی کی فراہمی یقینی بنانا حکومت کے لیے ایک بڑا اور اہم چیلنج ہوگا۔ بالخصوص موسم گرما میں ہونے والی لوڈ شیڈنگ کو دیکھتے ہوئے ان برقی رکشاؤں کی کامیابی مشکوک ٹہرتی ہے۔ اس کے علاوہ برقی-رکشاؤں کی تیاری و فروخت پر ہونے والے اخراجات بھی ذہن میں رکھنی چاہیئں۔
پاکستان کے ہر بڑے اور چھوٹے شہر میں پیٹرول اسٹیشنز کا جال بچھا ہوا ہے تاہم برقی رکشاؤں کو چارج کرنے کے لیے فی الحال کوئی سہولت نظر نہیں آرہی۔ ایسے میں دوران سفر چارجنگ ختم ہوجانے کی صورت میں اس کی بیٹری دوبارہ چارج کرنے کا بندوبست نہ صرف خود رکشا مالکان بلکہ مسافروں کے لیے پریشان کن ثابت ہوسکتا ہے۔ یاد رہے کہ پیٹرول اور ڈیزل کے برعکس برقی رکشاؤں کو چارجنگ کے لیے گھنٹوں درکار ہوں گے۔ گو کہ حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا منصوبہ قابل تعریف ہے تاہم اس ضمن میں عملی پیش رفت سے قبل مزید غور اور تیاری کی ضرورت ہے۔