درآمدی گاڑیوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی واپس لینے کا حکم
سندھ ہائی کورٹ نے حکومت پاکستان کی جانب سے جاری کردہ ایس آر او 1035 (1) کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ درآمدی اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی واپس لیتے ہوئے پہلی جیسی حالت کو برقرار رکھا۔ یاد رہے کہ بی ایم ڈبلیو، آوڈی اور پورشے پاکستان نے ایس آر او کے اجرا کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جس کے نتیجے میں یہ فیصلہ سامنے آیا ہے۔
اکتوبر 2017 میں حکومت پاکستان نے ایس آر او 1035 (1) / 2017 جاری کیا تھا جس کے بعد گاڑیوں، لوہے اور دیگر اشیا صرف سمیت 731 درآمدی اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ ہو گیا۔ حکومتی فیصلے سے مقامی مارکیٹ میں کاروباری حضرات اور مقامی صارفین دونوں ہی کے لیے بڑی پریشانیاں کھڑی کر دیں۔ اس وقت حکومت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس ایس آر او کا مقصد مقامی اداروں کو زیادہ فائدہ پہنچانا اور روپے کی گرتی ہوئی ساکھ کو روکنا ہے۔ تاہم حکومت بیان کے برعکس اس پالیسی کے نتیجے میں درآمد شدہ اشیا بالخصوص نئی درآمد شدہ گاڑیوں کی قیمتوں میں زبردست اضافہ دیکھا گیا۔ آوڈی، مرسیڈیز، بی ایم ڈبلیو اور پورشے نے بھی اپنی گاڑیوں کی قیمتیں بڑھا دیں۔ آوڈی Q7 کی مثال ملاحظہ کیجیے جس کی قیمت 16.5ملین سے بڑھ کر 19.5 ملین روپے ہو گئی جبکہ Q5کی قیمت 13.56 ملین روپے سے بڑھ کر 15.2 ملین روپے ہو گئی۔
ایس او آر کے اجرا کے بعد نئی تیار شدہ گاڑیاں درآمد کرنے والے اداروں جیسا کہ بی ایم ڈبلیو، آوڈی اور پورشے پاکستان نے سندھ اور لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ درج کروایا جس میں معزز عدالتوں سے اپیل کی گئی تھی کہ اس ایس او آر کو کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ یہ آٹو پالیسی 201-2021ء کی روح کے منافی ہے نیز اس سے کاروبار کو بھی شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ اب، 5 ماہ کے بعد 7 فروری 2018 کو سندھ ہائی کورٹ نے ایس آر او کے اجرا کو اختیارات سے تجاوز قرار دے دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس آر ایس اوز کو جاری کرنے والے حکام ایسا ایس آر او جاری کرنے کا حق ہی نہیں رکھتے۔ سادے الفاظ میں کہیں تو عدالت نے ایس آر او 1035(1)/2017 کو فوری طور پر کالعدم قرار دیتے ہوئے درآمد شدہ اشیا پر عائد ریگولیٹری ڈیوٹی کی اکتوبر 2017 سے پہلے والی پوزیشن بحال کر دی ہے۔
یوں ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہونے کے بعد 1800cc کی نئی گاڑیوں کی قیمتوں میں 60 سے 80 فیصد اضافہ ہو گیا تھا وہ اب ستمبر2017 سے پہلے والی قیمتوں پر واپس چلی گئی ہیں۔ تاہم یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ بلاشبہ یہ ایک حتمی فیصلہ ہے لیکن یہ حکومت کو فیصلے کے خلاف اپیل کے لیے دیے گئے 30 دنوں بعد موثر ہو گا۔ سادہ الفاظ میں اس وقت تک یہ ایک معلق فیصلہ ہے۔
اس عدالتی فیصلے پر نقطہ نظر جاننے کے لیے ہم نے نئی گاڑیاں درآمد کرنے والے اداروں سے رابطہ کیا۔ آوڈی پاکستان کے عہدیداران نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو سراہا اور ہمیں بتایا کہ اس معاملے پر مزید تبصرہ تھوڑی دیر بعد کریں گے۔ تو قارئین، جب ہمیں ان کا باضابطہ موقف موصول ہوگا تو ہی ہم اسے آپ سے بھی شیئر کر سکیں گے۔
اس کے بعد پورشے پاکستان کے حکام کا موقف جاننے کی کوشش کی۔ جواباً انہوں نے بھی عدالتی فیصلے کی تعریف کی اور کہا کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے منتظر ہیں جس کی سماعت 24 فروری 2018 کو طے ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد لاہور ہائی کورٹ بھی ایس آر او کو کالعدم قرار دے گا۔ آوڈی کے ذمہ دار نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے مطابق ایس آر او ابھی صرف معطل ہوا ہے، اس لیے اگلے تیس دن تک گاڑیاں موجودہ قیمتوں پر فروخت کی جائیں گی اور اس مدت کے بعد قیمتیں دوبارہ پچھلے سال اکتوبر سے پہلے جگہ پر واپس آ جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ مقامی صارفین کو ہو گا۔ ہمارے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے آوڈی کے عہدیدار نے بتایا کہ عدالت کی جانب سے ایس آر او کو کلی طور پر ختم کیے جانے کے بعد ان لوگوں کو رقوم لوٹائی جائیں گی جنہوں نے نئی گاڑی خریدتے ہوئے اضافی ریگولیٹری ڈیوٹی ادا کی تھی۔
ماہرین کی رائے جاننے کے بعد ہم نے عدالتی فیصلے کے اہم ترین نکات اکٹھے کیے، جو درج ذیل ہیں:
- ایس آر او کے اجرا کو اختیارات سے تجاوز قرار دیا گیا ہے۔
- کوئی بھی افسر، ادارہ یا کوئی فرد ایس آر او کے ذریعے درآمدی اشیا پر اضافی ریگولیٹری ڈیوٹی طلب نہیں کر سکتا۔
- اکتوبر 2007 میں ایس آر او کے اجرا کے بعد جن افراد نے ریگولیٹری ڈیوٹی کی مد میں پیسے دیے ہیں انہیں اضافی رقم واپس کی جائے۔
- حکومت کو 30 دن کے اندر اس فیصلے کے خلاف درخواست کرنے کا حق حاصل ہے۔
یاد رہے کہ مذکورہ عدالتی حکم صرف گاڑیوں پر ہی نہیں بلکہ دیگر درآمدی اشیا پر بھی لاگو ہوتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ وہ تمام ادارے اپنے صارفین کو اضافی رقم واپس کریں جو ریگولیٹری اتھارٹی کی مد میں موصول کی جا چکی ہے۔