کیا سوزوکی گاڑی فروخت کرنا واقعی آسان ہے؟
بہت سے لوگ سوزوکی گاڑیوں کو “تیار نقد” خیال کرتے ہیں۔ یعنی جب چاہا گاڑی فروخت کر کے نقد پیسے حاصل کرلیے۔ لیکن جب میں نے یہ مفروضہ رکھنے والے قریبی احباب سے اسی موضوع پر بات کی اور پوچھا کہ آیا کسی ہنگامی صورتحال میں سوزوکی گاڑی فروخت کرنے کا بذات خود تجربہ کیا ہے؟ یا حقیقت میں استعمال شدہ سوزوکی بیچتے ہوئے اچھی قیمت ملی ہے؟ تو ان میں سے اکثر کا جواب نفی میں ہوتا ہے۔
پاکستان میں لوگ عام طور پر ایسی گاڑی خریدنا پسند کرتے ہیں جسے بعد از استعمال باآسانی فروخت کیا جاسکے۔ سوزوکی خریدنے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی گاڑوں کی دیکھ بھال کرنا آسان ہے نیز گاڑی کے پرزے بھی بازار میں مل جاتے ہیں۔ انہی خصوصیات کو گاڑیوں کی اضافی قیمت کا جواز بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور غیر معیاری مصنوعات فروخت کی جاتی رہتی ہیں۔ جو گاڑی مارکیٹ میں مشہور نہ ہو اسے زیادہ تر لوگ خریدنا پسند نہیں کرتے۔ اور چونکہ زیادہ خریدار نہ ہونے کے باعث ہر کوئی ایسی گاڑی رکھنے کا سوچتا بھی نہیں جسے بوقت ضرورت اچھی قیمت پر فروخت نہ کیا جاسکے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی گاڑی بنانے کا موقع حکومتی غفلت کے باعث ضایع ہوگیا
اگر آپ ایک خریدار ہیں اور استعمال شدہ گاڑی خریدنا چاہتے ہیں تو آپ کو سوزوکی گاڑی باآسانی مل جائے گی۔ البتہ اگر آپ فروخت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو وہی سوزوکی گاڑی نکل کر نہیں دے گی چاہے آپ کو پیسوں کی کتنی ہی ضرورت ہو۔ خاص طور پر ایسی سوزوکی گاڑیاں جو بہت زیادہ چلائی جا چکی ہوں بالخصوص مہران، کلٹس، بولان، آلٹو اور خیبر وغیرہ۔ میں نے ذاتی طور پر بہت سی گاڑیاں استعمال کی ہیں جن میں سے کم از کم 4 تو سوزوکی رہی ہیں۔اسے حسن اتفاق کہیے یا میری بدقسمتی کہ جب مجھے پیسوں کی ضرورت پیش آئی تب دیگر برانڈز کے مقابلے میں سوزوکی گاڑی فروخت کرنے میں مجھے سب سے زیادہ کوفت کا سامنا کرنا پڑا۔
میرے حلقہ احباب میں بھی ایسے کئی افراد موجود ہیں جو ایسی صورتحال ہی سے گزرچکے ہیں۔ ان میں سے اکثر نے پیسوں کی شدید ضرورت میں سوزوکی فروخت کرنے کا ارادہ کیا تو ہمیشہ بھاری نقصان کے ساتھ ہی بیچنا پڑی چاہے ان کی گاڑی کی حالت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو۔
لیکن ایسا کیوں ہے؟ آئیے جانتے ہیں۔
ایک فرد سوزوکی آلٹو 2007 خریدنے کے لیے نکلتا ہے تو مارکیٹ میں بے شمار آلٹو برائے فروخت ہوتی ہیں۔ اور چونکہ ان کے مختلف ورژنز میں زیادہ فرق نہیں اس لیے بہت زیادہ امکانات ہیں کہ وہ فرد اپنے بجٹ سے بھی کم پیسوں میں 2005 کی کوئی اچھی سی گاڑی خرید لے اور کچھ پیسے بھی بچا لے۔ اور اگر اس دوران کوئی فروخت کرنے والا بہت ہی اچھی حالت والی آلٹو 2007 بیچ رہا ہوگا تو اس کی قیمت 2005 سے تو بہرحال زیادہ ہی ہوگی اور ممکن ہے اتنی ہی قیمت میں 2008/09 کی نئی گاڑی ہی آجائے۔ یہی وجہ ہے کہ آلٹو 2007 رکھنے والے شخص کو قیمت کم کرنا پڑے گی جس کا اثر پوری مارکیٹ پر پڑے گا۔ یوں سوزوکی گاڑی خریدتے ہوئے تو آپ کو پیسے بچ جائیں گے لیکن فروخت کرنے کی ضرورت پیش آئی تو وہی گاڑی ناکوں چنے چبوا دے گی۔
یہ بھی پڑھیں: نئی سوزوکی آلٹو 2016 سے متعلق اہم معلومات منظر عام پر آگئیں
میرے دفتر میں کام کرنے والے ایک دوست نے استعمال شدہ مہران خریدنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا کُل بجٹ تقریباً 4 لاکھ روپے تھا اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ اتنے کم پیسوں میں گاڑی ملنا قدرے مشکل سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جب وہ بازار میں نکلا تو 2006 سے 2009 تک کی مہران بہت اچھی حالت میں دستیاب تھیں۔ نئے اور اچھے ماڈل کی دستیاب گاڑیاں دیکھ کر تو ہر کوئی یہی رائے رکھتا ہے کہ “یار اوپر کا ماڈل مل رہا ہے” وہی لے لینا چاہیے اسی لیے 2006-07 کے ماڈل ان سے کہیں زیادہ اچھی حالت اور مناسب قیمت کے باوجود نظر انداز ہوگئے۔ ایک اور معاملہ میرے عزیز کے ساتھ پیش آیا جو بیرون ملک منتقل ہونے کی وجہ سے کلٹس 2003 فروخت کرنا چاہتے تھے اور اس صورتحال میں انہیں 55 ہزار روپے نقصان سے گاڑی فروخت کرنا پڑی۔ کیوں کہ ہر خریدار آکر یہی کہتا کہ قیمت زیادہ ہے اور اتنے میں تو 2005 کا ماڈل بھی مل جائے گا۔
خریدار کی حیثیت سے میں گاڑی تلاش کرنے نکلوں اور مجھے کلٹس 2012 ملے تو شاید میں اسے اچھی حالت ہونے کے باوجود اس لیے نظر انداز کردوں کہ مجھے اگلی سڑک پر کم پیسوں میں کلٹس 2010 میں مل جائے گی۔ یا پھر میں اچھی حالت والی کلٹس 2012 کو اس لیے چھوڑ دوں گا کہ اسی قیمت میں نئی کلٹس 2014 خریدی جاسکتی ہے۔ یہ مسائل زیادہ تر کلٹس، مہران، بولان یا آلٹو جیسی گاڑیوں کے ساتھ پیش آتے ہیں جنہیں ایک طویل عرصے سے تیار و فروخت کیا جارہا ہے۔ البتہ اگر آپ کے پاس اچھی حالت میں سوزوکی مرگلہ جیسی گاڑی ہے، جس کی تیاری 18 سال قبل بند کردی گئی تھی، تو پھر آپ کو من مانی قیمت حاصل ہوسکتی ہے۔
اس کے علاوہ ایسے افراد کی وجہ سے بھی ان مسائل میں اضافہ ہورہا ہے جو استعمال شدہ گاڑیوں کو خریدتے ہیں اور پھر اپنا منافع رکھ کر آگے فروخت کردیتے ہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر آپ کوئی گاڑی “فوری فروخت” کرنا چاہیں اور اس کا اشتہار اخبار یا ویب سائٹ پر لگائیں تو حقیقی خریدار کم اور گاڑیوں کے لین دین کے کاروبار سے وابستہ افراد زیادہ رابطہ کریں گے۔
مختصراً یہ کہ گاڑی چاہے جس بھی ادارے یا برانڈ کی ہو اور اس کی حالت جیسی بھی ہو، جب آپ اسے فروخت کرنے نکلیں گے تو عام طور پر کچھ نقصان ہی میں فروخت کرنا پڑے گی۔
اگر آپ کو بھی سوزوکی گاڑی فروخت کرنے کا تجربہ ہوا ہے تو ہمیں بذریعہ تبصرہ ضرور بتائیں۔