سوزوکی لیانا، ہونڈا سٹی سے بہتر ہے۔۔۔
حادثے کا شکار، گزارے قابل چیسز، رنگ برنگی (گاڑی کا ہر حصہ الگ رنگ میں)، ڈھائی لاکھ کلومیٹر چلی ہوئی، نقل شدہ رجسٹریشن بُک (اصل لاپتہ)، اندرونی حصہ (interior) خستہ حال، برقی آلات کا تتر بتر، انجن آخری سانسیں لیتا ہوا اور سسپنشن ایسا کہ گاڑی شاہراہ کشمیر پر کسی شرابی کی طرح ادھر ادھر لڑھکتی پڑکتی چلے۔۔۔
یہ مختصر سا احوال ہونڈا سٹی iDsi کا ہے جو آپ کو 6 لاکھ روپے میں برائے فروخت ہے۔
کیسا ہو کہ اگر میں آپ کو اسی قیمت میں ایک ایسی سیڈان کے بارے میں بتاؤں جسے چند سال پہلے ہی تیار کیا گیا ہو، ظاہری انداز بھی بہتر ہو، انجن زیادہ طاقتور ہو، 80 کلومیٹر سے بھی کم مسافت ہو، اندر بیٹھ کر بالکل نئی گاڑی کا احساس ہو، اچھی دیکھ بھال بھی کی گئی ہو اور سسپنشن عربی گھوڑے کی ٹانگوں جیسے مضبوط ہوں۔۔۔ تو کیا آپ اسے خریدنا پسند کریں گے؟
اور اگر میں آپ کو اس گاڑی کا نام ‘سوزوکی لیانا‘ بتاؤں تو کیا آپ اپنا فیصلے سے رجوع تو نہیں کریں گے؟
جی ہاں، یہ سوزوکی لیانا ہی ہے۔ پاکستان میں سب سے ناپسندیدہ سیڈان۔ اسے پاک سوزوکی نے ٹویوٹا کرولا Xli اور ہونڈا سٹی کو ٹکر دینے کے لیے میدان میں اتارا لیکن یہ منہ کے بل جا گری۔ اسے اٹھانے کے لیے زبردستی تشہری مہم چلائی گئی، اقساط پر فراہمی کی لالچ دی گئی لیکن یہ تمام محنت اکارت گئی۔ پاکستان میں سوزوکی لیانا کی ناکامی کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہیں لیکن اس مضمون کا موضوع یہ نہیں ہے۔ مدعا یہ ہے کہ – کیا آپ اسے آدھی قیمت پر بھی خریدنا پسند نہیں کریں گے؟
یہ بھی پڑھیں: سوزوکی لیانا کو مرگلہ اور بلینو جیسی کامیابی حاصل کیوں نا ہوئی؟
مانا کہ اس کا انداز بہت عجیب ہے۔ تسلیم کہ یہ سوزوکی ہی ہے۔ درست کہ اس میں کئی طرح کے مسئلہ بھی ہیں اور یہ سی این جی پر اچھی نہیں چل سکتی۔ لیکن اس کے اندر بھی تو جھانک کر دیکھیے کہ اسے کتنے سلیقے سے تیار کیا گیا ہے، ڈگی میں بہت زیادہ گنجائش ہے اور اس کے LXi ماڈل میں اینٹی –لاک بریکنگ سسٹم (ABS) بھی ہے۔ اور تو اور اپنے دیوہیکل انداز سے کمزور گرفت کا تاثر بھی اس کی کارکردگی سے ختم ہوجاتا ہے۔ سوزوکی لیانا LXi میں مناسب ساؤنڈ سسٹم بھی دیا جارہا ہے اور اس کا 1300cc انجن ایندھن کی بچت میں بھی برا نہیں۔ کیا یہ بھی یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ اس میں امموبلائزر شامل ہے جو پاکستان میں گنتی کی گاڑیوں میں پیش کیا جارہا ہے؟ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ پچھلے سالوں کے مقابلے میں آج یہ تقریباً نصف قیمت پر دستیاب ہے۔
اب بات کرتے ہیں اس کی مینٹی نینس سے متعلق۔ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بجائے میں براہ راست نکتے پر آتے ہیں – اس کی مرمت اور دیکھ بھال زیادہ سستی نہیں ہے، کم از کم ہونڈا سِٹی iDsi جتنی تو بالکل بھی نہیں۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ گزشتہ سالوں کے دوران Kei کارز کی مارکیٹ میں آمد نے سستی مرمت کا تصور بالکل تبدیل کردیا ہے۔ مثال کے طور پر 660cc گاڑی کی ہیڈ لائٹس زیادہ سے زیادہ 28 ہزار روپے میں درآمد کی جاسکتی ہیں۔ کیٹالیٹک کنورٹر (Catalytic Converter) اس سے زیادہ مہنگا نہیں ملے گا۔ مقامی تیار شدہ گاڑیوں کے لیے بھی چیزیں اتنی سستی نہیں ملتیں کہ جتنا ہم سمجھتے ہیں۔ عوامی سوزوکی کلٹس کا G10 انجن بھی آپ کو 70 ہزار روپے سے کم کا تو نہیں ملے گا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ گاڑی کی مرمت سستی تو نہیں ہے لیکن یہ ‘سستی مرمت’ والا تصور اب گزرے زمانے کی بات ہوتی جارہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نئی اور پرانی گاڑیوں کی قدر و قیمت؛ ہونڈا سِٹی بہترین انتخاب!
تو چلیے ایک بار پھر مضمون کے ابتدائی نکتے پر واپس آتے ہیں – ہمارے پاس دو گاڑیاں ہیں، ایک طرف ہے: قبر میں پاؤں لٹکائی ہونڈا سِٹی جسے خریدنے کے بعد آپ کے موبائل میں “امجد ایکسل والا”، “احمد کار AC”، “بشیر بھائی گیس کٹ” اور “ٹونی پالش” جیسے لوگوں کے نمبر بھرجائیں گے۔ جبکہ دوسری طرف ہے سوزوکی لیانا جو ایک اندازے کے مطابق کم از کم 3 سال تک آئل تبدیل کروانے کے علاوہ کوئی بھی دوسرے مہنگے کام کی طرف نہیں لے کر جائے گی۔ کیا اب بھی فیصلہ کرنا مشکل ہے؟
اس وقت 6 لاکھ روپے کے بجٹ میں بہت کم ایسی سیڈان دستیاب ہیں جن کی عمر 10 سال سے کم ہو۔ یہی چیز لیانا کو سب سے مضبوط امیدوار بناتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 10 سال سے بھی زیادہ پرانی گاڑی آج بھی بہترین گاڑی ہی رہے گی؟ یا پھر پچھلی دہائی کی انتہائی ناپسندیدہ گاڑی کا انتخاب درست فیصلہ ہوگا؟
کیا بہترین حالت میں دستیاب سوزوکی لیانا اس ہونڈا سٹی سے بہتر ہے جس کا تیا پانچہ ہوچکا ہو؟