نئی گاڑی اچھی یا پرانی گاڑی بھلی؟ سب سے زیادہ زیر بحث سوال

گاڑی خریدنے کے حوالے سے عام لوگوں کی دو مختلف آراء ہیں۔ ایک طبقہ کہتا ہے کہ نئی اور جدت سے ہم آہنگ گاڑیاں لینے ہی میں سمجھداری ہے تو دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ پرانی اور آزمودہ گاڑی اصل میں منافع کا سودا ہے۔ متضاد رائے رکھنے والوں کی بڑی تعداد ہے اور ان کے پاس بھرپور دلائل بھی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو ان کا موقف ہے وہی درست اور برحق ہے!

گاڑیوں میں جدت قدرے پیچیدہ معاملہ ہے جسے سمجھنا ہر ایک کے بس میں نہیں۔ ہر گاڑی میں سینکڑوں پرزے لگتے ہیں اور انہیں لگانے کے لیے بھی ہزاروں نٹ اور بولٹ استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس دوران گاڑی کے انداز، مسافروں کے آرام، ڈرائیور کی گاڑی پر گرفت، رفتار، حفاظتی و تفریحی سہولیات غرض کہ درجنوں چیزوں کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ گاڑیاں تیار کرنے والوں کا کئی ایک خریداروں سے واسطہ پڑتا ہے جن میں سے تقریباً ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کار ساز ادارے کوشش کرتے ہیں کہ اپنی گاڑی کو صارفین کے لیے قابل قبول بنانے کے لیے ہر ہر حصے پر مکمل توجہ اور بھرپور لگن کے ساتھ کام کریں۔

ایسے میں اگر نئی اور پرانی گاڑی میں سے کسی ایک کے انتخاب کا کہا جائے تو یہ مشکل فیصلہ ہوگا۔ ایک نئی گاڑی کسی اعتبار سے اعلی معلوم ہوتی ہے تو ممکن ہے پرانی گاڑی میں شامل کسی خصوصیت کا مقابلہ نہ کرسکے۔ مثلاً پاک سوزوکی جو گاڑیاں 90 کی دہائی سے پاکستان میں پیش کر رہی ہے وہ معیار، ڈیش بورڈ، پلاسٹک اور نظر میں اپنے وقتوں کی کئی گاڑیوں سے بہتر تھیں۔ تاہم آج تیار ہونے والی گاڑیوں کے اعتبار سے ان کو پرکھا جائے تو یہ تین میں رہیں گی نہ تیرا میں۔ غرض کہ ماضی اور حال کی گاڑیوں کا تقابل اس لیے نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ وہ کئی اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

مثال کے طور پر آپ ہونڈا سِٹی کو ہی دیکھ لیجیے۔ اس کی پہلی جنریشن ہائپر 16 انجن کے ساتھ پیش کی گئی تھی اور ڈرائیور حضرات بہترین گرفت کی وجہ سے ہونڈا سِٹی کو بہت پسند کرتے تھے۔ 1300 سی سی سیڈان کا انداز بھی خاصہ اچھا تھا تاہم دوسری جنریشن میں بالکل متضاد رہی۔ دوسری جنریشن کے iDSL انجن کو ناپسند کیا گیا بلکہ کچھ لوگوں نے تو پہلی جنریشن کے ہائپر 16 انجن کو اس سے بہتر قرار دیا جس کی بنیادی وجہ ڈرائیور کی گاڑی پر بہتر گرفت اور رفتار میں توازن تھا۔ دوسری طرف یہی iDSL سِٹی کو زیادہ وسیع اور ایندھن کے باکفایت استعمال جیسی خصوصیات کی وجہ سے پسند کیا جاتا رہا۔ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان میں لوگوں کی پسند کتنی متنوع ہے۔

مزید ایک مثال ٹویوٹا کرولا کی لے لیجیے۔ ساتویں جنریشن کے بعد ٹویوٹا انڈس موٹرز نے براہ راست نویں جنریشن پاکستان متعارف کروائی ۔ باوجودیکہ کہ نئی جنریشن پچھلی سے کہیں زیادہ بہتر تھی لیکن اس میں اچانک بریک لگ جانے کے مسائل تھے جن کی وجہ سے کئی ایک حادثات بھی ہوئے۔ اسی طرح پاک سوزوکی نے جو تین سیڈان گاڑیاں متعارف کروائیں ان میں سوزوکی لیانا کو سب سے کم پسند کیا گیا۔جبکہ ان تینوں میں سب سے پرانی سوزوکی مرگلہ کو سی این جی سے مطابقت رکھنے کی وجہ سے بہت زیادہ پزیرائی حاصل ہوئی۔ ہونڈا سِوک کی پانچویں جنریشن بھی بہت کامیاب رہی جس کی وجہ اس میں رد و بدل اور سجاوٹ کے لیے موجود جگہ تھی۔ بعد میں آنے والی چھٹی جنریشن کی ہونڈا سِوک بھی اس اعتبار سے پسند کی جانی چاہیے تھی لیکن حیرت انگیز طور پر اسے اتنی پذیرائی حاصل نہ ہوئی۔ کچھ یہی کہانی سِوک کی آٹھویں اور نویں جنریشن کے ساتھ بھی ہے کہ جہاں نئی جنریشن کو زیادہ ووٹ ملتے ہیں وہیں آٹھویں جنریشن کی تعریف کرنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔

پرانی گاڑیوں کے سودے کو نفع بخش قرار دینے والوں میں ایسے لوگوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے جو محدود بجٹ یا نقصان کے ڈر سے نئی گاڑیوں کا اپنانے میں کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مگر جب یہی نئی گاڑیاں چند سال بعد پرانی ہوجاتی ہیں اور عوامی مقبولیت بھی حاصل کرلیتی ہیں تو پھر یہی لوگ ان گاڑیوں کو خریدتے ہوئے جھجکتے نہیں۔ 80 کی دہائی میں جب اگلے پہیوں پر چلنے والی گاڑیاں پیش کی گئیں تو گاڑیوں کے مکینک صاحبان نے اسے بے کار، فضول اور ناکام قرار دیا تاہم وقت کے ساتھ وہ اس تبدیلی کو اپناتے گئے اور آج کی نسل توان باتوں کا علم بھی نہیں۔

عام طور پر لوگ گاڑی خریدنے سے پہلے مکینک سے مشورہ کرتا ہیں جن میں سے اکثر اپنے کام میں ماہر تو ہوتے ہیں لیکن انہیں جدید ٹیکنالوجی کی معلومات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نئی گاڑیوں پر پیسہ خرچ کرنے کے بجائے پرانی اور آزمودہ گاڑی خریدنے کا مشورہ دیتے ہیں کیوں کہ ان میں استعمال ہونے والی تکنیک و مہارت پر ان کو عبور حاصل ہے۔ یوں وہ باآسانی اپنے لیے ایک نیا گاہک بنا لیتے ہیں جو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنی مشکل آسان کرنے کے بجائے پرانی گاڑی کو گلے لگا کر جیب پر اضافی بوجھ ڈال بیٹھتا ہے۔ جب جب میں یہ صورتحال دیکھتا ہوں تب تب یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ 2016 میں ٹربو انجن والی دسویں جنریشن کی ہونڈا سِوک آئے گی تو وہ یہ سب کچھ کیسے ہضم کریں گے؟

سوزوکی ویگن-آر کی حالیہ فروخت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پرانی گاڑیوں پر لوگوں کا ایمان کس قدر پختہ ہے۔ پاک سوزوکی ویگن آر کو سال 2014 میں 1000 سی سی انجن کی حامل آلٹو کی جگہ پیش کیا گیا تھا۔ اس وقت 11 ہزار آلٹو سالانہ فروخت ہوا کرتی تھیں اور سال 2012 تک اس کا مجموعہ 1,34,011 تک پہنچ چکا تھا۔ تاہم دو سال گزرنے کے باوجود ویگن آر کی مجموعی فروخت صرف 6,800 تک ہوسکی ہے۔

دو یا زائد گاڑیوں کا آپس میں مقابلہ کرنے کے لیے کسی ٹھوس بنیاد کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ہر گاڑی کسی نہ کسی اعتبار سے دوسری گاڑی سے مختلف ہوگی چاہے وہ بہتر ہو یا بدتر۔ نئی گاڑی اور پرانی گاڑی کا مقابلہ بھی ایسے ہی چلتا رہے گا۔ نئی اور جدید گاڑیاں آتی رہیں گی۔ وہ کئی اعتبار سے بہترین ہوں گی لیکن شاید کچھ چیزیں ہمارے مزاج سے مختلف بھی ہوں گی۔ بس ایک حقیقت جو کبھی تبدیل نہیں ہوگی اور وہ یہ کہ جو گاڑی آج پرانی ہے وہ بھی کبھی نئی تھی۔

Exit mobile version