گاڑیوں اور موٹر سائیکل کا دھواں چہرے کو نقصان پہنچا سکتا ہے

گاڑیوں کی درآمدات میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے، نئی موٹر سائیکلیں دھڑا دھڑ فروخت ہو رہی ہیں، گاڑیوں کی خرید میں بھی خوب تیزی آ رہی ہے۔ ایسی خبریں سب ہی کو بہت اچھی لگتی ہیں اور آخر کیوں نہ لگیں؟ یہ عوام کی انفرادی اور ملک کی مجموعی معاشی صورت حال میں بہتری کی عکاسی کرتی ہیں اور ایسی خبروں پر خوش ہونا حق بھی ہے۔ لیکن گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی بڑھتی ہوئی تعداد خوشی کے ساتھ ساتھ فکر کی بات بھی ہے۔ کیونکہ ان گاڑیوں کے دھوئیں سے پھیلنے والی صوتی اور فضائی آلودگی میں اضافہ نہ صرف ہماری صحت پر منفی اثرات مرتب کررہا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی اس سے شدید خطرات لاحق ہیں۔

جرمنی میں ہونے والی تازہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گاڑیوں کے دھویں سے آلودگی سے عام افراد بالخصوص خواتین کے چہرے پر گہری سیاہ چھائیاں ظاہر ہوسکتی ہیں۔ یہ خطرہ ٹریفک میں زیادہ وقت گزارنے والے لوگوں کے ساتھ ساتھ سڑکوں اور چوراہوں کے نزدیک موجود گھروں کے رہائشیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہائبرڈ گاڑی خریدنا چاہتے ہیں؟ پریوس، وِزل سے بہتر گاڑیاں دیکھیے!

جرنل آف انوسٹی گیٹو ڈرماٹالوجسٹ نے اس تحقیق میں 806 جرمن اور 743 چینی خواتین کو شامل کیا۔ ان جرمن خواتین کی عمریں 67 سے 80 سال تھیں جبکہ چینی خواتین کی عمریں 28 سے 70 سال تھیں۔ یہ خواتین روزانہ تقریباً ڈھائی سے ساڑھے تین گھنٹے گھر سے باہر گزارتی ہیں۔ تحقیق کے نیتجے سے ظاہر ہوا کہ گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں میں موجود نائٹروجن آکسائیڈ (NO2) نے ان خواتین کے ہاتھ اور بازوؤں پر زیادہ واضح اثرات نہیں ڈالے البتہ 50 سال سے زائد عمر کی خواتین کے رخساروں پر چھائیوں میں اضافہ کیا۔

دھویں سے ہونے والی فضائی آلودگی پر اس سے پہلے بھی کئی بار تحقیق کی جا چکی ہے البتہ یہ پہلا موقع ہے کہ جس سے چہرے کو آلودگی سے لاحق خطرات سے متعلق علم ہوا۔ ماضی میں کی جانے والی تحقیقات سے مختلف باتیں سامنے آئیں جن میں ٹریفک کی آلودگی (traffic pollution) سے پھیپھڑوں کے کینسر اور دماغ پر مضر اثرات پڑنے کے خدشات بھی شامل ہیں۔ امریکی ادارے کیلی فورنیا ایئر ریسورسز بورڈ نے یہ بھی کہا تھا کہ کیلی فورنیا میں سالانہ 9 ہزار اموات کے پیچھے گاڑیوں اور ٹرک سے نکلنے والی آلودگی کار فرما ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پیٹرولیم مصنوعات پر اضافی ٹیکس؛ حکومت سے رعایت کی امید فضول ہے!

کینیڈا میں قائم یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا نے اسی حوالے سے ایک اور تحقیق کی۔ اس میں 65 ہزار بچوں کی پیدائش سے 10 سال کی عمر تک نگرانی کی گئی۔ اس تحقیق سے پتہ چلا کہ ٹریفک کی آلودگی سے متاثرہ حاملہ خواتین کے بچوں کو 5 سال کی عمر سے پہلے دمہ کی بیماری لاحق ہونے کے امکان 25 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر گاڑیوں کی فروخت میں تیزی دیکھی جارہی ہے لیکن ان ممالک میں عوام کو آلودگی سے محفوظ رکھنے کی تدابیر بھی کی جارہی ہیں۔ گو کہ پاکستان میں گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں میں پہلے ہی یورو 2 ایندھن استعمال کرنے والے انجن لگے ہیں (مثلاً ٹویوٹا کرولا، سوزوکی سوِفٹ، ہونڈا CG-125 وغیرہ) لیکن یہاں دستیاب ایندھن کو یورو II معیار کے مطابق پیش کرنے کی اب تک صرف “کوشش” ہی کی جا رہی ہے جبکہ بھارت میں یورو IV آ بھی چکا ہے اور یورپ میں تو اس وقت یورو VI بھی نافذ ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے یورپ قابل تقلید ہے کہ وہاں یورو VI ستمبر 2014ء میں پیش کیا گیا اور ستمبر 2015ء سے بننے والی تمام گاڑیوں کے لیے اسے لازمی بھی قرار دے دیا گیا۔

یورو معیارات سے متعلق مزید پڑھیں: یورو معیارات اور پاکستان میں گاڑیوں کی صنعت

پاکستان میں سڑکوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے، ٹریفک کی شدید بدنظمی کا ہم روز ہی شکار ہوتے ہیں، موٹر سائیکل و گاڑیوں کے دھوئیں سے ہمیں بے تحاشہ خطرات ہیں مگر گاڑیوں کے شعبے اور پیٹرولیم مصنوعات پر سب سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے والی حکومت کی ان مسائل کو حل کرنے اور خطرات سے نمٹنے میں دلچسپی صفر ہے۔ تو پھر کون ہے جو اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آگے آئے گا؟

Exit mobile version