سال 2016: نئی گاڑیوں کی آمد اور بے شمار خوش خبریاں متوقع

پاکستان میں سال 2016 کو گاڑیوں کے شعبہ کے لیے بہترین خیال کیا جا رہا ہے۔ یہ بات نہ صرف ہمارے، آپ کے بلکہ ہر اس شخص کے لیے باعث مسرت ہے جو گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا شوق رکھتا ہو۔ گزشتہ سال گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی فروخت میں حوصلہ افزا ترقی ہوئی۔ پچھلے سال کے مقابلے میں مالی سال 2016 کے ابتدائی پانچ ماہ کے دوران گاڑیوں کی فروخت میں 54 فیصد اضافہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بیرون ملک سے گاڑیوں کی درآمد کا سلسلہ بھی تیز تر ہوتا جارہا ہے۔ صرف ایک زمرہ ہے جس نے خاطر خواہ نتائج نہیں دیئے اور وہ 4×4 گاڑیوں کا ہے البتہ یہ بات اتنی پریشان کن اس لیے نہیں کہ مقامی طور پر تیار ہونے والی صرف دو ہی گاڑیاں اس زمرے میں شمار کی جاتی ہیں؛ ٹویوٹا فورچیونر اور سِگما ڈیفینڈر (لینڈ روور ڈیفینڈر)۔ بڑے حجم والی مہنگی گاڑیاں رکھنے والے لوگوں کا رجحان بھی ٹویوٹا پراڈو اور لینڈ کروزر تک محدود ہے، اس لیے 4×4 زمرے کی تنزلی قابل سمجھ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گاڑیوں کے شعبے میں ترقی: رواں مالی سال فروخت میں 54 فیصد اضافہ

بیرون ملک سے گاڑیاں منگوانا تکنیکی اعتبار سے پاکستان کے لیے زیادہ سودمند ثابت نہیں ہوتا۔ اس سے پاکستان کے بیرون ملک محفوظ سرمائے میں کمی واقع ہوتی ہے۔ لیکن کیا کیجیے کہ جب مقامی سطح پر تیار ہونے والی گاڑیاں بہت محدود اور غیر معیاری ہوں تو لوگ خود ہی درآمد شدہ گاڑی خریدیں گے۔ اگر مقامی کار ساز ادارے نئے ماڈلز متعارف کروائیں یا مارکیٹ میں موجود گاڑیوں کے معیار میں بہتری لائیں تو پھر کسی کو بیرون ملک سے گاڑی منگوانے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔

گزشتہ سال سب سے زیادہ درآمد کی جانے والی گاڑیوں میں ہونڈا وِزل قابل ذکر ہے۔ وِزل ایک مختصر SUV طرز کی گاڑی ہے جسے ہونڈا فِٹ کے تیسری جنریشن کے پلیٹ فارم پر تیار کیا گیا ہے۔ وِزل نے پاکستان میں بہت تیزی سے مقبولیت حاصل کی اور آج بھی سڑکوں پر اس کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ عوامی رجحان کو دیکھتے ہوئے ہونڈا ایٹلس نے پاکستان میں HR-V متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جاپانی کار ساز ادارہ HR-V کی پیشکش سے نہ صرف اپنی ساکھ بہتر بنانے کی کوشش کرے گا بلکہ درآمد شدہ گاڑیوں کا بہترین متبادل بھی فراہم کرسکے گا۔ ہونڈا HR-V کو 1500 سی سی انجن کے ساتھ پیش کیا جائے گا تاہم اس میں وِزل کی منفرد ہائبرڈ خصوصیت شامل نہیں۔ اب دیکھنا ہوگا کہ نئی لیکن ہائبرڈ ٹیکنالوجی کے بغیر پیش کی گئی گاڑی کو عوام میں مقبولیت حاصل ہوتی ہے یا نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہونڈا ایٹلس کی پیش کردہ نئی HR-V کی قیمت 35 سے 40 لاکھ روپے کے درمیان ہوگی۔

متعلقہ مضمون: نئی آٹو پالیسی پر جاپانی اور یورپی اداروں کے درمیان رسہ کشی کا آغاز

علاوہ ازیں ہونڈا ایٹلس کی جانب سے ہونڈا سِوک 2016 کی پیش کش بھی رواں سال متوقع ہے۔ بلاشبہ یہ سال کی سب سے بڑی خبر بن سکتی ہے۔ سال 2014 میں ٹویوٹا کرولا کو پاکستان میں متعارف کروایا گیا تھا۔ جنوری 2015 سے نومبر 2015 کے عرصے میں انڈس موٹرز نے پاکستان بھر میں 53 ہزار گاڑیاں فروخت کیں۔ جی ہاں! صرف 11 ماہ میں تقریباً 5 ہزار فی ماہ کی اوسط سے ٹویوٹا کرولا فروخت ہوئیں جو کسی بھی کار ساز ادارے کی ترقی ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ چند ماہ قبل ہمیں انڈس موٹرز کے کارخانے کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ کراچی میں موجود یہ کارخانہ روزانہ 8 گھنٹے کی تین شفٹوں میں 24 گھنٹے کام کر رہا ہے کیوں کہ ٹویوٹا کرولا کی طلب رسد سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے باوجود اگر آج ٹویوٹا کرولا بُک کروائی جائے تو کم از کم چارہ ماہ بعد ملے گی۔

ٹویوٹا کرولا کی بے انتہا مقبولیت کا براہ راست نقصان ہونڈا کو ہوا۔ ستمبر 2012 میں پیش کی جانے والی ہونڈا سِوک کی نویں جنریشن کسی بھی میدان میں کرولا کا مقابلہ نہیں کرسکی۔ کرولا نے آتے ہی تمام میدان مار لیے اور ہونڈا سِوک پس منظر میں جاچکی ہے۔ البتہ رواں سال ہونڈا ایٹلس کی کوشش ہے کہ وہ ایک بار پھر اپنا پرانا مقام دوبارہ حاصل کرے۔ ٹربو چارجڈ انجن یا 2 ہزار سی سی نیچرلی ایسپریٹڈ انجن کے ساتھ نئی سِوک کی آمد ہونڈا کو ایک بار پھر پاکستان میں اپنے روٹھے ہوئے مداحوں کو منا سکتی ہے۔ یہ بھی امکان ہے نئی سِوک کو موجودہ سِوک کے R18 انجن کے ساتھ ہی مارکیٹ میں اتارا جائے کیوں کہ یہاں دستیاب ایندھن ٹربو چارجڈ انجن کے لیے زیادہ موزوں نہیں۔

ایندھن کا ذکر آیا تو چلیے کچھ اس حوالے سے بھی بات کرلیتے ہیں۔ پچھلے سال پاکستان میں یورو II معیار کے ایندھن کی فراہمی کے امکانات سے متعلق خبریں سامنے آئیں۔ پاک – عرب ریفائنری لمیٹڈ (پارکو) کے علاوہ تمام ہی اداروں نے اس میں دلچسپی ظاہر کی اور 5 کروڑ روپے سے زائد سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ اس معاملے پر مزید پیش رفت تسلسل کے ساتھ جاری رہی تو سال 2016 کی تیسری سہ ماہی میں یورو II معیار کا ایندھن دستیاب ہوجائے گا۔ یہ خبر نہ صرف گاڑیوں کے مالکان بلکہ فضائی آلودگی کے خلاف سرگرم تحریکوں کے لیے بھی بہت حوصلہ افزا ہے۔

مزید برآں سال 2016 میں آڈی کی جانب سے نئی A4 بھی متعارف کروائی جائے گی۔ پاک سوزوکی بھی کلٹس کی جگہ سلیریو لانے کا اعلان کرچکی ہے۔

مزید پڑھیں: کلٹس کا دور ختم؛ سوزوکی سلیریو آیا چاہتی ہے!

اب دیکھنا ہے کہ پاکستان کی ممکنہ آٹو پالیسی اور پھر بجٹ 2016-17 اس شعبے پر کیا اثرات مرتب کرتے ہیں۔ بالخصوص مقامی طور پر تیار گاڑیاں تیار کرنے والے اداروں اور پاکستان میں اپنی گاڑیاں متعارف کروانے میں دلچسپی رکھنے والے نئے اداروں کے درمیان جاری رسہ کشی کس نتیجے پر پہنچتی ہے۔ حکومت کی جانب سے کئی بار آٹو پالیسی کے جلد اعلان کی نوید سنائی جاتی رہی ہے تاہم اس پر اب تک عملدرآمد نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ رینالٹ، فیات اور ووکس ویگن جیسے معروف اور بڑے نام پاکستان میں اب تک اپنے کاموں کا آغاز نہیں کرسکے۔

ہمیں امید ہے کہ سال 2016 میں پچھلے سال کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور اچھی خبروں سے بھرپور ہوگا جس سے نہ صرف عام صارف بلکہ پاکستان کو بھی معاشی ترقی نصیب ہوگی۔

Exit mobile version