ہونڈا سِٹی، آمنہ حق اور نئی طرز کی منفرد گاڑی
پرانے زمانے کی بات ہے۔ یہ اتنا بھی پرانا زمانہ نہیں، یہی کوئی 25 سال پرانا کہہ لیں۔ 90 کی دہائی تھی کہ جب پاکستان میں گاڑیوں کی تیاری شروع ہوئی۔ کار ساز اداروں نے مقامی سطح پر ان برانڈز کی تیاری شروع کی جو پہلے ہی سے پاکستان میں مشہور و معروف تھے۔ سوزوکی نے 70 اور 80 کی دہائی سے دستیاب مہران، خیبر، مارگلہ، راوی اور بولان کو مقامی طور پر تیار کرنا شروع کیا۔ اسی حکمت عملی کے تحت ٹویوٹا نے 70 کے اوائل سے موجود کرولا کی تیاری کا آغاز کیا تو ہونڈا نے بھی روایتی حریف ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے سِوک بنانا شروع کردیں۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں پہلے سے دستیاب گاڑیاں ہی کیوں تیار کی گئیں؟ اس کی وجہ بہت سادہ تھی کہ ہر کار ساز ادارے نے عوام الناس کی پسند کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور کسی قسم کے نقصان سے بچنے کے لیے ابتداء میں انہی گاڑیوں کو پیش کیا جو تسلسل کے ساتھ فروخت ہورہی تھیں۔ اس کے باوجود یہ گاڑیاں پاکستانی صارفین کی طلب کو پورا کرنے کے لیے ناکافی رہیں اور مجبوراً گاڑیاں خریدنے والوں کو چند ہی ماڈلز میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا تھا۔ مثال کے طور پر سوزوکی خیبر واحد 1000 سی سی ہیچ بیک تھی جبکہ سستی ترین مہران اکیلی 800 سی سی گاڑی تھی۔ 1300 سی سی سیڈان گاڑیوں میں صرف ایک ہی انتخاب سوزوکی مارگلہ کی صورت میں موجود تھا۔ گوکہ ٹویوٹا کرولا بھی 1300 اور 1600 سی سی انجن کے ساتھ دستیاب تھی لیکن ان کی قیمتیں مرگلہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھیں۔ مزید بہتر انجن والی گاڑیوں میں ہونڈا سِوک ہی کا انتخاب کرنا پڑتا تھا جو 1500 سی سی انجن کے ساتھ پیش کی گئی تھی۔ باوجودیکہ 80 کی دہائی میں 1200 اور 1300 سی سی انجن والی ہونڈا سِوک بھی دستیاب تھی تاہم انہیں طوالت نہیں دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: ماضی کے جھروکوں سے؛ 80 کی دہائی میں پیش کی گئی گاڑیوں پر ایک نظر
ہونڈا سِٹی کی تیاری
جنوری 1997 میں ہونڈا نے سیڈان طرز کی گاڑی پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک ایسی گاڑی جو پاکستانی مارکیٹ کے لیے بالکل نئی ہو۔ مقامی صارفین کے لیے تو یہ عنوان بالکل بھی شناسا نہیں تھا۔ عالمی دنیا میں ‘سِٹی’ کا نام پہلی بار مختصر پیچ بیک کے لیے استعمال کیا گیا تھا جو 80 کی دہائی میں نسان مارچ کے مقابلے میں پیش کی گئی تھی۔ تاہم اس مختصر ہونڈا سِٹی کی معیاد 1993 میں ختم ہوگئی اور پھر یہ نام منظر سے غائب ہوگیا۔ تین سال بعد یعنی 1996 میں ہونڈا نے آسیان ممالک کے لیے ایک نئی گاڑی بنائی جسے سِٹی SX8 کاعنوان دیا گیا۔اپنی صلاحیتیں بالکل نئی گاڑی تیار کرنے پر خرچ کرنے کے بجائے ہونڈا نے EF سیریز سِوک کے چیسز لیے، D سیریز انجن لیا، اندرونی اور بیرونی انداز میں کچھ رد و بدل کیے اور یوں ایک نئی گاڑی تیار ہوگئی۔ اس گاڑی کے بمپرز کو تین منقسم حصوں میں بنایا گیا تاکہ جاپان سے باہر برآمد کرنے میں آسانی ہوسکے۔ اسے 1300 سی سی کاربن انجن اور 1500 سی سی EFI انجن کے ساتھ پیش کیا گیا۔ 1500 سی سی انجن والی ہونڈا سِٹی کو ‘نیو’ کا لقب ملا۔ اسے مقامی سطح پر تیار ہونے والی تیز ترین گاڑی تصور کیا جاتا تھا۔ اس زمانے میں یہ گاڑی 4 سلینڈر 16 والو والے انجن کے ساتھ پیش کی گئی تھی اور اسی لیے پچھلے شیشے پر Hyper 16 کندہ کیا گیا تھا۔ سِٹی کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ وہ 1300 سی سی EX انجن کے ساتھ بھی زبردست کارکردگی پیش کرتی تھی۔
ہونڈا سِٹی کی پاکستان آمد
پاکستان میں سِٹی متعارف کروانے کے لیے ہونڈا. نے زبردست تشہیری مہم چلائی۔ بڑے سائن بورڈز، اخبار میں اشتہارات اور ٹیلی ویژن پر دھڑا دھڑ اشتہار بازی کی جاتی رہی۔ ہونڈا کی یہ محنت ضائع نہ ہوئی اور عوام کی طرف سے سِٹی کو زبردست پذیرائی ملنا شروع ہوئی۔ اس طرح پاکستان کی سب سے مقبول ترین گاڑیوں میں شمار ہونے والی ہونڈا سِٹی کادور شروع ہوا۔ 1997 میں سٹی کی آمد سے قبل سوزوکی مارگلہ سالانہ 6 ہزار کی تعداد میں فروخت تھی تاہم 1997-98 میں یہ تعداد گھٹ کر 3 ہزار تک جا پہنچی اور پھر بالآخر سوزوکی نے مارگلہ کو ختم کر کے بلینو لانے کا فیصلہ کرلیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہونڈا سِٹی کی قیمت اگرچہ ٹویوٹا کرولا XE سے کافی کم تھی لیکن سوزوکی مارگلہ سے پھر بھی کہیں زیادہ تھی۔ اس کے باوجود یہ گاڑی مارگلہ پسند کرنے والوں کو اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔ دوسری طرف ٹویوٹا کرولا کی فروخت بھی جاری رہی۔
یہ بھی پڑھیں: استعمال شدہ سوزوکی بلینو 2001 کا تفصیلی معائنہ
قوت و انداز کا بہترین امتزاج
ہونڈا اپنی گاڑیوں کے تیکھے اور جذباتی انداز سے پہچانی جاتی ہے لیکن سِٹی SX8 کو بلاشبہ ہونڈا کی خوبصورت اور قابل دید گاڑیوں میں سے ایک قرار دیا جاسکتا ہے۔ گو کہ اس کا پچھلا حصہ کافی سادہ معلوم ہوتا ہے لیکن پہلے یہ بھی بہت اچھا تھا ۔ انجن بھی روز مرہ سفری ضروریات کے لیے بہت اچھا تھا۔ اگر یہ کہا جائے تو ہر گز غلط نہ ہوگا کہ اپنے وقتوں میں 1300 سی سی گاڑیوں میں سب سے بہترین انجن سِٹی ہی کا تھا۔ اگلے حصے کی اونچائی کم ہونے کی وجہ سے گاڑی چلانے والے کو کافی سہولت میسر تھی۔ پانچ مختلف خانوں سے ایئرکنڈیشننگ کی بدولت گاڑی کا درجہ حرارت بھی مناسب رکھا جاسکتا تھا۔ پاور اسٹیئرنگ بھی کافی معیاری تھا اور گاڑی کی گرفت تو شاید ان سب خصوصیات سے اچھی تھی۔ گو کہ اس زمانے میں موجودہ دور کے برقی آلات نہ تھی تاہم میک فرسن اسٹروٹس کا مکینکی نظام اپنی مثال آپ تھا۔
اندرونی حصے میں پھیکے رنگ
گو کہ ہونڈا سِٹی کا اندرونی حصہ اس کی سب سے بڑی کمزوری تھا لیکن اس کے باوجود آسان کنٹرولز اور اضافی جگہ ہونے کی وجہ سے اسے پسند کیا جاتا تھا۔ اندرونی حصے پر زیادہ تر بھورا اور پھیکا رنگ نظر آتا تھا البتہ دروازوں کے لاکس، ہینڈ بریک اور اسٹیئرنگ کو رنگین کیا گیا تھا۔ شیشے کھولنے کے لیے پاور ونڈو کا بٹن سِوک 1988 سے لیا گیا جو استعمال میں انتہائی کٹھن تھا۔ بہرحال، سِٹی نے مارکیٹ میں کافی ہل چل مچچائی اور بہت جلد پسندیدہ ترین گاڑیوں میں شمار کی جانے لگی۔ چونکہ SX8 کا زیادہ تر حصہ EF سِوک سے لیا گیا تھا بشمول سسپنشن، ویل بیئرنگ، کلچ کیبلز، بریکس وغیرہ اسی لیے مارکیٹ میں اس کے پرزے بھی باآسانی دستیاب تھے۔
سِٹی کا نیا انداز مزید مقبولیت کی وجہ بنا
تین سال بعد SX8 سِٹی کو اگلے مرحلے پر لے جانے کے لیے جنوری 2000 میں ہونڈا نے اسے ایک نیا انداز دیا۔ نئے انداز کی حامل سِٹی کے ساتھ پاکستانی ادکارہ آمنہ حق کا ایک نغمہ بھی پیش کیا گیا تھا۔ اگر مقامی ٹیلی ویژن چینلز پر چلنے والا وہ نغمہ آپ کو یاد نہ ہوتو ذیل میں موجود ویڈیو دیکھ کر ماضی کے جھروکوں میں جھانک سکتے ہیں۔ بہرحال، سِٹی کا نیا انداز پیش کرتے ہوئے ہونڈا نے پچھلی خامیوں کا ازالہ کیا۔ بیرونی انداز میں ہونڈا کی روایتی جذباتیت شامل کی گئی جس میں بڑی اور چمکدار ہیڈ لائٹس، تین حصوں میں منقسم ہونے والے بمپر کی جگہ ایک مکمل بمپر نے لے لی اور پچھلا حصے کی سادگی کو بھی دلکش انداز دے دیا گیا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہماری مارکیٹ کی سب سے زیادہ دلفریب گاڑیوں میں ہونڈا سِٹی SX8 کا شمار لازم ہے۔ اندرونی انداز کو بھی بہتر بنایا گیا اور 4 اسپوک والے اسٹیئرنگ ویل کی شمولیت کے علاوہ دروازوں اور شیشوں کے پینلز کی بھی اصلاح کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: 1980 کی لاڈا؛ روس سے آنے والا محبت نامہ
پاور ونڈوز کے بغیر مقامی طور پر تیار ہونے والی واحد ہونڈا
اس وقت ہماری مارکیٹ میں کوئی بھی گاڑی 1500 سی سی انجن کے ساتھ دستیاب نہیں۔ لیکن 1300 سی سی انجن پروگرامڈ فیول انجکشن مینوئل اور آٹو میٹک ٹرانسمیشن کے ساتھ دستیاب ہے۔ دیگر ممالک میں سِٹی اب بھی 1500 سی سی VTEC انجن کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے تاہم پاکستان میں ایسا نہیں۔ اس کے باوجود 1300 سی سی PGM-Fi والی گاڑی پرانی کاربن انجن والی سِٹی کے مقابلے میں کہیں بہتر اور چلانے میں مزے دار ہے۔ اس گاڑی کو پاور ونڈوز کے بغیر بھی پیش کیا گیا تھا اور یوں یہ مقامی طور پر تیار ہونے والی غالباً واحد ہونڈا گاڑی رہی جس میں یہ سہولت میسر نہ تھی۔ سِٹی کا مجموعی وزن 1000 کلو گرام ہے لیکن اس کے باوجود توازن اور ایندھن کی بچت کے حوالے سے بہترین ہے۔ 13 سال گزرنے کے باوجود SX8 سِٹی اب بھی وہی قدر و قیمت رکھتی ہے۔ قدرے نیچی، ہلکے وزن، زبردست انجن، بہترین سسپنشن اور دلکش انداز کے ساتھ یہ گاڑی ‘شاہکار’ کہے جانے کے قابل ہے۔
ایک طویل عرصے بعد بھی ہونڈا سِٹی کسی بھی نئی سیڈان مارکیٹ کے لیے بہترین سمجھی جاتی ہے۔ اور ایسا صرف پاکستان ہی بلکہ دیگر ممالک میں بھی دیکھا گیا ہے۔ ایک اچھے اور مستند نام کی وجہ سے لوگ اسے نہ صرف خریدنا پسند کرتے ہیں بلکہ اس کے اگلے ماڈل کا بھی بے چینی سے انتظار کرتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب کوئی بھی سِٹی کے نام سے واقف نہ تھا، SX8 نے اسے ایک نئی پہچان دی۔ یہ ایک ایسی گاڑی ثابت ہوئی جس نے سیڈان گاڑیوں کی مارکیٹ کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ بلاشبہ SX8 سِٹی ہماری سڑکوں پر چلنے والی بہترین گاڑیوں میں سے ایک ہے۔
ہونڈا سِٹی کے لیے آمنہ حق کا نغمہ
یہ ویڈیو فراہم کرنے کے لیے میں اپنے دوست امین شلوانی کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ جو تقریباً 16 سال قبل اس ویڈیو کو بنانے والی ٹیم کا حصہ تھے۔