گاڑیوں کے مشہور رنگ؛ ماضی کی خوبصورتی آج ماند پڑ چکی ہے!
آج پاکستان میں تیار و فروخت کی جانے والی گاڑیوں کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ اگر جاپان سے درآمد کی گئی گاڑیوں اور نسان، مٹسوبشی اور کیا موٹرز کی استعمال شدہ گاڑیوں کو الگ رکھ دیا جائے تو کہانی سِٹی، سِوک اور کورولا کے گرد ہی گھومتی رہے گی۔ جبکہ چھوٹی گاڑیوں میں ملکہ رکھنے والی پاک سوزوکی اب بھی اس دور کی گاڑیاں پیش کر رہا ہے کہ جب پاکستان ٹیلی ویژن پر بلیک اینڈ وائٹ نشریات آتی تھیں۔ ٹیلی ویژن سمیت ہر شعبے نے ترقی کرتے ہوئے اپنے اندر بے شمار رنگ سمو لیے لیکن گاڑیوں کے شعبے میں گنگا الٹی بہنے لگی۔ ماضی میں کئی رنگوں کی گاڑیوں پیش کی جاتی تھیں تاہم آج پیش کی جانے والی گاڑیوں کو چند مخصوص اور گنے چنے رنگوں کے ساتھ ہی پیش کیا جاتا ہے۔
مارکیٹ میں گاڑیوں کے محدود برانڈ کی موجودگی کی وجہ سے پاکستانی صارفین کا انتخاب بھی محدود ہوچکا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے یہاں کے لوگوں نے (شاید مایوس ہوکر) نئی گاڑیوں اور انہیں من پسند رنگ میں رنگنے کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ اگر آج ایک شارع پر طائرانہ نظر ڈالیں تو آپ کو سیاہ، سفید، نقرئی (سِلور) اور بھورے (گرے) رنگ ہی کی گاڑیاں نظر آئیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: استعمال شدہ گاڑیوں کی خرید و فروخت کا منفرد تجربہ اور چند دلچسپ واقعات
اس بارے میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ اگر گاڑی کو منفرد رنگ میں رنگا جائے تو اسے بعد از استعمال فروخت کے دوران مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بات اس حد تک درست ہے کہ اگر آپ گاڑی پر قرمرزی (magenta)، نارنجی یا کوئی ایسا رنگ کروائیں جو عام طور پر صنف نازک سے منسوب کیا جاتا ہے۔ تاہم دیگر جاذب نظر رنگوں کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اسی غلط فہمی کی وجہ سے لوگ مخصوص رنگ کی گاڑیاں خریدنا پسند کرتے ہیں اور اسی رجحان نے کار ساز اداروں کو بھی رنگوں کے انتخاب میں محدود کردیا ہے۔
اگر ہم ماضی میں دیکھیں تو گاڑیوں کے بہت سے رنگ عوام میں مقبول نظر آئیں گے۔ تاہم وقت کے ساتھ خوبصورت رنگوں کی گاڑیاں کم ہوتی چلی گئی اور آج حال یہ ہے کہ رنگ کے معاملے میں تمام گاڑیاں یکسانیت کا شکار نظر آتی ہیں۔ آئیے ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھتے ہیں کہ مقامی سطح پر تیار ہونے والی گاڑیوں کے کونسے رنگ مشہور تھے اور وہ آج نایاب ہوچکے ہیں۔
کائی گرین / گہرا سبز رنگ
یہ رنگ سب سے پہلے ہونڈا نے 1994 میں پانچویں جنریشن سِوک پر استعمال کیا۔ اس زمانے میں یہ بہت منفرد رنگ تھا اور یہی وجہ ہے کہ جس نے دیکھا، دیکھتا ہی رہ گیا۔ بعدا زاں طویل عرصے تک یہ رنگ چھایا رہا۔ حتی کہ پیلی ٹیکسی اسکیم کے تحت جو گاڑی فراہم کی گئی اسے بھی لوگوں نے ذاتی استعمال کے لیے اسی رنگ میں رنگوا لیا۔ ہونڈا نے یہ رنگ چھٹی جنریشن سِوک اور سِٹی SX8 تک جاری رکھا۔ سوزوکی نے بھی اس رنگ میں گاڑیاں پیش کیں لیکن ٹویوٹا نے جداگانہ روایت برقرار رکھتے ہوئے تھوڑا مختلف سبز رنگ پیش کیا۔ سال 2011 تک اس رنگ کی گاڑیاں ختم ہوگئیں اور آج یہ سب سے ناپسندیدہ رنگ سمجھا جاتا ہے۔
کشمیری نقرئی (گولڈن) رنگ
یہ رنگ پہلی بار 1996ء میں پیش کی جانے والی ہونڈا سِوک کی چھٹی جنریشن کے ساتھ نظر آیا۔ یہ سنہرے رنگ سے میل کھاتا ہے لیکن زیادہ گہرا یا بھڑکیلا نہ ہونے کی وجہ سے آنکھوں کو بھاتا ہے۔ بعد ازاں ٹویوٹا نے یہی رنگ مختلف نام (سنیلا ابرق) سے کورے اور پھر کرولا کی ساتویں، نویں اور دسویں جنریشن میں بھی پیش کیا۔ گیارہویں جنریشن ٹویوٹا کرولا میں یہ رنگ صرف آلٹِس گرانڈے کے ساتھ دستیاب ہے۔اس کے علاوہ کسی بھی گاڑی کو اس رنگ میں نہیں دیکھا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: ہونڈا سِٹی، آمنہ حق اور نئی طرز کی منفرد گاڑی
نیلگوں سبز رنگ
یہ رنگ پہلی بار 1997 میں ٹویوٹا نے متعارف کروایا تاہم بعد ازاں 2000-01 میں سوزوکی نے بھی اسے بلینو، کلٹس اور آلٹو میں استعمال کیا۔ ہونڈا نے چھٹی اور ساتویں جنریشن سِوک کے ساتھ سِٹی میں بھی یہ رنگ پیش کیا لیکن وہ صرف 2003 تک ہی جاری رکھا گیا۔90 کی دہائی کے آخر میں اس رنگ نے کافی مقبولیت حاصل کی۔ درآمد شدہ ٹویوٹا بیلٹا میں بھی یہی رنگ استعمال کیا گیا تھا۔ آج لوگ ایسے رنگ سے دور بھاگتے نظر آتے ہیں۔
کِین گولڈ / سنہری رنگ
پہلی بار سوزوکی بلینو اس رنگ میں پیش کی گئی۔ بعد ازاں کلٹس اور آلٹو بھی سامنے آئیں۔ جنوبی کوریا کے کار ساز ادارے کیا موٹرز اور ہیونڈائی نے بھی اپنی گاڑیوں میں یہ رنگ استعمال کیا۔ یہ ہلکے سنہرے رنگ میں سبز رنگ کی آمیزش سے بنتا ہے۔ 90 کی دہائی کے آخر سے 2002-03 تک اس رنگ کی کافی گاڑیاں دیکھی گئیں۔
ہلکا نیلا / آسمانی رنگ
یہ رنگ سوزوکی گاڑیوں میں کافی زیادہ استعمال ہوتا رہا۔ بلینو، آلٹو، کلٹس کے علاوہ مٹسوبشی لانسر، ہیونڈائی سینترو اور کِیا کلاسک بھی اس رنگ میں پیش کی گئی تھیں۔حال میں جاپان سے درآمد کی گئی ٹویوٹا پریمیو، کرولا فیلڈر اور ٹیوٹا بیلٹا بھی اس رنگ میں دیکھی گئیں ہیں۔ مقامی گاڑیوں میں یہ رنگ 2005 تک استعمال کیا گیا اور آج کوئی بھی کار ساز ادارہ اس رنگ میں گاڑیاں فراہم نہیں کر رہا۔ میرے خیال سے تو یہ کافی اچھا رنگ ہے اس لیے نئی گاڑیاں اس رنگ میں پیش کی جانی چاہیئں۔
یہ بھی پڑھیں: استعمال شدہ سوزوکی بلینو 2001 کا تفصیلی معائنہ
عنابی رنگ
یہ 1995ء میں پونچویں جنریشن ہونڈا سِوک کے ساتھ پیش کیا گیا جسے ایک دہائی سے زائد عرصے تک مقبولیت حاصل رہی۔ بہت سی دیگر گاڑیوں بشمول ساتویں اور نویں جنریشن کرولا، چھوٹی جنریشن سِوک، سِٹی SX8، اسپیکٹرا، سینترو، کلاسِک، بلینو، کلٹس، آلٹو اور نسان سنی بھی اس رنگ میں پیش کی جاتی رہیں۔گزشتہ دہائی کےآخر میں یہ رنگ غیر مقبول ہونا شروع ہوا اور آج شاید ہی کوئی گاڑی اس رنگ میں تیار و فروخت کی جارہی ہو۔
گہرا نیلا رنگ
ہونڈا سِوک کی پانچویں اور چھٹی جنریشن کے ساتھ یہ رنگ متعارف کروایا گیا۔ ہونڈا سِوک کی ساتویں جنریشن کے آغاز میں اس رنگ کی سِوک پیش کی جاتی رہیں۔ سِٹی SX8 اور مٹسوبشی لانسر کے علاوہ نویں اور دسویں کرولا میں بھی یہ رنگ دوسرے نام سے شامل رہا۔ درآمد شدہ گاڑیوں جیسے ٹویوٹا پریمیو، کرولا فیلڈر وغیرہ بھی اس رنگ میں دستیاب ہیں۔ اس وقت ٹویوٹا گیارہویں جنریشن کی ٹویوٹا کرولا اس رنگ میں پیش کر رہا ہے تاہم شاذ و نادر ہی اسے سڑکوں پر دیکھا گیا ہے۔ اس لیے یہ رنگ بھی کافی نایاب ہے۔
یہ چند رنگوں کا ذکر تھا کہ جنہوں نے اپنے وقتوں میں گاڑیوں کے شعبے کو خوبصورت اور رنگ برنگ بنایا۔ تاہم بعد ازاں ایک ایک کر کے ان رنگوں کا استعمال محدود ہوتا گیا اور آج کبھی کبھار ان میں سے چند ایک ہی نظر آتے ہیں۔اس وقت گاڑیوں کے شعبے کو نئے کار ساز اداروں، نئے ماڈلز اور نئے رنگوں کی گاڑیوں کی شدید ضرورت ہے۔ صارفین کو بھی روایتی رنگوں سے ہٹ کر کچھ نئے رنگ آزمانے سے متعلق سوچنا ہوگا۔ موجودہ دور میں تو رنگوں کی تبدیلی اور بھی آسان اور کم قیمت ہوچکی ہے۔ رنگ ہمارے شعور کے آئینہ دار ہیں۔ یہ ہمارے اندر کے تخیل کا مظہر ہیں۔ رنگ ہی کے ذریعے آپ بھیڑ میں خود کو خاص اور منفرد بناسکتے ہیں۔