10 اہم سہولیات جو سوزوکی بولان اور راوی میں دستیاب نہیں!
پاک ویلز فورم پر گردش کرتے ہوئے ایک تھریڈ نے مجھے اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ اس تھریڈ کا عنوان “سوزوکی (پاکستان میں) بولان کی تیاری بند کر رہا ہے” جس کی وجہ سے میں اسے کھولے بغیر نہ رہ سکا۔ ایک لمحے کے لیے میں نے تسلیم کرلیا کہ یہ بات سچ ہوگی لیکن جب اس تھریڈ کی تاریخ پر نظر گئی تو وہاں 2007 پڑھ کر میری ساری خوشی دھری کی دھری رہ گئی۔ کسی نے اس پرانے تھریڈ کے جواب میں تبصرہ لکھ دیا اور یوں وہ تازہ تھریڈز سے اوپر آگیا اور میں اسے نئی خبر سمجھ بیٹھا۔ افسوس! پاک سوزوکی سے 1980 کی دہائی میں پیش کی جانے والی گاڑیوں کو جدت سے ہم آہنگ کرنے کی امید رکھنا جیسے ایک دیوانے کا خواب ہی رہے گا۔
یہ بھی پڑھیں: سوزوکی مہران کی “تاریخی” داستان اور بہترین متبادل گاڑیاں
سوزوکی بولان 7 لاکھ روپے میں دستیاب ہے۔ اگر آپ محنت سے حق اور حلال کماتے ہیں تو بخوبی جانتے ہوں گے کہ یہ رقم کوئی چھوٹی موٹی بات نہیں ہے۔ پاکستان میں پیش کی جانے والی بولان دراصل سوزوکی سوپر کیری ST-40 کی ساتویں جنریشن ہے جسے 1982 سے 1985 تک تیار کیا جاتا رہا۔ جب جاپان میں اس کی تیاری بند کردی گئی تو پھر پاک سوزوکی نے اس گاڑی کو پاکستان میں پیش کیا اور 1988 تک اسے جوں کا توں تیار و فروخت کیا جاتا رہا۔
سال 2009ء میں بولان اور راوی پِک اپ کو بالآخر نیا انداز دینے کا فیصلہ کر ہی لیا گیا۔ اس کے باوجود اہم ترین سہولیات جیسا کہ ABS، ائیربیگز، جی پی ایس نیوی گیشن سسٹم اس نئے انداز کے ساتھ شامل نہیں کیے گئے۔ اس کے بعد تو بولان اور راوی میں جدید انجن اور آٹومیٹک ٹرانسمیشن کے علاوہ چوری سے حفاظت کا انتظام جیسا کہ اموبلائزر کا تو تصور بھی محال ہے۔
ایک ‘فیملی وین’ کا لقب دیئے جانے کے باوجود پاک سوزوکی اس میں وہ سہولیات دینے سے بھی پرہیز کرتا رہا ہے جو دیگر عام گاڑیوں میں دستیاب ہوتی ہیں۔ ان میں کم از کم 10 سہولیات ایسی ہیں جن کے بغیر اس گاڑی کو چلانا یا اس میں سفر کرنا بہت مشکل لگتا ہے۔
تازہ ہوا کی آمد و رفت کا کوئی انتظام نہیں
یہ سال 2016 اور ہم آج بھی ایسی گاڑیاں تیار کر رہے ہیں جن میں ہوا کی آمد یا روکنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت کو 1988 میں جب اسے پیش کیا گیا تو اس میں ہیٹر بھی لگا ہوا تھا لیکن آج پنکھا ہے نہ ہیٹر! پاک سوزوکی نے چند سال بعد ہی تمام بنیادی سہولیات ہٹادیں کیوں کہ یہ دھڑا دھڑ فروخت ہورہی تھی اور لوگ اسے ہر حال میں قبول کرنے کے لیے تیار تھے۔ بہرحال، اس کے ڈیش بورڈ میں موجود سوراخوں کی مدد سے ہوا کو ٹھنڈا یا گرم رکھنے کا بندوبست کیا جاسکتا تھا۔ لیکن نئی بولان میں وہ سوراخ بھی بند کردیے گئے ہیں۔ باوجودیکہ بولان VX میں ایئر کنڈیشن لگایا گیا ہے لیکن شیشوں کو دھند سے محفوظ رکھنے یا پاک کرنے کائی نظام میسر نہیں۔ اس لیے اگر آپ برسات یا سردی میں گاڑی چلا رہے ہیں تو ایک اور ساتھی کو ہمرا بٹھائیں جو ہر چند منٹ کے فرق سے آپ کے سامنے والا شیشہ صاف کرتا رہے۔ کیوں کہ ایسی گاڑی کو ایک ہاتھ سے چلانا بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
ٹِرپ –میٹر موجود نہیں
میری عادت ہے کہ ہر بار گاڑی میں پیٹرول بھروانے کے بعد ٹِرپ میٹر کو صفر پر کردیتا ہوں۔ اس سے مجھے اندازہ رہتا ہے کہ اس بار ایندھن ڈلوانے کے بعد کس شرح سے خرچ ہوا۔ بعض اوقات میں ایک سفر کا کُل فاصلہ ناپنے کے لیے بھی یہی کرتا ہوں۔ لیکن اگر آپ پاک سوزوکی بولان میں ہیں تو ان دونوں کاموں کے لیے قلم، کاغذ اور کیلکولیٹر رکھنا ہر گز نہ بھولیں۔ کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ٹِرپ میٹر ہے ہی نہیں لے دے کر اگر ہے تو صرف اوڈومیٹر جسے آپ تبدیل نہیں کرسکتے۔تو ہر بار پیٹرول ڈلوانے کے بعد ایندھن خرچ ہونے کا اندازہ لگانا ہو یا پھر اپنی منزل تک کا کُل فاصلہ معلوم کرنا ہو، ہر بار اوڈومیٹر کی ریڈنگ سے ہی حساب کتاب لگانا پڑے گا۔ یہ گاڑی اکثر کاروباری استعمال میں بھی لائی جاتی ہے اس کے باوجود ٹِرپ میٹر کا نہ ہونا سمجھ سے باہر ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اوڈومیٹر سے چھیڑ چھاڑ معلوم کرنے کے 6 طریقے
نشستوں کو آگے پیچھے کرنا ممکن نہیں
اگر آپ کا قد 5 فٹ 10 انچ ہے تو پھر آپ شاید اسے ڈرائیو کرنا تو ایک طرف اس میں بیٹھنا بھی پسند نہ کریں۔ اس کی اگلی نشستیں تھوڑی سے بھی آگےپیچھے یا اوپر نیچے نہیں کی جاسکتیں اس لیے آپ کو خود ہی اس میں اپنا جسم سمیٹنا یا پھیلانا پڑے گا۔اور ہاں! کمر بھی بالکل سیدھی رکھنی پڑے گی کیوں کہ اس میں پچھلے حصے کا زاویہ تبدیل کرنے کی بھی سہولت شامل نہیں۔
سیٹ بیلٹس میں کوئی لچک نہیں
پاک سوزوکی نے سیٹ بیلٹس کو اپنی گاڑیوں میں چند سال قبل ہی شامل کیا ہے۔ اس کی وجہ نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹر وے پولیس (NG&MP) کی جانب سے موٹروے پر سفر کے دوران اگلی نشستوں کے لیے سیٹ بیلٹس لازمی قرار دی تھیں۔ پاک سوزوکی نے چار و ناچار سیٹ بیلٹس لگا تو دیں لیکن چند سو روپے بچانے کی خاطر ان کا معیار انتہائی گھٹا کر رکھا۔ ان بیلٹس میں لچک نہیں جس کی وجہ سے انہیں باندھنا مشکل ہے اور ڈرائیور کے لیے قدرے تکلیف دہ بھی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومتِ جاپان نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس کو ٹویوٹا پرایوس فراہم کرے گی
کمزور لکڑی جیسے وائپرز
ایک ایسے وقت میں کہ جب کار ساز ادارے برسات محسوس کرنے والے خود وائپرز گاڑیوں میں نصب کر رہے ہیں، پاک سوزوکی بولان اور راوی کے ساتھ انتہائی پرانے زمانے کے وائپرز پیش کر رہا ہے۔ چاہے برسات تیز ہو یا محض ہلکی ہلکی بوندا باندی، اگر آپ نے وائپر چلانے ہیں تو چلائیں نہیں چلانے تو نہ چلائیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کے پاس صرف On اور Off کا انتخاب ہے، نہ تو آپ وائپر کی رفتار کم یا زیادہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس کا دورانیہ بڑھا سکتے ہیں۔ اور وائپر کا معیار بھی ایسا کہ جیسے نازک سی کوئی لکڑی ہو۔ مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں برف باری میں انہیں چلانے کی کوشش کی گئی تو یہ ٹوٹ کر گر ہی نہ جائیں۔
اگلے مسافر دروازے میں چابی لگانے کی جگہ ہی نہیں
اگر غلطی سے آپ نے کبھی گاڑی کو دائیں جانب کھڑی کسی گاڑی یا دیوار لگا دیا تو مسافر دروازے کی طرف سے باہر تو آسکتے ہیں لیکن دوبارہ اندر نہیں جاسکتے کیوں کہ وہ دروازہ چابی لگا کر کھولا ہی نہیں جا سکتا۔ ہاں آپ اسے ‘جادو کی چھڑی’ سے ضرور کھول سکتے ہیں کیوں کہ اس میں لاک کھولنے کا انتظام بہرحال موجود ہے۔ تاہم راوی میں یہ کوشش بھی بے کار ہے کیوں کہ اس میں روایتی وین کے برعکس صرف دو ہی دروازے ہیں۔ بالکل یہی معاملہ اس وقت بھی ہوسکتا ہے کہ آپ L طرزکے کونے پر گاڑی کھڑی دیں۔
ڈرم بریکس کا استعمال
پاک سوزوکی وین میں ABS کا خیال تو ایک طرف، اس میں اگلے پہیوں پر ڈسک بریکس تک استعمال نہیں کیے گئے۔ اور 8 سیٹر وین اور پِک اپ اب بھی چاروں پہیوں پر لگائے گئے ڈرم بریکس کے ساتھ پیش کی جارہی ہیں۔
پچھلی نشستوں کی بند کھڑکیاں
نوے فیصد سے زائد وین بغیر ایئر کینڈیشن کے پیش کی جاتی ہیں اس لیے مسافروں کے لیے تازہ اور ٹھنڈی ہوا کے لیے کھڑکیاں ہی استعمال کرنا باقی رہتا ہے۔ لیکن صرف گاڑیوں کی درمیانی نشستوں کے ساتھ موجود کھڑکی نصف کھلتی ہے۔ اس سے بھی بری خبر یہ ہے کہ سب سے پچھلی نشستوں کے ساتھ موجود کھڑکیاں تو کھولی ہی نہیں جاسکتیں کیوں کہ ان میں لگایا گیا شیشہ بالکل بند ہے۔ شدید گرمی کے موسم میں تو گاڑی کے مسافروں کا گرمی اور گھٹن سے جو حال ہوتا ہوگا، اس کا اندازہ قارئین بھی بخوبی لگا سکتے ہیں۔
گاڑی پیچھے کرنے کا اشارہ ناکافی ہے
سوزوکی بولان اور راوی کے عقب میں لگائی گئی ہے تاکہ پیچھے کھڑی گاڑی کو علم ہوجائے کہ یہ پیچھے کی طرف آرہی ہے۔ یہ لائٹ اتنی چھوٹی ہے کہ اندھیرے میں اس کانظر آنا بہت ہی مشکل ہے۔ انہیں بہتر طور پر دکھانے کے لیے بڑا کرنا اور زیادہ روشنی والی لائٹس کا استعمال کوئی بہت مہنگا یا وقت طلب کام نہیں ہے لیکن کمزور لکڑی نما وائپرز کی طرح پاک سوزوکی نے اسے بھی جوں کا توں رکھا ہوا ہے باوجودیکہ جن چیزوں کو نیا انداز دیا گیا ان میں پچھلا بمپر بھی شامل تھا۔
شور مچانے والا ڈبہ
جی ہاں، یہ گاڑی اندر بھی بہت شور کرتی ہے۔ یورو II انجن لگائے جانے کے باوجود گاڑی میں ہونے والے شور میں کمی نہیں آئی۔اس کا اندرونی حصہ اب بھی ویسے کا ویسا ہی ہے۔
اس کے علاوہ بولان اور راوی میں موجود درجنوں خرابیوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے لیکن یہاں صرف وہی 10 سہولیات بیان کی گئی ہیں جن کی موجودگی انتہائی ضروری ہے۔ ان سہولیات کے بغیر پاکستانی صارفین کو 1980 کے زمانے کی گاڑیاں بیچنا پاک سوزوکی جیسے ادارے کو زیب نہیں دیتا لیکن وہ بھی پھر ایسا کر رہے ہیں تو سوائے افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے۔ وین اور مال بردار گاڑیوں کے زمرے میں اگر کسی ادارے نے پاک سوزوکی کو ٹکر دینے کی کوشش کی ہے تو وہ FAW ہے جس نے FAW X-PV اور FAW کیرئیر پاکستان میں متعارف کروائیں۔
یہ بھی پڑھیں: کیا FAW کی گاڑیاں سوزوکی کا مقابلہ کرسکتی ہیں؟
ایک عام صارف سوزوکی APV یا ٹویوٹا ایونزا نہیں خرید سکتا۔ میں جاپانی ڈائی ہاٹسو ہائی جیٹ، سوزوکی ایوری اور نسان کلپر بھی خریدنے کو ترجیح نہیں دیتا کیوں کہ اس سے ہماری قومی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے۔ اگر حکومت تین جاپانی کار ساز کمپنیوں کی اجارہ داری ختم کردے اور نئے اداروں کو گاڑیوں کے شعبے میں کام کرنے کی اجازت دے تو کوئی بعید نہیں کہ ہمیں نئی گاڑیاں کم قیمت میں دستیاب ہوں اور ملک کی معاشی صورتحال بھی بہتر سے بہتر ہوسکے۔ میرے خیال ےسے یہ کام ہر پاکستانی کے مفاد میں ہے ماسوائے پاک سوزوکی والوں کے۔