[RIGHT]سہ پہر کےساڑھے تین بج چکے تھے جب ہم سجی کوٹ سے واپس حویلیاں کیلئے روانہ ہوئے۔ آسمان پر بادل کچھ
بڑھتے جارہے تھے لیکن فوری طور پر بارش کا کوئی امکان نہ تھا۔ سورج بھی ڈھلتا جا رہا تھا۔ پہاڑی علاقوں میں اگر
مغرب کی طرف کوئی بلند وبالا پہاڑ موجود ہو تو بسا اوقات عصر سے قبل ہی سورج آپ کو الوداع کہہ کر رخصت
ہو جاتا ہے۔ سورج کے تیزی کے ساتھ ڈھلنے اور آسمان پر چھاتے بادلوں کے باعث موسم بھی خوشگوار ہو چلا تھا۔
ابھی واپسی کا کچھ ہی سفر طے کیا تھا کہ ہم ان خوبصورت راہوں میں بھٹک گئے اور اتنی خوبصورتی سے بھٹکے
کہ ابتدا میں ہمیں اپنی اس گمراہی کا بالکل پتہ ہی نہ چل سکا۔ ایک پہاڑ کی سرسبز چوٹی کے پاس گھاس کا چھوٹا سا
میدان اور ارد گرد چیڑ کے حسین درختوں کا جھنڈ کہ ہم نے بے اختیار گاڑی روک لی اور دس پندرہ منٹ خوشگوار
موسم میں اس پیاری جگہ پر گزارے۔ تقریباً چار بجے یہاں سے آگے اور اپنے تئیں حویلیاں کیلئے روانہ ہوئے۔ سڑک
بہت اچھی اور پختہ تھی لیکن کچھ ہی آگے جا کر یکدم کچی اور پتھریلی ہو گئی اور مسلسل نشیب کی طرف اترتی
چلی گئی۔ آتے وقت بھی راستے میں اسی نوعیت کے نشیب و فراز بہت آئے تھے اور کہیں کہیں سڑک پر اسی طرح
کے پتھریلے حصوں کا بھی سامنا کر نا پڑا تھا لیکن اس قدر طویل پتھریلا راستہ اور مسلسل تیزی سے اتار کی طرف
جاتی سڑک۔ ذہن پر بہت زور دیا کہ راستے میں کوئی ایسا چوک آیا ہو کہ جہاں سے ہم اس غلط راہ پر بھٹکے ہوں ۔
ایک سیدھی سڑک سے سجی کوٹ پہنچے اور اسی سے واپس ہوئے۔ ذہن میں ایسا کچھ نہ تھا کہ غلطی ہو ئی ہو لیکن
سڑک کی کیفیت مسلسل باور کرا رہی تھی کہ ہم راہ راست پر نہیں ہیں۔
کیا سجی کوٹ آتے وقت کوئی ایسا پتھریلا راستہ آیا تھا ؟ " دل کی تسلی کیلئے میں نے ہم سفر سے پوچھا۔
" ٹھیک سے یاد نہیں ۔۔ شاید آیا تو تھا۔ "
کچھ خاص اطمینان بخش جواب نہ مل سکا۔ جس پہاڑ کے ساتھ یہ پتھریلی سڑک اترتی تھی اور کچھ زیادہ ہی اترتی تھی
سورج اب اس پہاڑ کے دوسری طرف ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوگیا تھا حالانکہ ابھی سوا چار بھی نہیں بجے تھے۔
عصر میں بھی ابھی ایک گھنٹے سے زیادہ وقت باقی تھا۔ سورج کے پہاڑ کے پیچھے منہ چھپالینے اور آسمان پر بادلوں
میں بھی اضافہ ہو جانے کے سبب روشنی تیزی سے کم ہوتی محسوس ہو رہی تھی جو ہمیں نفسیاتی طور پر کچھ زیادہ
گھبراہٹ میں مبتلا کر رہی تھی۔ میں اس تذبذب میں تھا کہ اسی سڑک پر چلتا رہوں یا گاڑی واپس موڑوں۔ بیک مرر پر
نگاہ پڑی تو عقب میں ایک موٹرسائیکل سوار آتا دکھائی دیا۔ گاڑی سڑک کنارے کھڑی کر کے میں باہر نکل کر کھڑا
ہو گیا۔ وہ قریب پہنچ کر رکا تو میں نے راستے کے بارے میں دریافت کیا۔
حویلیاں جانے والا راستہ تو آپ کافی پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ ادھر بھی لوگ بہت گھومنے آتے ہیں ،کچھ ہی دور نیچے
سمندر ہے۔
راستہ بھٹک گئے تھے یہ تو ہمیں اندازہ ہو ہی گیا تھا سو یہ ہمارے لئے اتنی بڑی خبر نہیں تھی لیکن ان پہاڑوں کے بیچ
سمندر کا پایا جانا ہمارے لئے بہت ہی بڑی بلکہ دھماکہ خیز خبر تھی۔ میں دل ہی دل میں سوچتا تھا یہ دریافت تو دنیا میں
تہلکہ مچا دے گی۔ اور واقعی اگر ایسا ہی ہے تو ہمارے پاس کولمبس ثانی بننے کا بہت سنہری موقع تھا۔
"کہاں ہے سمندر اور کتنی دور ہے ؟"
میں نے اپنی راہ بھٹکنے کی سب پریشانی کو یکسر بھولتے ہوئے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔
بس جی تھوڑی سی راہ ہے۔ میرے پیچھے آتے جائیں" یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا۔
میں نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ہمسفر سے کہا " کبھی کبھی راہ سے بھٹک جانا بھی بڑا سود مند ہو جاتا ہے۔ یہ سڑک
سمندر کی طرف جاتی ہے۔
سمندر! آپ بھی ہر کسی کی باتوں میں آجاتے ہیں ،بھلا سمندر یہاں کہاں " ہمسفرغلط نہ تھی۔ میرے ذہن میں بھی درحقیقت
صرف یہی خیال تھا کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شرمیلی جھیل دنیا کی نظروں سے بچ کر یہاں چھپی بیٹھی ہو کہ کہیں
ناہنجار خلقت میرا حشر بھی سیف الملوک جیسا نہ کر دے۔ جابجا گندگی اور کچرے کے ڈھیروں سے بچنے کیلئے
اس جھیل نے خود کو پوشیدہ اور گمنام رکھا ہوا ہو۔ میں نے موٹرسائیکل کے پیچھے اسی نشیب میں جاتے پتھریلے
راستے پر گاڑی بڑھا دی۔
بہت دیر ہو جائے گی، راستہ بھی بہت خراب ہے، گاڑی پنکچر ہو گئی تو ؟ " ہمسفر کے چہرے سے الجھن عیاں تھی۔
" زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ بس تھوڑی ہی دور ہے۔ یہاں تک آہی گئے ہیں تو اب سمندر بھی دیکھتے ہی چلیں"
تقریباً آدھا کلومیٹر ہم مزید بل کھاتی اور نیچے اترتی سڑک پر چلتے رہے۔ اتار مزید بڑھتا جاتا تھا اور اس کے ساتھ
ساتھ میری تشویش بھی بڑھتی جاتی تھی کہ واپسی میں اس پتھریلے راستے پر ہماری گاڑی اتنی عمودی چڑھائی چڑھ بھی
پائے گی یا نہیں۔ میں نے رفتار کچھ تیز کر کے موٹرسائیکل سوار کو آواز دے کر پوچھا " بھائی ابھی کتنی دور ہے
سمندر ؟
" اب پہنچنے ہی والے ہیں ۔ بس یہ جو موڑ سامنے ہے اس سے آگے تھوڑی ہی راہ ہے۔"
یہ تھوڑی سی راہ کسی طور تھوڑی نہیں ہو پا رہی تھی۔ بہرحال میں نے پھر کچھ ہمت کی اور اس موڑ تک مزید اس
کے پیچھے چلتا رہا۔ موڑ کے قریب پہنچ کر میں نے گاڑی روک دی اور ارادہ کیا کہ اس سے سمندر نہ دیکھنے پر
معذرت کروں اور کم از کم اتنی بڑی خبر سے ہمیں آگاہ کرنے پر اس کا شکریہ بھی ادا کروں۔ میرے کچھ کہنے سے
پہلے ہی وہ ہمیں مزید حوصلہ دینے اور ہماری بجھتی اور دم توڑتی آتش شوق کو بھڑکانے کیلئے گویا ہوا۔
آپ بالکل نہ گھبرائیں ، ان علاقوں کے لوگ کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے ۔ خود کو بالکل محفوظ سمجھیں۔ بہت
خوبصورت سمندر ہے ، لوگ یہاں نہاتے بھی ہیں اور اپنی گاڑیاں بھی دھوتے ہیں۔" یہ کہتے ہوئے اس نے ہماری گاڑی
پر جمی لمبے سفر کی مٹی کی دبیز تہوں پر بھی بھرپور نظر ڈالی کہ شاید ہمارا صفائی پسندی کا سویا ہوا جذبہ ہی بیدار
ہو جائے۔
دراصل ہمیں شام تک ایبٹ اباد پہنچنا ہے، دیر بہت ہو گئی ہے" میں نے معذرت خواہانہ لہجے میں جواب دیا۔
ادھر سے بھی ایک راستہ ایبٹ آباد جاتا ہے ،نتھیا گلی کی طرف سے۔ آپ اس راستے سے چلے جانا" وہ بدستور ہمیں
سمندر تک اپنے ساتھ لے جانے پر مصر تھا۔
میں نے کہا " نہیں۔ ہم اس راستے سے ناواقف ہیں اور یہ بہت خراب بھی ہے۔ ہم اب واپس جائیں گے۔
آپ بالکل نزدیک پہنچ گئے ہیں بلکہ وہ سامنے اوپر سے تو سمندر نظر بھی آتا ہے" اس نے اس موڑ سے کچھ ہی قدم
دور ایک مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آخری کوشش کی۔ در حقیقت یہ اس علاقے کے لوگوں کا خلوص اور پیار تھا کہ
اپنے ضائع ہوتے وقت کی پروا کئے بغیر اس کا دل کسی صورت یہ نہیں مان رہا تھا کہ اتنی دور سے آنے والے یہ
مسافر ان کے علاقے کی کوئی خوبصورت جگہ دیکھے بغیر چلے جائیں۔ میں بھی اس کی بات نہ مان کر بہت دکھی تھا
لیکن تیزی سے ڈھلتی شام اور اس پتھریلی سڑک پر واپسی کے دشوار سفر کا خیال مجھے مزید آگے جانے سے روکتا
تھا۔ اپنی تمام تر کوششیں رائیگاں ہوتے دیکھ کر میں نے اس کے مسکراتے چہرے پر دکھ کی لرزتی پرچھائیاں دیکھیں۔
قریب تھا کہ اس کو اتنا دکھی کرنے پر میری آنکھیں بھر آتیں ۔ میں نے اس کے چہرے سے نظریں ہٹاتے ہوئے ہم سفر
کے ہمراہ اس مقام کی طرف قدم بڑھا دئے جہاں سے اس کے بقول سمندر نظر آتا تھا۔ ہم دور پہاڑ کے نشیب میں کسی
ٹھاٹھیں مارتے سمندر کو تو نہیں البتہ کسی جھیل کو تلاش کرتے تھے لیکن وہاں بہت نیچے گہرائی میں ایک نالا بہتا تھا ۔
ہو سکتا ہے یہ نالہ اس تنگ پہاڑی درے سے نکل کر مزید آگے جا کر کسی جھیل یا پھر چوڑے پاٹ کی صورت اختیا ر
کرتا ہو تو سمندر معلوم ہوتا ہو۔ ہم اس مقام سے پلٹے۔ موٹر سائیکل سوار ابھی بھی امید بھری نظروں سے اس اجنبی
راستے پر کھڑے دو مسافروں کو دیکھتا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ سمندر وہاں کہیں نشیب میں کسی پہاڑی درے میں نہ تھا
بلکہ اس موٹر سائیکل سوار کے دل میں تھا۔ ہمارے لئے پرخلوص محبت اور بے لوث چاہت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر۔
میں نے اس سے نظریں ملائے بغیر اسے اللہ حافظ کہا اور واپسی کی راہ لی۔ تقریباً تین کلومیٹر تک کے فاصلے کی
یہ کٹھن اور مسلسل چڑھائی ہماری گاڑی دوسرے اور پہلے گیئر میں بمشکل چڑھ پائی۔ آگے جا کر پھر وہی پختہ سڑک
اور وہی خوبصورت جگہ کہ جہاں ہم کچھ دیر ٹہرے تھے۔ اس سے مزید کچھ آگے بڑھے تو ایک سہہ راہا آیا کہ ایک
سڑک سیدھی سجی کوٹ جا تی تھی ،ہمیں سجی کوٹ سے واپسی پر اس سہہ راہے سے سیدھا جانے کے بجائے بائیں
طرف مڑنا تھا لیکن ہم شاید سجی کوٹ سے واپسی کے دوران اپنے سیدھے ہاتھ پر موجود چیڑ کے درختوں کے
حوبصورت منظر کو دیکھنے میں اتنا محو رہے کہ اس سہہ راہے اور یہاں سے حویلیاں کیلئے بائیں طرف مڑتی روڈ
سے غافل ہوکر گمراہ ہوئے اور دائیں طرف کے حسین منظر اور خوبصورت راہ نے ہمیں بھٹکا دیا۔
دنیا کی خوبصورتی اور اس میں کھو کراور الجھ کر ہماری غفلت ہی درحقیقت ہمیں گمراہ کر دیتی ہے۔ اللہ کا شکر
ادا کیا کہ اس نے ہمیں دوبارہ راہ راست پر آنے کی توفیق عطا فرمائی۔ شام کے پونے پانچ بجنے والے تھے۔ راہ بھٹکنے
کے باعث ہمارا تقریباً پون گھنٹہ ضائع ہو گیا تھا۔ تقریباً پونے چھ بجے ہم حویلیاں شہر کے مضافات میں واقع ایک
پٹرولپمپ پر پہنچے۔ ارادہ یہ تھا کہ نماز پڑھنے کی کوئی جگہ یہاں ہو تو نماز عصر ادا کی جائے اور اس دوران
اگر پمپ والوں کا سروس اسٹیشن ہو تو گاڑی کو نہلوا بھی لیا جائے۔ پمپ میں نہ تو مسجد تھی نہ سروس اسٹیشن۔
اتفاق سے پمپ کے مالک اسی وقت کسی کام سے اپنے آفس سے باہر نکلے ۔ انہوں نے بڑی محبت سے اپنا آفس
ہمارے حوالے کرتے ہوئے گویا ہوئے۔" آرام سے وضو بھی کریں اور نماز بھی پڑھیں۔ گاڑی کی چابی مجھے دیں ،
قریب ہی سروس اسٹیشن ہے ،میرا ملازم گاڑی کی سروس کر و الائے گا۔
میں نے اس مہربانی پر ان کا بہت شکریہ ادا کیا کہ ہم صرف نماز ادا کر لیتے ہیں۔ گاڑی کی سروس بعد میں کروا
لیں گے کیونکہ اندر سامان بہت زیادہ بھرا ہوا ہے۔ ہم نماز پڑھنے کے ارادے سے آفس میں چلے گئے۔ کچھ ہی دیر میں
ان کے ملازم نے دروازے پر دستک دی کہ چابی دے دیں صاحب کہہ رہے ہیں ہم گاڑی یہیں دھو دیتے ہیں۔ میں نے
چابی اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ صرف باہر سے ہی دھونی ہے کیونکہ اندر سامان بہت زیادہ ہے۔ نمازپڑھ کر
میں باہر نکلا تو پمپ کے وہ مہربان مالک کرسی پر بیٹھے اپنی نگرانی میں ہماری گاڑی دھلوا رہے تھے۔ میں نے ان
سے کہا " آپ نے کیوں اتنی زحمت کی" ۔ انہوں نے بڑی محبت سے جواب دیا " کوئی بات نہیں ۔ آپ ہمارے مہمان ہیں۔
ملازم ابھی گاڑی دھونے میں مصروف تھا ۔ میں ان کا بہت بہت شکریہ ادا کر کے اپنی ہم سفر کے پاس آگیا کہ کچھ دیر
اس پر سکون آفس میں آرام ہی کر لوں۔ دس پندرہ منٹ بعد دوبارہ باہر گیا تو گاڑی کو نہلا دھلا کر خشک کیا جا رہا تھا۔
پمپ مالک کسی کام سے کہیں جا چکے تھے۔ میں نے ملازم کو اجرت کے طور پر کچھ پیسے دینے کی بہت کوشش کی
لیکن وہ کسی صورت مانتا نہ تھا۔ میرے بے حد اصرار پر اس نے بمشکل ایک معمولی سی رقم لی۔ ہم ان مہربان پمپ
مالک اور ان کے ملازم کو دل ہی دل میں بہت سی دعائیں دے کر ساڑھے چھ بجے کے قریب یہاں سے روانہ ہوئے۔
اس خوبصورت مقام کی کچھ تصاویر کہ جہاں ہم راہ بھٹکنے کی شروعات میں کچھ دیر کیلئے ٹہرے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ پہلی تصویر ہی دراصل وہ سہہ راہے والا مقام ہے کہ ہم اس خوبصورت چھت والے مکان کی تصویر بناتے
بناتے بجائے بائیں ہاتھ مڑنے والی سڑک کے سامنے نظر آنے والی سڑک پر ہی چلتے چلے گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔
[/RIGHT]