[RIGHT]
ہنوچل کے قصبے کے درمیان سے گزرتی سڑک کے دونوں اطراف درختوں،کھیتوں اورگھروں کا سلسلہ بہت مختصر
وقت ہی جاری رہا ۔ ہنوچل سے نکل کر دریائے سندھ اور اس کے ساتھ ساتھ چلتی یہ سڑک دائیں طرف کے پہاڑی
سلسلے کے گرد ایک بڑا موڑ مڑتے ہوئے جنوب کا رخ اختیار کر لیتی ہے۔ سورج کی چمکیلی دھوپ میں اس موڑ مڑتے
پہاڑی درے سے گزرتے دریائے سندھ کا جھلملاتا پانی نشیب میں بہتا بہت خوبصورت نظر آتا تھا۔ شمالی علاقوں کے اس
سفر میں ہنوچل کے قصبے کے فوراً بعد کا یہ موڑ ایشیا کے اس عظیم دریا کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو
اس کے ہزاروں میل لمبے سفر میں ایک زبردست جغرافیائی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ یہاں سے سیکڑوں میل کے
فاصلے پر واقع تبت کی مانسرور جھِیل سے نکلنے والا یہ دریا چین اور بھارتی علاقے لداخ سے گزر کرہمارے بلتستان میں
ہمالیہ کے پہاڑی دروں میں گھومتا پھرتا اس موڑ تک اپنا پورا سفر جنوب مشرق سے شمال مغرب تک کرتا چلا آتا ہے۔
یہ موڑ اس کے شمال کی سمت سفرکی انتہا اور آخری موڑ ہے۔ اس کے بعد ہنوچل کے قصبے سے بحیرہ عرب میں جا
گرنے تک یہ عظیم دریا مسلسل شمال سے جنوب مغرب کی طرف سفر کرتا ہے۔ اس پورے موڑ کے دوران سڑک دریا سے
زیادہ بلندی پر نہ تھی اس لئے ہم پہاڑوں کے گرد گھومتے اس دریا کا بہترین نظارہ کر پا رہے تھے۔ اپنے شمالی علاقوں
کے اس سفر میں ہمیں اب دریا کے ساتھ ساتھ اسکردو تک جنوب مشرق کی سمت سفر کرنا تھا۔ ہم شمال سے جنوب کو
جاتے تھے جبکہ ہمالیہ کے ان پہاڑی دروں میں دریائے سندھ جنوب سے شمال کو بہتا تھا۔ جغرافیائی اہمیت کا حامل یہ
عظیم موڑ مڑنے کے بعد تھوڑا سا فاصلہ طے کرکے ساڑھے نو بجے کے بعد ہم سسی کے قصبے میں واقع ایک ہوٹل پر
کچھ دیر آرام اور چائے پینے کے لئے رک گئے۔ ہوٹل دریا کنارے تھا لیکن اس کے چھوٹے سے سرسبزباغیچے کے عقب
میں دریا کافی نشیب میں بہتا دکھائی دیتا تھا۔ باغیچے میں موجود گھاس کے مختصر سے لان میں درختوں کی چھائوں تلے
ایک میز اور بینچ رکھی تھی۔ باغیچے میں انار اور سیب کے درختوں کے ساتھ ساتھ انگور کی بیلیں بھی تھیں۔
انگوروں کے گچھوں تک ہماری رسائی تو تھی لیکن وہ ابھی بالکل کھٹے اورکچے تھے۔ میں نے شدت جذبات میں ایک
گچھا توڑ بھی لیا لیکن بعد میں اپنی اس بے وقوفی پر بہت افسوس ہوا۔ سیب اور اناربھی ابھی پکے نہ تھے۔ جون کا آغاز
تھا اوران سرد علاقوں میں گرمیوں کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا۔ سونے کو کندن ہونے کے لئے بھٹی کی سلگتی آگ اور
پھلوں کو پکنے کے لئے تپتی دھوپ کی گرمی تو جھیلنا ہی پڑتی ہے۔ اگست سے پہلے ان پھلوں میں مٹھاس اترنے کا کوئی
امکان نہ تھا ، ہمارے لئے دو مہینے تک رک کر ان کے پکنے کا انتظار آسان نہ تھا، اس لئے ہم کچھ دیر یہاں گزارنے
کے بعد آگے روانہ ہوگئے۔
ہنوچل سے سسی کے قصبے تک کی کچھ تصاویر ۔۔۔۔۔
ہنوچل کے قصبے سے گزرتے ہوئے
شمال سے جنوب کی طرف مڑتا دریائے سندھ
دریائے سندھ کے شمال تک کے سفر کی انتہا
سسی کے قصبے میں ہوٹل کا وہ باغیچہ جہاں کچھ دیر کیلئے ٹہرے
[/RIGHT]