سفرِ کشمیر کی بشارت ہمیں خواب میں کئی بار ہوئی۔۔۔۔۔قصہ دراصل یہ تھا کہ ہم نے جلد بازی میں اپنی رفیقِ سفر پیاری کرولا مئی میں اس خیال سے بیچ دی کہ گاڑی اپ گریڈ کریں گے۔ اس نے ہمارا ساتھ 4 سال تک بڑی خوبی سے نبھایا اور ہمیں خوب سیر کرائی۔ اس کو بیچ دینے کی ایک وجہ پروفیسر مبشر کے بار بار کے یہ طعنے بھی تھے کہ یار لوگ تو اتنی مدت میں رفیقِ حیات تبدیل کر لیتے ہیں اور آپ ہیں کہ۔۔۔۔
تو ہی ناداں چند کلیوں پہ قناعت کر گیا۔۔۔
وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔آپ میں سے جنہوں نے بھی یہ سوچ کر یہ حماقت کی ہو گی کہ جیب میں پیسہ ہے تو اچھی گاڑی بھی مل ہی جائے گی وہ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ اتنی جلد دوسری بیوی تو ضرور مل سکتی ہے۔۔۔۔۔اچھی گاڑی نہیں۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ ہم جتنی شدت سے دن میں دوسری گاڑی کی تلاش کررہے تھے اس سے بھی زیادہ شدت سے ہمیں رات کو خوابوں میں خوبصورت حسینائیں نظر آرہی تھیں جو دونوں ہاتھ اٹھائے ہمیں اپنی جانب بلا رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔متواتر 4-5 راتیں وہ ہمیں اپنی جانب بلاتی رہیں پھرہماری جانب سے کوئی ردعمل نہ پاکر منظریوں بدلا کہ ہمیں بلانے کے بجائے وہ خود دوڑ کے ہماری جانب آنے لگیں۔۔۔۔ہم نے مبشر سے اصرار کیا کہ یار اب کے بغیر گاڑی کے چلتے ہیں اور ان کو اپنے خواب سنائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظالم نے ہمارے خواب یکسر یہ کہہ کر جھٹلا دئیے
پروفیسر صاحب !! چھٹیوں میں کچھ زیادہ ہی مرغن غذائیں کھا رہے ہیں۔۔۔۔پیٹ کی خرابی سے گیس دماغ پر چڑھ رہی ہے۔۔۔۔۔ اس کا شافی علاج یہ ہے کہ ہم آپ کے ارادے بھابھی صاحبہ پر ظاہر کردیں
ہم نے کہا مبشر وہ جو تم نے کئی مہینے پہلے ہم سے ادھار روپئے لئے تھے (جن کی واپسی کی امید ختم ہو چکی تھی) وہ میں نے تمہیں معاف کئیے۔۔۔۔۔ اب مبشر کا دل کچھ پسیجا اور وہ اس بات سے تو باز آ گئے کہ ہماری بیگم تک ہمارے رنگین خواب نہیں پہنچائیں گے لیکن ہمارے خوابوں کی سچائی پر انہیں ابھی بھی شبہ تھا۔
دوستو!!! یہ سب بطور زیبِ داستان تحریر کیا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اپنی بیگم بہت پیاری ہیں۔۔۔۔اتنی زیادہ کہ ان جیسی کتنی بھی مل جائیں ہم اپنائے کو تیار ہیں۔
قصہ مختصر جب ہم باغ واپس پہنچے تو رات ۱۱ بجا چاہتے تھے۔ ہم نے پرویز صاحب سے کہا کہ اب آپ گھر جائیں کہ بہت دیر ہو چکی ہے لیکن وہ ہمارے ہزارہا اصرار کے باوجود ایک ہوٹل پر رک گئے اور ڈنر کا آرڈر دیا۔ صاف محسوس ہو رہا تھا کہ وہ مروتا ایسا کر رہے ہیں کیونکہ تھکاوٹ اور نیند ان کے چہرے سے ظاہر ہو رہی تھی۔۔۔۔مبشر بھوک کے کچے ہیں انہوں نے نہایت اطمینان سے کھانا اپنے پیٹ میں انڈیلنا شروع کر دیا۔۔۔ ساتھ ہی ان کا فرمائشی سلسلہ شروع ہو گیا۔۔۔۔۔ کھیرا لانا، پیاز لانا، روٹی گرم لانا وغیرہ۔ ادھر پرویز صاحب نے چند لقمے کھا کر ہاتھ روک لیا۔ مبشر دونوں ہاتھوں سے کھانا کھا رہے تھے۔ پرویز صاحب نے مجھ سے کہا آپ تو کچھ کھا ہی نہیں رہے۔۔۔۔ کچھ اورمنگواوں؟؟ ہماری جگہ مبشر نےاپنی رفتار بڑھاتے ہوئے بھرے ہوئے منہ سے کہا میٹھا۔۔۔۔ شکر ہے رات دیر ہو جانے کی وجہ سے میٹھا ختم ہو چکا تھا۔۔پرویز صاحب نے ازراہِ تکلف پھر ہم سےپوچھا کچھ چائے وغیرہ؟؟؟ اب کی بار پھر مبشر نے زور سے کہا ہاں ! ضرور۔۔۔۔گرین ٹی، اس وقت مبشر کا ہم سے دگنا بڑا سر ہمیں یکسر خالی لگا۔ ہم نے اس سے کہا یار! ایسا کرتے ہیں کہ چائے اپنے ہوٹل میں جا کر پیتے ہیں بہت دیر ہو گئی ہےپرویز صاحب کو صبح آفس بھی جانا ہو گا۔ تب جا کر مبشر کھڑے ہوئے اور پرویز صاحب نے ہمیں ہمارے ہوٹل چھوڑا اور خود اپنے گھر روانہ ہوگئے