[RIGHT]بھنبھور ۔۔۔۔۔ کہ اک شہر تھا آباد کبھی
ساڑھے 8 بجے سے قبل ہم چوکنڈی کے ان آثار سے نکلے ۔ اسٹیل مل کو دائیں طرف اور اس کی رہائشی کالونیوں
اسٹیل ٹاؤن اور گلشن حدید کو اپنے بائیں ہاتھ کی طرف چھوڑتے ہوئے 13 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ہم اس مقام
پر پہنچے جہاں سے بائیں ہاتھ پر مڑنے والا 18 کلومیٹر طویل مشرقی بائی پاس اس این 5کو سپر ہائی وے سے ملاتا
ہے۔ یہاں سے تقریباً ساڑھے تین کلومیٹر کا فاصلہ مزید طے کر کے ہم نےکراچی سے پشاور جانے والی مین ریلوے
لائن کو عبور کیا ۔ اب یہ ریلوے لائن ہمارے بائیں ہاتھ کی طرف آ گئی تھی۔8کلومیٹر کے سفر کے بعد ہم دھابیجی پہنچ
گئے۔ سڑک کی حالت مجموعی طور پر بہتر ہی تھی۔دھابیجی سے 5کلومیٹر بعد سیدھے ہاتھ پر بھنبھور کے آثار قدیمہ
کیلئے سڑک جاتی ہے۔ یہ ایک تنگ لیکن پختہ سڑک تھی جس پر تقریباً ساڑھے تین کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے سوا
نو بجے ہم بھنبھور کےعجائب گھرتک پہنچ گئے۔ ذہن میں تھا کہ بھنبھور کا قدیم شہر اجڑا تو ضرور ہے لیکن شاید کوئی
ٹوٹا پھوٹا چھوٹا سا ہوٹل سلامت ہو جہاں سے ہمیں ناشتے کیلئے پراٹھے مل سکیں لیکن اندازہ ہوا کہ بھنبھور پر جو تباہی
آئی وہ ہمارے تصور سے زیادہ تھی۔گھر سے چلے ہوئے دو گھنٹے ہو چکے تھے۔عجائب گھر ابھی بند تھا۔اتنی صبح ہمیں
یہاں دیکھ کر وہاں موجود ایک شخص ہمارے پاس آیااور بتایا کہ عجائب گھر تھوڑی دیر بعد کھل جائے گا۔ ہم چھوٹے سے
گیٹ سے ان آثار قدیمہ اور عجائب گھر کی حدود میں داخل ہوئے۔دائیں ہاتھ پر ایک چھوٹا سا اسٹال موجود تھاجہاں سے
اسنیکس اورٹھنڈے مشروبات خریدے جا سکتےتھے۔ ایک کچا سا راستہ سامنے چوتھائی کلومیٹر کی دوری پرنظر
آنے والے بھنبھور کے کھنڈرات کی طرف جا رہا تھا۔ عجائب گھرکے عقبی حصے میں گھاس کا ایک چھوٹا سا میدان تھا
جس میں عجائب گھرکے پچھلے دروازے کےسامنے منجنیق کاایک ماڈل نصب تھا۔ہم نے اندازہ لگایا کہ آثار کی طرف
جانے اور وہاں گھومنے پھرنے میں ہمیں کافی وقت لگ جائے گا،چنانچہ ہم نےپہلے اسی گھاس کے چھوٹے سے قطعے
پر بیٹھ کر ابلے ہوئے انڈے اور چائےپینے کا فیصلہ کیا۔اورپھر ان کھنڈرات کی طرف روانہ ہو ئے۔قریب پہنچے تو ہمیں
اس قدیم شہر کے قلعے کی ٹوٹی پھوٹی فصیلوں کے آثار نظر آئے۔ یہاں سے کچھ بلندی کی طرف چڑھنے کے بعد ہم اس
قلعے کے اندرشہر کی آبادی کے کھنڈرات میں داخل ہوئے۔دائیں ہاتھ پر کچھ ہی دور ایک مسجد کے آثارتھے جس کی سرخ
اینٹوں کا بڑا سا صحن ہمارے سامنے تھا۔ ساتھ ہی لگے بورڈ کی تحریر کے مطابق یہ جنوبی ایشیا کی پہلی مسجد ہے جو
کہ آٹھویں صدی عیسوی میں تعمیر کی گئی تھی۔ بعض مؤرخین بھنبھور شہر کو ہی سندھ کا تاریخی شہر دیبل تسلیم کرتے
ہیں کہ جس کو فتح کر کے محمد بن قاسم نے برصغیر میں اسلامی فتوحات کا آغاز کیا تھا۔اسی حوالے سے یہ باب الاسلام
بھی کہا جاتا ہے۔ مسجد کے آثار دیکھنے کے بعد ہم مزید بلندی کی طرف گئے تو دور نشیب کی طرف جاتے ہوئے ان
کھنڈرات کے پرے ہمیں گھارو کریک میں موجود بحیرہ عرب کا پانی ایک دریا کی صورت میں چمکتا ہوا نظر آیا۔ کبھی
اسی گھارو کریک کی جگہ سندھ کی قدیم تہذیب کی خوشحالی کاضامن دریائے سندھ یہاں سے گزرتا تھااور اپنے اندر
اتنا بہت سا پانی لے کر گزرتا تھا کہ اس دریا کےراستے بحیرہ عرب اور بحر ہند سے ہوتے ہوئے دنیا کے مختلف ممالک
کے ساتھ تجارت اور سفر کیلئےباقاعدہ جہازرانی ہوا کرتی تھی اوراس عظیم دریا کے کنارے بھنبھور جیسےمتعدد قلعہ بند
شہر آباد تھے۔ بھنبھور شہر تجارتی لحاظ سے اسقدر معروف خوشحال اور اہمیت کا حامل تھاکہ حملہ آوروں نے اس پر
قابض ہونے کیلئے کئی حملے کیے جس کے نتیجے میں یہ شہرمتعدد بار اجڑا اور بسا۔بعد ازاں وقت کی ستم ظریفی کہ
جب اس کے پہلو سے بہنے والے دریائے سندھ نے بھی اس شہر سے روٹھ کر اپنا راستہ بدل لیا تو دریا کی اس بے وفائی
پر اتنا دل شکستہ ہوا کہ بالکل اجڑ کر رہ گیا۔
میں دور نظر آتی گھارو کریک میں چمکتے ہوئے کھارے سمندری پانی کو دیکھتا تھا اور سوچتا تھا کہ میٹھے پانی کا بڑا
ذخیرہ ساتھ لیے ہوئے دریائے سندھ یہاں سے گزرا کرتا تھااور اس کے کناروں پر اتنےخوشحال اور معروف شہرآباد تھے ۔
اسی میٹھے پانی کے دریا کی مٹھاس تھی جو سندھ کے باسیوں کی روح میں ایسی رچی بسی کہ ان کےکردار
اخلاق اور زبان کی پہچان بن گئی۔،
اب نہ وہ دریائے سندھ رہا،نہ اس میں میٹھے پانی کا وہ عظیم ذخیرہ رہا،دریااپنے راستے بھی بدلتا رہااور سکڑتا بھی چلا گیا
لیکن سندھ کے باسیوں میں اپنی محبت اور مٹھاس کا انمول اور کبھی نہ مٹ سکنے والا رس ضرور گھول گیا۔
ہم ماضی کے اس عظیم شہر کے کھنڈرات میں گھومتے رہے۔انہی کھنڈرات کے بلند ٹیلے پربیچوں بیچ ایک اکلوتا اونچا سے
درخت موجود تھا۔جس کے ساتھ ہی کسی اور درخت کا تنا زمین پر اس انداز سے ٹکا ہواتھا جیسے کوئی اونٹ بیٹھا ہوا ہو
اور کہتا ہو ۔اس شہر خراباں میں بھٹکتے پھرتےتھک گئے ہوتو آؤمجھ پر سوار ہو جاؤ۔ان بنجر اور ویران کھنڈرات کےاونچے
پتھریلے ٹیلے پر سورج کی تمازت بڑھتی جا رہی تھی۔ہم واقعی کچھ تھک چکے تھےاس لئےکچھ دیر اس اکلوتے درخت
کے ساتھ بیٹھے چوبی اونٹ پر سستانے کیلئے آبیٹھے۔ تھوڑی دیربعد ہم ان کھنڈرات سے نکل کر واپس اتر آئے۔عجائب گھر
کھل چکا تھا۔وہاں موجود شیشوں کے کیسز میں بند بھنبھورشہر کی کھدائی سے ملنے والی تاریخی اشیاءاور تصوراتی ماڈلز
نےہمارے ذہن میں اس شہر کی تاریخ اور قدیم نقوش کو مزید اجاگرکر دیا۔
سسی کے شہر بھنبھور کے کھنڈرات کی کچھ تصاویر ۔۔۔۔۔
[/RIGHT]