[RIGHT]سورج کے بلند ہونے کے ساتھ ساتھ دھوپ کی تپش آہستہ آہستہ ہوا کی ٹھنڈک پر اثر انداز ہوتی جارہی تھی
اور اب ہوا کے خوشگوار جھونکوں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی گرم ہوا کا ہلکا سا تھپیڑا بھی ہمارے چہرے
کو چھو جاتا تھا۔اسی طرح سندھ کے ان قصبوں سے گزرتی این فائیو پرسڑک کی تعمیر کے ہمیشہ جاری و ساری
رہنے والے کام کے باعث متبادل راستوں کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا۔ ادھرگاڑی کی کھڑکیوں سے آنے والی
ہوا میں خوشگوار جھونکوں کے بجائے گرم تھپیڑوں کا تناسب بڑی تیزی سے بڑھتا جا رہا تھا جو آنے والی
قیامت خیز دوپہر سے ہمیں پیشگی آگاہ کر رہا تھا۔ ساڑھے دس بجے تک تو یہ گرم ہوا ہمارے لئے قابل برداشت تھی
لیکن گیارہ بجے تک یہ اتنی تیزی سے لو کے تھپیڑوں میں تبدیل ہو ئی کہ جیسے درجہ حرارت بتانے والا آلہ
کراچی میں چلنے والے رکشے یا ٹیکسی کا میٹر بن گیا ہو۔ ہم نے اپنی اپنی سائیڈ کے شیشے بند کر کے سیاہ شیڈ
لگائے اور اپنی گاڑی کے ناتواں اے سی کو کھول لیا۔اندر کا موسم اب کچھ بہتر ہو گیا لیکن ابھی ایک گھنٹہ ہی گزرا
تھا کہ بارہ بجے کے قریب شاید باہر کا درجہ حرارت پینتالیس کے قریب پہنچنے کی وجہ سے گاڑی کا ٹمپریچر
بتانے والی سوئی سرخ نشان کے قریب تر پہنچ گئی۔ ایک جگہ کسی زیر تعمیر پٹرولپمپ کے شیڈ تلے میں نے گاڑی
روکی۔ اے سی بند کر کے شیشے کھولے تو باہر چلتی شدید لو کے تھپیڑوں نے ہمارے چہروں کو جھلسا دیا۔
شیڈ کے چھائوں کے باوجود ہوا کی یہ تپش بتا رہی تھی کہ کم از کم چھیالیس ڈگری سنٹی گریڈ گرمی پڑ رہی ہو گی
جبکہ ابھی تو دوپہر کا آغاز تھا۔ کچھ دیر یہاں ٹہرنے کے بعد ہم بغیر اے سی چلائے یہاں سے روانہ ہوئے۔ میں نے سندھ
کی یہ گرم ترین دوپہر آگے آنے والے کسی ائر کنڈیشنڈ ہوٹل میں گزارنے کا فیصلہ کر لیا تھا کیونکہ بغیر اے سی
کے اتنی شدید گرمی میں سفر جاری رکھنا ممکن نہ تھا، لیکن ہمیں ایک ڈیڑھ گھنٹے تک مزید این فائیو کے متبادل
راستوں اور لو کے تھپیڑوں سے نبرد آزما ہونے کے بعد رانی پور ریاست میں ایک بہتر ہوٹل نظرآیا۔ ہوٹل کا ڈائننگ ہال
پرسکون تھا لیکن یہاں کوئی فیملی ہال نہیں تھا۔اس ہوٹل کے کائونٹر پر موجود شخص نے ہمیں بتایا کہ چند کلومیٹر آگے
گمبٹ میں کوئی راحیل ہو ٹل ہے جو ائر کنڈیشنڈ بھی ہے اور وہاں فیملی ہال کی سہولت بھی موجود ہے۔ چنانچہ دس پندرہ
منٹ تک اس پرسکون ہوٹل میں اپنے ہوش وحواس بحال کر کے ہم راحیل ہوٹل کی تلاش میں سوئے گمبٹ روانہ ہو گئے۔
راحیل ہوٹل کا اصل نام رائل ان ہو ٹل تھا لیکن اس شخص کے سندھی لہجے کےباعث رائل کا لفظ راحیل میں بدل گیا تھا۔
ہمیں اس وقت پیڑ گننے کے بجائے آم کھانے سے مطلب تھا اس لئے ہم نے دل ہی دل میں ہوٹل کا غلط نام بتانے پر اس
شخص کو فی الفور دل کی گہرائیوں سے معاف کر دیا اور ہوٹل کے ائر کنڈیشنڈ فیملی ہال میں جا گھسے۔وضو کر کے
تازہ دم ہوئے۔ظہر کی نماز ادا کی۔لنچ کیا۔اس دوران بجلی کی بار بار آمدو رفت کا سلسلہ جاری رہا۔ اچھی بات یہ تھی کہ
ہوٹل والوں کا اپنا بڑا ڈیزل جنریٹر موجود تھا۔ اور ایک روم کولر بھی ہماری میز کے قریب ہی رکھا ہوا تھا۔ جب بجلی
چلی جاتی تو جنریٹر چلا کر وہ روم کولرچلا دیا جاتا جو ہمیں ٹھنڈک فراہم کرتا رہتا۔ اور لائیٹ آنے کے بعد دوبارہ
اے سی آن ہو جاتا۔ سہ پہرکےبعد ہم نےچائے پی۔ عصر تک یہیں آرام کیا۔ عصر کی نماز کے بعد پونے چھ بجے میں
نے فیملی ہال کے باہر جا کر موسم کا جائزہ لیا۔گرمی کی شدت میں برائے نام کمی ہوئی تھی۔ ہمارے موبائل پر گرمی کا
درجہ حرارت بتانے والا یاہو ویدر 43ڈگری سنٹی گریڈ بتا رہا تھا اور بالکل درست بتا رہا تھا۔ ہوٹل والے نے ہمیں بتایا
کہ یہاں آجکل ایسی ہی آگ برستی ہے اور سورج غروب ہونے تک گرمی میں برائے نام ہی کمی آ پاتی ہے۔بہرحال
ایک بات تو طے تھی کہ اب گرمی کی شدت میں کمی ہی ہوتی جائیگی مزید اضافہ ہونے کا کوئی خدشہ نہ تھا ۔
[/RIGHT]