بسم اللہ الرحمن الرحیم
سفر تین درویشوں کا
[right]
گھٹنے میں گولی مار دو اگر یہ بائیک پر ٹور پر جائے۔
.یہ وہ شاہی فرمان تھا. جو حسان بن حیدر کے والد گرامی کا کینیڈا سے حسان کی والدہ کو موصول ہوا
اس فرمان عالی شان کو با زبان حسان سننے کے بعد شاہد صاحب نے مجھ پر چڑھاہی کر دی. حالانکہ وہ بائیک پر بھی مجھ سے پوچھ کر چڑھتے ہیں
میں نا کہتا تھا .کہ یہ ممی ڈیڈی بچہ ہمارا ٹور بھی خراب کرے گا. ھم ہمیشہ دونوں ھی بائیک ٹور کرتے ہیں.تم اس کو ساتھ ملا لو. اور اب مزا چکھو۔
شاہد صاحب نےمجھ پر مزید چڑھائی کر دی. کہ ہمیشہ کافی لوگ ہمارے ساتھ ٹور پر جانے کی ضد کرتے ہیں. اور عین ٹائم پر سب کی دور نزدیک
کی نانیاں دادئیاں وفات پا جاتی ہیں. جو کہ پہلے بھی کئی ایسے موقعوں کے لیے وفات کے لیے تیار رہتی ہیں. اور ہمیشہ کی طرح ہم دو درویشوں کو ٹور
پراکیلے ہی جانا پڑ ہتا ہے۔
میں شاہد صاحب کے طعنے سننے کے بعد بھی پرسکون رہا. کہ اب تو عادت سی ہے موجھ کو ایسے ہی جی لینے کی
میں نے شاہد صاحب کو عرض کی کے حسان نے تو بایئک بھی لے لی ہے اور یہ ضرور جائے گا. میں نے شاہد صاحب کی موجودگی میں
حسان سے پوچھا کہ میاں کیا پروگرام ہے جانے کا. بقول حسان کہ میں ہر قیمت پر ضرور جاوں گا. میرے والد صاحب کینیڈا سے تین روز میں
آنے والے ہیں میں ان کو منا لوں گا۔
حسان جو کہ فارماسیوٹیکلز کمپنی کا مالک ہے. اور مجھ سے نہایت ھی محبت کرنے والے ڈاکٹر سید سجاد حیدر صاحب کا بیٹا ہے
جو کے میرے سفر کے ساتھی ہیں. میں نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بے تحاشہ دشت نووردگی کی ہے. لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گاڑی پر
اسی لیے حسان کو بھی کو بھی ڈاکٹر صاحب نے بیرون ملک سے ٹور کی اجازت مانگنے کے بعد یہ کہا. کہ گھر میں ایک درجن کے قریب گاڑیاں ہونے
کے باوجور باہیک پر جانا پاگلوں جیسی حرکت ہے. اور اس کی قطعنا اجازت نہیں۔اوراس کےلئے پدرانہ محبت کے تہت روحانی گولی کے آرڈرکردیے۔
میں اور شاہد صاحب دو پہیوں والے راکٹ پر سالانہ ٹور کی تیاری کر رہے تھے. کہ موصوف فیکٹری کے کسی کام کے سلسلے میں میرے پرنٹ ھاوس
میں داخل ہوئے اور ھماری تیاری کو دیکھتے ہوئے اپنا کام بھول گئے اور سوال در سوال شروع ہو گئے. کہ آپ بائیک پر جاتےہیں. اس بارے میں کبھی
ذکر کیوں نہیں کیا۔۔۔۔۔۔. کتنے دن کا ٹور ھوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔. کہا کہا جاتے ہیں.۔۔۔۔۔۔ کتنے لوگ ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔. بائیک خراب یا پنکچر ہو جائے تو کیا کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دور دراز کے علاقوں میں جہاں ھوٹل نہیں ھوتے وھاں کیا کرتے ہیں. وغیرہ وغیرہ
سوالوں کے جوابات ملنے کے بعد سانپ پٹاری سے باہر آگیا. کہ میں اگر ساتھ جانا چاہوں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں جا سکتے
سپاٹ لہجے میں میرا جواب سن کر آگے سے ایک ھی سوال کیا جا سکتا تھا کہ کیوں..............؟
اس لیے کے آپ کے ابا حضور کو میں بھی اتنا ہی جانتا ہو جتنا کے آپ . اور وہ آپ کو کبھی بھی ٹور پر نہیں جانے دے گے۔
اور اگر آپ نے ھمارے ساتھ ٹور پرجانا بھی ہے۔ تو آپ میرا ذکر ڈاکٹر صاحب سے نہیں کریں گے. کہ آپ میرے ساتھ جارہے ھو.ایک تو وہ بائیک
پر سفر کو پسند نہیں کرتے۔اور دوسرا آپ کی ذمہ داری نہیں لے سکتا. سفر میں اونچ نیچ سفر کا حصہ ہے. اگر آپ کو کچھ ہوگیا تو ڈاکٹر صاحب نے مجھے نہیں چھوڑنا۔
میں اپنے پاپا سے اجازت لے لو گا.یہ میرا مسلَہ ہے. اور آپ کا ذکر بھی نہیں کروں گا۔
بقول حسان کے میرا بچپن سے شوق تھا. کہ میں موٹر باہیک پر اپنے جنت جیسے ملک کی سیر کروں. میں اس پکڈنڈی کے آخری گاوں تک جانا
چاہتا ہو جہاں گاڑی نہیں جاتی.اور اپنے آزاد ملک کی آزادی کے ساتھ سیر کرنا چاہتا ہو کہ جو سیر کی آزادی موٹر بایئک دے سکتی ہے وہ گاڑی میں کہا
خیر ان خیالا ت کے بعد میں نے اور شاہد صاحب نے اس درویش کو بھی اپنی کھجل خواری مہم کا حصہ بنا لیا. اور روز شب سفر کی پلاننگ میں لگنے لگے۔
شاہد صاحب میرے انڈروئیر فرینڈز سے بھی زیادہ محبت کرنے والے دوست. جو کہ میری ہر خواہش کے بدلے میں صرف ہاں میں ہاں ملاتے ہیں
اور ان کے منہ سے کبھی نا نہیں سنی. ہر سال میری وجہ سے نئی بایئک بھی لے لیتے ہیں . تاکہ موٹر بایئک پر ٹور کیا جائے.
سفر ھمیشہ ایسے دوستوں کے ساتھ کرنا چاہیے. جن کے ساتھ آپ کی زہنی ہم آہنگی ہو.اور اس چیز میں شاہد صاحب کا کوئی ثانی نہیں۔
با ئیک پرٹورکرنے کی وجہ سے مجھے اورشاہد صاحب کو دوستوں کی کافی باتیں بھی سننی پڑتی ہے۔ کہ گاڑیوں کے ھوتےھوئے بھی بائیک پر جانا
پاگل پن ہے۔ لیکن یہ ٹھرک ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔
قصہ مختصر ٹور پر جانے کی پلاننگ شروع ہوگئی. ہر دو چار دن کے وقفے کے بعد ہم تینوں کی میرے آفس میں محفل لگنےلگی۔
کہ کب جانا ہے. کہاں جانا ہے. بائیک کونسی لی جائے. سفر میں کس طرح کے سامان کی ضرورت پیش آئے گی. حفاظتی سامان
کون کون سا ہونا چاہیے. وغیرہ وغیرہ. سفر کے لئے تیاری کے تو میں اور شاھد صاحب عادی ہیں. اور بے تحاشہ سامان بھی موجود ہے.
لیکن حسان کے لیے سفر کے سامان کی خریداری اور کچھ اپنے لیے بھی سامان کی پلاننگ شروع کی. سب سے پہلے مسلہ بائیک کا تھا. میرے اور شاہد صاحب
کے پاس تو ھنڈا ڈیلکس 125 بایئک پہلے سے موجود تھیں۔ اور صرف ٹور پر جانے کے لیے سارا سال گھر پر کھڑ ی رہتی ہیں ۔
ٹور پر جانے سے پہلے ہم ان بایئک کی مینٹیننس کرواتے ہیں. اور ٹور کے بعد یا تو سیل کر دیتے ھیں. یا اگلے ٹور کےلیے کھڑی کر دیتے ھیں۔
خیرکافی میٹنگ کے بعد ٹورکی تیاری کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا.
پہلا مرحلہ روٹ کا انتخاب اور سفر کی تاریخ
. دوسرا مرحلہ سفر سے متعلقہ سامان بمعہ حفاظتی سامان کی خریداری۔
تیسرا بائیک کی خریداری
سفر سے پہلے سفر کی تیاری ایک ایسا مرحلہ ہے. جو کہ آپ کے کامیاب سفر کی ضمانت ہے. مکمل تیاری اور
اللہ تعالی کی مدد شامل حال رہے. تو سفر کا مزا دوبالا ھو جاتا ہے۔
سفر کی تیاری کے متعلق میں تفصیل سے لکھوں گا. تاکہ نئے ساتھی جو آنے والے دنوں میں سفر کا ارادہ رکھتے ہو. ان کے لئے یہ مضمون مددگار ثابت ہو۔
سفر کے لیے سب سے پہلے جولائی کا فیصلہ کیا گیا. لیکن ایک کاروباری سلسلہ کی وجہ سے مجھے ترکی جانا پر گیا. اگست میں بھی پروگرام نہ بن سکا.
کبھی حسان کی کاروباری مصروفیت کبھی شاھد صاحب کی. اور کبھی میری. خیر کرتے کرتے ستمبر بھی گزرنے لگا.تو ایک دن میں نے سب کو بلایا .
اور ایک ہی سوال کیا. کے جانا ہے کے نہیں۔
اور یہ سوال جس انداز میں کیا گیا.اس سے یہ فائدہ ہوا کے ٹور کی تاریخ 4 اکتوبر طے پاگئ.
بائیک پر سفر کرنے والوں کو پتہ ہے. کہ اکتوبر کا مہینہ بائیک پر کسی بھی صورت سفر کے لیے موضوع نہیں۔ لیکن ٹھرک تو ٹھرک ہے۔
اور سیانوں کے نزدیک سفر مرد کی کمزوری ہے۔
ایک تو ٹھنڈ دوسرا ھریالی بھی ختم. اور شمالی علاقہ جات کا حسن جو جولائی اگست اور ستمبر میں ہے وہ بعد میں دیکھنے کو نہیں ملتا. حالانک کے شمالی
علاقہ جات کے کچھ حصوں میں خزاں بھی اپنا اثر رکھتی ہے. اور دیکھنے والوں کو اپنے حسن کے جال میں قید کر لیتی ہے۔
سفر کی تاریخ طے پانے کے بعد روٹ کی تیاری میرے کندھوں پر آن پڑھی. اس معاملے میں حسان توکورا تھا. اور شاھد صاحب صرف میری بائیک کے
ٹائروں کے نشانوں پرموٹر بائیک چلانے کے عادی. بقول ان کے کہ بس گھر سے نکلوں. باقی جدھر تم لے جاوں گے. اللہ مالک ھے
اور اس کائنات مالک نےھمیشہ ھمارے سفر میں ھم دونوں می مدد کی ۔
اگر جولائی یا اگست کا مہینہ ہوتا تو مجھے روٹ بنانے میں کوئی مشکل نہیں تھی. اب مسلہ اکتوبر کا تھا. برسوں سے نوری نار ٹاپ کرنے
کا ارادہ اکتوبر کی ٹھنڈ کی وجہ سے کٹھائی میں پڑ رہا تھا. خیر میں نے روٹ پلان کو اس طرح ترتیب دیا. کہ اگر موسم کی شدت کی وجہ سے
ہمیں روٹ بدلنا بھی پڑے تو یہ سفر پر اثر انداز نہ ہو
چاچو گوگل میپ۔۔۔۔ سابقہ سفر کے تجربات ۔۔۔۔۔ حسان کے پہلے سفر کے لیے آسانی کو مد نظر رکھتے ہوئے جو روٹ منتخب کیا گیا. وہ درج زیل ہے.
اس ابتدائی روٹ جس میں دوران سفر بعد میں تبدیلیاں بھی کی گئیں وہ مضمون میں آگے آے گی
ابتدائی طور پر لاہور سے اسلام آباد.۔۔۔ مظفرآباد ۔۔۔۔ کنڈل شاہی ۔۔۔۔۔ کیرن ۔۔۔۔۔۔۔ جاگراں ۔۔۔۔۔۔ آٹھ مقام ۔۔۔۔۔ دواریاں ۔۔۔۔۔۔ رتی گلی جھیل ۔۔۔۔۔ شاردہ ۔۔۔۔۔
کیل ۔۔۔۔۔ ھلمت ۔۔۔۔۔ تاو بٹ ۔۔۔۔ تاوبٹ بالا ۔۔۔۔۔ کیل ۔۔۔۔۔آڑن کیل ۔۔۔۔۔ شاردہ ۔۔۔۔۔ سرگن ۔۔۔۔۔۔ نوری ٹاپ ۔۔۔۔۔ جلکھڈ ۔۔۔۔۔۔ بابو سر ٹاپ ۔۔۔۔۔۔ چلاس ۔۔۔۔۔۔
استور ۔۔۔۔۔۔۔ راما ۔۔۔۔۔۔ دیوسائی ۔۔۔۔۔۔ شوسر لیک ۔۔۔۔۔۔ سکردو۔۔۔۔۔۔ سوست ۔۔۔۔۔۔ خنجراب ٹاپ ۔۔۔۔۔ سوست ۔۔۔۔۔۔۔ ھنزہ ۔۔۔۔۔۔ گلگت ۔۔۔۔۔۔ بابو سر ٹاپ ۔۔۔۔۔۔
ناران ۔۔۔۔۔ کاغان ۔۔۔۔۔۔۔ایبٹ آباد ۔۔۔۔۔۔۔ اسلام آباد اور واپس لاہور کو روٹ کا حصہ بنایا۔
اس روٹ میں دیوسائی اور سکردو وقت کی قلت کی وجہ سے نہیں جا سکے. باقی روٹ پر اللہ تعالی کی مدد شامل حال رھنے
کی وجہ سے تمام ساتھیوں نے خوب انجوائے کیا. الحمداللہ
سفر کے روٹ کا نقشہ، سامان کی خریداری ، بائیک کی سلیکشن اور خریداری اور سفر کی داستان بمہ خوبصورت تصاویرگنجائشِ وقت کی شرط کے ساتھ پوسٹ کرتا رہوں گا
yamaha ybr 125g
کے متعلق کچھ دوست احباب نے پوچھا ہے ۔ کہ سفر میں اس کی کارکردگی کیسی رھی ہے بائیک کی کارکردگی پر تفصیلی مضمون انشاَاللہ جلد قارئین کی نظر کرونگا۔
yamaha ybr 125g
پر سب سے پھلے شمالی علاقہ جات کا ٹور کرنے کا اعزاز ہمیں حاصل ہوا۔
[/right]