[RIGHT]اس تنگ سی رہگذر کے ساتھ ساتھ پتھروں سے بنی ایک چوڑی منڈیر موجود تھی جس کے دوسری [HR][/HR]
طرف قلعے کی فصیل سیکڑوں فٹ گہرائی میں بہتے دریائے ہنزہ تک چلی جاتی تھی۔ پتھروں کی [HR][/HR]
منڈیر سے نیچے دریا کی طرف گہری عمودی کھائی کی طرف دیکھنے سے ہی دل خوف سے لرزتا تھا۔[HR][/HR]
ہمارے گائیڈ نے ہمیں ایک جگہ ٹہرنے کا اشارہ کیا۔ اپنی ایک ٹانگ اس نے پتھریلی منڈیر کے دوسری طرف[HR][/HR]
گہری کھائی کی طرف لٹکائی اور اپنے جسم کو بھی کھائی کی طرف جھکاتے ہوئے اس نے ہماری[HR][/HR]
ایک تصویر کھینچی تو ہم اس کی دلیری پر انگشت بدنداں رہ گئے، اس کے اس دلیرانہ عمل کے دوران[HR][/HR]
حیرانی اور مسرت کی کیفیت سے زیادہ عالم خوف میں تھے کہ خدا نخواستہ وہ اپنا توازن برقرار نہ[HR][/HR]
رکھ پاتا تو ۔۔۔ اس کے آگے کچھ سوچنے کی ہمت ہم میں نہ تھی۔ پہاڑ کی چوٹی کے گرد گھومتی ہوئی[HR][/HR]
اس راہگزر پر چلتے ہوئے ہم قلعے کے دوسری طرف التت گائوں کی طرف موجود راہداری میں آنکلے[HR][/HR]
یہاں سے نشیب کی طرف پورے التت گائوں کا منظر ہمارے سامنے تھا ۔ اس راہداری سے گزرنے کے دوران[HR][/HR]
بھی گائیڈ نے راہداری کے ساتھ بنی لکڑی کی ریلنگ سے ٹانگ دوسری طرف نکال کر وہی خطرناک[HR][/HR]
انداز اپناتے ہوئے ہماری ایک دو تصویریں بنا لیں ۔ راہداری سے گھومتے ہوئے ہم پہلے چھوٹی سی مسجد [HR][/HR]
کے دروازے کے سامنے پہنچے اور پھر واچ ٹاور کی طرف چلے گئے جو کہ قلعہ التت کا بلند ترین مقام ہے[HR][/HR]
واچ ٹاور کی چار دیواری میں سامنے کی طرف والی دیوار پر لکڑی سے بنایا گیا مارخور کا ایک قدیم [HR][/HR]
مجسمہ نصب تھا ۔ یہاں سے ہمیں ایک بار پھر واچ ٹاور کے چاروں اطراف پھیلی وادی ہنزہ کے حسین[HR][/HR]
نظاروں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا ۔ دور دکھائی دیتی کریم آباد کی آبادی سے مزید بلندی کی[HR][/HR]
طرف نگاہ اٹھائی تو ایک پہاڑ پر واقع قلعہ بلتت کی ؑعظیم عمارت ایک چھوٹے سے ماڈل کی طرح[HR][/HR]
نظر آتی تھی ۔ واچ ٹاور سے نیچے اترتے وقت گائیڈ ہمیں قلعے کی عقبی فصیل کی طرف لے گیا جہاں[HR][/HR]
فصیل سے چند فٹ کی دوری پر ایک قدرتی چٹان ستون کی صورت موجود تھی۔ یہ ستون نما چٹان [HR][/HR]
فصیل جتنی ہی بلند تھی جس کی چوٹی کی ہموار سطح ایک چھوٹی میز کی طرح فصیل سے چند[HR][/HR]
فٹ کے فاصلے پر ہماری نظروں کے سامنے تھی۔ قلعے کی فصیل اور اس ستون نما چٹان کے درمیان[HR][/HR]
وہی سیکڑوں فٹ گہری عمودی کھائی کہ نشیب کی طرف دیکھتے ہی اوسان خطا ہونے لگیں۔ گائیڈ[HR][/HR]
نے ہمیں بتایا کہ زمانہ قدیم میں حکمران اپنی حفاظت کیلئے جو کماندوز بھرتی کرتے تھے ان کو اپنی[HR][/HR]
قابلیت اور مہارت کے امتحان کے طور پر قلعے کی فصیل سے اس ستون نما پہاڑی کی چوٹی پر چھلانگ[HR][/HR]
لگانا ہو تی تھی اور پھر اس چوٹی پر اپنا توازن برقرار رکھتے ہوئے فوراً پلٹ کر دوبارہ فصیل پر واپس[HR][/HR]
کودنا پڑتا تھا ۔ کمانڈو کی قابلیت کو جانچنے کے اس کڑے امتحان کے تصور سے ہی ہمیں خوف سے [HR][/HR]
جھرجھری آ گئی کہ امتحان میں ناکام ہونے والے کی تو کھائی میں گرتے وقت پہاڑوں میں گونجتی[HR][/HR]
اور پھر دم توڑتی چیخ ہی سنائی دیتی ہوگی ۔ قلعے کی عمارت سے نیچے اترنے کے بعد ہم دوبارہ شاہی[HR][/HR]
باغ میں جا پہنچے جہاں سیاحوں کا ایک اور گروپ غالباً گائیڈ کے انتظار میں ہی کھڑا تھا ۔ گائیڈ ہمیں[HR][/HR]
خدا حافظ کہہ کر اس گروپ کے ساتھ دوبارہ قلعے کی عمارت کی طرف بڑھ گیا ۔ ہم نے کچھ دیر[HR][/HR]
سستانے کیلئے باغ کا رخ کیا اور سبزہ زار پر چہل قدمی کرتے رہے ۔ کچھ درختوں پر سرخ چیریاں لگی[HR][/HR]
تھیں ، خوبانیوں کے کچھ درخت نظر آئے لیکن خوبانیاں ابھی پکی نہیں تھیں ۔ قلعہ التت کے اس [HR][/HR]
خوبصورت شاہی باغ میں ہماری ملاقات ایک بار پھر پہاڑی پرندے کشپ سے بھی ہوئی۔ باغ سے باہر[HR][/HR]
نکلے تو ماڈل گائوں کے سامے موجود چھوٹی سی دکان سے ہم نے پانی کی بوتلیں خریدیں ، دکان کے[HR][/HR]
شوکیس میں وادی ہنزہ میں پائے جانے والے خوبصورت پتھروں سے تراشیدہ نودرات سجے ہوئے تھے [HR][/HR]
بلتی زبان میں التت کا لفظ زیریں علاقے جبکہ بلتت بلند مقام کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ التت سے[HR][/HR]
نکل کر ہمارا پروگرام قلعہ بلتت کی طرف جانے کا تھا ۔ تقریباً سوا گیارہ بج رہے تھے جب ہم [HR][/HR]
کریم آباد کے زیریں علاقے میں واقع التت گائوں سے نکل کر کریم آباد کے بلند مقام بلتت کیلئے روانہ[HR][/HR]
ہوتے تھے۔[HR][/HR]
قلعہ التت کی سیر کے دوران لی گئی مزید تصویریں ۔۔۔۔۔۔


پتھر کی منڈیر سے گہری کھائی کی طرف جھک کر گائیڈ نے یہ تصویر لی

یہ تصویر بھی گائیڈ نے راہداری کی ریلنگ سے خطرناک حد تک باہر جھکتے ہوئے لی


مسجد کا دروازہ


قلعہ التت کا بلند ترین مقام واچ ٹاور

[/RIGHT]