[RIGHT]نواں دن
اسکردو کی پرانی یادیں ۔۔۔ سد پارہ جھیل اور چشمے کے کنارے
ہم سفر کو ہوٹل کے کمرے میں ہی چھوڑ کر میں صبح آٹھ بجے کے بعد قاسم نسیم سے ملاقات اور گاڑی کو نہلانے
دھلانے کی غرض سے بازار کی طرف نکل گیا۔ راستے میں ایک قدیم ہوٹل کو دیکھ کر 1988 کے اسکردو کی یاد تازہ
ہو گئی۔ یادگار چوک کے پاس رک کر پھر اسی پرانے ہوٹل نے قدم روک لئے کہ جہاں 1988 اور 2004 کے
ٹورز کے دوران قیام کیا تھا، گاڑی سے اتر کر ہوٹل میں پہنچ گیا، کچھ تصویریں بنائیں، پہلی منزل پر بنی ہوٹل
کی بالکونی میں کھڑے ہو کر اسکردو کے بازار کا نظارہ کرتے ہوئے ماضی کی ناقابل فراموش اور حسین یادوں
میں کھو گیا۔ خصوصاً اس بالکونی کے بالکل سامنے نظر آتی پنجاب ہزارہ بیکری ہو بہو اپنی 26 سال پرانی
حالت میں ہی نظر آئی جب میں اپنی ڈھائی سالہ بڑی بیٹی اور ہم سفر کے ساتھ اسی بالکونی میں کھڑے ہو کر
اسکردو کے مختصر سے بازار کانظارہ کرتا تھا اور پھر آج سے دس سال پہلے ہم دونوں اپنی تینوں بیٹیوں کے ساتھ
اسی ہوٹل کی اسی بالکونی میں بچھی میز کرسیوں پر صبح کا ناشتہ کرتے اور شام کی چائے پیتے تھے۔
، بالکونی کے بالکل سامنے نظر آتی پنجاب ہزارہ بیکری ، چوک پر بنی یادگار اور دور نظر آتے اسکردو کے پہاڑ بالکل
اسی حالت میں قائم تھے۔ میں بالکونی میں کھڑا سوچتا تھا کہ اس طویل عرصے کے دوران اسکردو کا چھوٹا
سا بازار جوان ہو گیا، چوتھائی صدی قبل میں جوان تھا، آج اپنے سر کے بالوں میں دور نظر آتی برف پوش چوٹیوں
کا عکس بنا کھڑا ہوں۔ سامنے لگی بالکونی کی ریلنگ کے پاس میرے ساتھ کھڑی میری ڈھائی سالہ بیٹی ماشاءاللہ
ایک پانچ سالہ بیٹی کی ماں بن چکی ۔ وقت کا پہیہ چلتا رہتا ہے ، اس کے چلنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدلتا چلا جاتا
ہے۔ ایک نسل کی جگہ دوسری نسل لے لیتی ہے، چھوٹے چھوٹے شہر جوان ہوتے چلے جاتے ہیں ، شہروں کی آبادیوں
میں ذی روح جنم لیتے ہیں، بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپے کے مراحل طے کر کے ان آبادیوں سے رخصت ہو جاتے ہیں۔
شہر، آبادیاں اور نظام قدرت یونہی قائم رہتا ہے لیکن اس بقا کی بھی ایک حد ہے، فنا تو ان سب کو بھی ہونا ہے
سب کچھ قائم ہے تو بس روز قیامت تک۔ بقا ہے تو صرف اس ذات کو کہ جس نے اس پوری کائنات اور نظام کو
تخلیق کیا ۔ ہوٹل سے نکلا تو قاسم نسیم کی دکان پر گیا ، ان کی مصروفیات کا سلسسلہ ہنوز جاری تھا، صحافت
کے پیشے کی ان مجبوریوں سے میں بخوبی واقف تھا ، ان کی دکان میں موجود ایک صاحب گاڑی کے سروس سینٹر
تک میرے ہمراہ گئے۔ اور گاڑی کو نہلانے ،دھلانے کے اس عمل کے دوران میرے ساتھ ہی رہے۔ ساڑھے نو
بجے کے قریب ان کو دکان کے سامنے اتار کر میں دوبارہ اپنے ہوٹل پہنچ گیا۔
سال 2004 ، اسکردو کے سفر کے دوران جب ہماری کوسٹر صبح ناشتے کے لئے رکی ۔۔۔۔
سال 2004 ، اسکردو کے سفر کے دوران
سال 2014 ، ہوٹل کے کمرے سے عقب کا منظر
روندو ہوٹل ابھی تک اپنی قدیم حالت میں ۔۔۔۔۔
پنجاب ہزارہ بیکری اسی پرانی حالت میں ۔۔۔۔
یادگار چوک کے پاس وہ ہوٹل کہ جہاں 1988 اور 2004 کے ٹورز کے دوران قیام کیا ، تقریباً اسی حالت میں ۔۔۔
سال 1988 ، میری ہم سفر اور بڑی بیٹی اسی ہوٹل کی بالکونی میں ۔۔۔
گاڑی غسل کرتے ہوئے ۔۔۔۔
سال 2014 ہمارا ہوٹل اور گاڑی ۔۔۔۔
سال 1988، یادگار چوک کے پاس ہوٹل کی بالکونی ۔۔۔ میں اور میری بڑی بیٹی ۔۔۔۔[/RIGHT]