نور محل کی پرشکوہ عمارت ہمارے سامنے تھی، سبزہ زار بھی تھے اور کھلی فضا بھی ، کچھ نہ تھا تو ہوا نہ تھی۔بہاولپور کی فضاؤں کا شدید حبس ہمارے اندر کے موسم کو بھی حبس زدہ کرتا تھا۔محل کی عمارت کےقریب پہنچے توباقاعدہ سوٹ بوٹ میں ملبوس ایک گائیڈ ہمیں خوش آمدید کہنے وہاں موجود تھا۔ اس کی معیت میں اندر داخل ہوئے۔
اطالوی طرزتعمیر کا یہ شاندار محل تقریباً ڈیڑھ صدی قبل ریاست بہاولپور کے نواب نے اپنی ملکہ نور کیلئے بنایا تھا۔محل کی عمارت کے وسط میں اونچی چھت والا ایک وسیع وعریض ہال ، انتہائی دلکش نقش و نگار سے مزین چھت،اوپر کی منزلوں کی راہداریوں میں بنی خوبصورت محرابیں، مختلف کمروں میں رکھا قدیم فرنیچر ، دیواروں پر سجی نوابوں کی تصویریں اور دیگر نوادرات۔گائیڈ عمارت کے مختلف حصوں کی سیر کرانے کے ساتھ ساتھ محل کی تاریخ سے بھی ہمیں آگاہ کرتا رہا۔
آخر میں وہ ہمیں محل کی بنیادوں کی طرف لے گیا کہ جہاں بہت سی سرنگیں موجود تھیں۔اس نے ہمیں بتایا کہ زمانہ قدیم میں ان سرنگوں میں پانی بہا کرتا تھا اور محل کے جس سمت سے بھی ہوا چلتی وہ ان سرنگوں میں بہتے پانی کی ٹھنڈک کو اپنے ساتھ لے کر محل کی عمارت کے فرش میں بنائی گئی جالیوں سے ہوکر اندر پہنچتی اور پورے محل کی فضا کو خوشگوار کر دیتی۔گائیڈ نے یہ قصہ سنایا تو ماضی کی داستان صرف تصور کی حد تک ہی خوشگوار محسوس ہوئی ، حال کی کیفیت یہ تھی کہ سرنگیں بالکل خشک ، کسی سمت سے ہوا کا ہلکا سا جھونکا بھی اندر داخل نہ ہوتا تھا۔ دن بھر کی گرمی کی تپش سرنگوں میں بہتی تھی،ایسا شدید حبس کہ محل کی بنیادوں میں موجود ان سرنگوں میں ہمارا دم گھٹنے لگا۔
ایک طرف گائیڈ کی بے چارگی کہ اپنی ڈیوٹی نبھانے کے لئے سوٹ بوٹ کی قید بھگتنے اورادھر ہم کہ محل کی سیر کے شوق میں گھومنے پھرنے پر مجبور۔گائیڈ کے چہرے پر نظر پڑی تو پسینے میں شرابور، ہمسفر کو دیکھا تو بجائے اس کے کہ محل کی سیرکی خوشی صورت سے عیاں ہو،پریشانی اور الجھن چہرے پر بکھری ہوئی۔ یہ کیفیت دیکھی تو اپنا شوق بھی جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ماند تو ہوہی رہا تھا یکدم سے دم توڑ گیا۔ گائیڈ کی سیر حاصل گفتگو کے دوران میں اب تک زیادہ تر خاموش ہی تھا یا ہلکی پھلکی ہوں ہاں سے ہی کام چلا رہا تھا، دم گھٹنے سے گھبرایا تو بے اختیاربول پڑا۔
"بھائی ،سرنگوں میں پانی بہنے اورٹھنڈی ہواؤں کے قصے توخواب ہوئے ، یہ بتاؤ کہ فی الوقت سانس لینے کے لئے ہوا کہاں سے دستیاب ہوگی ؟ "
میری کیفیت دیکھ کر وہ صرف بے چارگی سے مسکرادیا۔
فوری طور پر سرنگوں سے نکل کر اوپر کا رخ کیا۔ سیر کا وقت ختم ہوجانے کے باوجود ہماری خاطرخود کو سوٹ بوٹ کی زنجیروں میں جکڑنے پر گائیڈ سے معذرت چاہی اوراس کے خصوصی شکر گزار ہو کر تیزی سے محل کی عمارت سے باہر نکل آئے ، سبزہ زار میں پہنچ کر زور زور سے ہوا کو کھینچ کھانچ کر پھیپھڑوں تک پہنچا نےکی کوشش کرنے لگے۔
جس نواب نے اپنی پیاری ملکہ نور کے لئے یہ محل بنایا تھا وہ صرف ایک رات یہاں گزارنے کے بعد اگلی صبح چھت پر سے محل کے قریب دکھائی دیتے قبرستان کو دیکھ کر اتنی گھبراگئی تھی کہ محل میں رہنے سے ہی انکار کر دیا تھا۔ اسی محل میں آج کی شب کے اس پہلے پہر حبس کی شدت سےمیں اتنا گھبرایا کہ فوری طور پر اپنی ملکہ کے ہمراہ محل سے نکل کر ہوٹل کا رخ کرنے میں ہی عافیت جانی۔