[RIGHT]تیسرا دن
ڈیم ۔۔۔ آبشار ۔۔۔ اور گرج چمک
کلر کہار جھیل ابھی محو خواب تھی ۔۔ آسمان بدستور سیاہ چادر اوڑھے ہوئے تھا کہ جب ہم نماز فجر کے بعد بہت
سویرے ساڑھے چار بجے اپنے ہوٹل کی پارکنگ سے نکل رہے تھے۔ صبح کا یہ سکوت رات کی خاموشی سے بھی
زیادہ گہرا تھا کیونکہ سب دکانیں اور ہوٹل بند تھے ۔ سڑک پر صرف ان ہوٹلز کے باہر لگی لائٹوں کی روشنی تھی یا ہماری
گاڑی کی ہیڈ لائیٹ جو جھیل کنارے سے موٹروے کی طرف جاتی اس تنگ سی سڑک پرپڑتی تھی۔ ٹول پلازہ سے
ہوتے ہوئے ہم موٹروے پر داخل ہوئے۔ رفتار میں اضافہ ہوا تو اس سفر کے دوران پہلی دفعہ ہوا کی ٹھنڈک نے ہمیں
اپنے شیشے بند کرنے پر مجبور کر دیا۔
ِِِّتربیلا کب تک پہنچ جائیں گے ؟ ہم سفر نے استفسار کیا
انشاء اللہ ناشتہ وہیں پہنچ کر کریں گےـ
اتنی صبح موٹروے پر ڈرائیونگ کا لطف ہی اور تھا۔ آسمان پر صبح کی سفیدی پھیلنا شروع ہو گئی تھی۔ کلر کہار کا
سناٹا ہمارے ساتھ ساتھ موٹروے تک آ گیا تھا۔ کبھی کبھی کوئی اکا دکا گاڑی نظر آجاتی تھی۔ دو دنوں تک گرمی سے
دو دو ہاتھ کرنے کے بعد ہلکی ہلکی خنکی کا یہ احساس انتہائی فرحت بخش تھا۔ سامنے سیدھی ہموار اور
کشادہ موٹروے کی کسی لین پر کبھی تاحد نظر کوئی گاڑی نہ ہوتی اور نہ ہی ہمارے عقب میں ۔ ایسے میں صبح کی
ٹھنڈی سفید روشنی میں ہمیں ایسا محسوس ہو تا کہ ہم زمین سے نکل کہیں دو کہکشائوں کے بیچ ستاروں کی
کسی ملکی وے پر اڑتے چلے جا تے ہوں۔ ہمارا صبح کا یہ سفر انتہائی ناقابل فراموش اور یادگار تھا۔ ان پہاڑی
وادیوں کے بیچ بہتے پہلے بارانی دریا دھراب سے گزرتے ہوئے ہم نے بلکسر انٹر چینج کو کراس کیا جہاں
سے تلہ گنگ اور چکوال کیلئے راستے نکلتے ہیں۔ یہاں سے تیس کلومیٹر کا فاصلہ مزید طے کرکے ہم نے دوسرے
بارانی دریا پانیاند کو عبور کیا تو سورج طلوع ہونے کی تیاری کر رہا تھا۔ ہمارے بالکل سامنے موٹروے دور آسمان
سے ملاپ کرتی نظر آرہی تھی جہاں آسمان کی سرخی تیز سے تیز تر ہوتی جارہی تھی اور پھر بالکل موٹروے کے
اوپر سورج ایک سرخ سکے کی طرح چمکتا ہوا باہر آگیا۔ طلوع آفتاب کا یہ منظر بہت ہی دلکش تھا۔ موٹروے کے
دونوں اطراف کبھی چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں اور کبھی دور تک پھیلی ہوئی پہاڑی وادیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔
کچھ ہی منٹ بعد ہم دریائے سوان کے پل پر سے گزرے۔ گھنٹوں کا سفر موٹروے پر منٹوں میں طے ہو رہا تھا۔
دریائے سوان کا پل عبور کرنے کے صرف ایک کلومیٹر بعد ہی ہم چکری انٹر چینج سے گزرے اور پھر مزید 10 کلومیٹر
بعد جب ہم دریائے سل کے پل کے قریب پہنچے تو ابھی صرف صبح کے ساڑھے 5 بجے تھے اور ہم کلر کہار کے
ہوٹل سے یہاں تک تقریباً 85 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر چکے تھے۔ یہاں سے مزید 27 کلومیٹر طے کر کے جب ہم
اسلام آباد انٹر چینج سے گزرے تو ابھی چھ بجنے میں دس منٹ باقی تھے۔ اب ہمارا سفر اسلام آباد سے پشاور جانے
والی موٹروے پر شروع ہو گیا تھا۔ اسلام آباد کی دور تک پھیلی ہوئی آبادی موٹروے
کے دونوں اطراف کافی دور تک ہمارے ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ اسلام آباد سے آگے موٹروے پر جانے کا یہ میرا پہلا
اتفاق تھا۔ اس سے قبل راولپنڈی سے آگے شمالی علاقوں کے سب سفر جی ٹی روڈ اور اگر پشاور کے بجائے
حسن ابدال سے ایبٹ آباد کی طرف مڑ جائیں تو شاہراہ قراقرم پر کیے تھے۔ موٹروے کے دونوں اطراف کے یہ سب
مناظر ہمارے لئے نئے تھے۔ نئے راستے اور نئے مناظر ہمیشہ سے میرے لئے بہت باعث کشش رہے ہیں سو میں ان
مناظر کی کشش میں کھویا ہوا ڈرائیو کرتا رہا۔ اسلام آباد انٹر چینج سے تقریباً 34 کلومیٹر کے بعد براہما باہتر انٹر چینج
پہنچے جہاں سے پشاور کی طرف جاتے ہوئے موٹروے کے دائیں طرف واقع واہ کینٹ کیلئے راستہ نکلتا ہے۔
اس انٹر چینج سے صرف بارہ کلومیٹر آگے جی ٹی روڈ اور حسن ابدال کیلئے موٹروےکو چھوڑنا پڑتا ہے۔ اگر ہمارا
ارادہ تربیلا جانے کا نہ ہوتا تو ہم یہیں سے موٹروے چھوڑ کر نیچے سے گزرتی جی ٹی روڈ سے دائیں طرف چند
کلو میٹر کے فاصلے پر واقع حسن ابدال پہنچتے اور شاہراہ قراقرم پر رواں دواں ہو جاتے۔ ہم نے اس مقام سے موٹروے پر
ہی مزید چند کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے غازی بروتھا کینال کا پل عبور کیا اور اس کے آگے مزید 4 کلومیٹر بعد صبح کے
چھ بج کر بیس منٹ پر چھچھ انٹر چینج سے تربیلا کیلئے نکلنے والے راستے پر جانے کیلئے موٹروے سے باہر نکل
آئے ۔ کلر کہار سے یہاں تک 165 کلومیٹر کا فاصلہ ہم نے موٹروے پر صرف پونے دو گھنٹے میں طے کر
لیا تھا۔ یہاں سے تربیلا ڈیم تک جانے کیلئے ہم موٹروے کے نیچے سے ہو کر دائیں سمت جانے والی تربیلا روڈ پر
روانہ ہوئے۔ ابھی تک ہم پنجاب کی حدود میں تھے لیکن اسی روڈ پر تربیلا کی طرف جاتے ہوئے تقریباً آٹھ کلومیٹر بعد
جھاریاں چیک پوسٹ کے مقام پر ہم نے پونے سات بجے صبح سے قبل ہی پنجاب کو خیر آباد کہہ دیا اور خیبر
پختونخواہ میں داخل ہو گئے۔ خیبر پختونخواہ میں داخل ہوتے ہی ہمیں بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ایسا سی این جی پمپ نظر
آیا جہاں سی این جی دستیاب تھی۔ سی این جی سے ہم سندھ کی حدود تک بھی مستفید ہوئے تھے لیکن پورے پنجاب
میں سی این جی پمپس تو بہت ملے لیکن سب وہاں کے شیڈول کے مطابق بند تھے۔ ہم مختلف چھوٹی چھوٹی آبادیوں
کے درمیان سفر کرتے ہوئے غازی کے قصبے میں پہنچ گئے جو اس تربیلا روڈ پر ڈیم سے پہلے کا آخری قصبہ ہے
[/RIGHT]