[right] بسم اللہ الرحمن الرحیم
آخر کار سارے سامان کو بائیک کی زینت بنایا گیا۔ سامان باندھنے کے لیے شاھد صاحب پیراشوٹ سے بنی سٹرپ کے رول لائے۔ جس سے سامان اچھی طرح باندھا گیا۔ سامان پیک اور باندھنے کے دوران اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا۔ کہ بارش,پنکچر اور ایمرجنسی کی صورت میں متعلقہ سامان پر دسترس جلد ھو جائے۔ بارش سے بچاو کے لئے پولی تھین اس سائز کا رکھا جو کہ بائیک اور سامان کو ڈھانپ سکے۔ اپنے لئے برساتیاں بھی بیگ کے اوپر والے حصوں میں ڈالیں۔پنکچرکٹ اور کوکنگ کٹ کو شاھد صاحب کی بائیک کی سائیڈ پر فٹ کیا گیا۔ حسان کی بائیک پر میڈیکل کٹ فٹ کی گئی۔
تینوں بائیک پر سامان کی فٹنگ کی ذمہ داری شاھد بھائی کے حصہ میں آئی۔
کیونکہ سابقہ سفر کے تجربات کی روشنی میں یہ ٹھوس حقیقت سامنے آئی کہ شاھد صاحب کا باندھا ھوا سامان منزل پر پہنچ کر ھی اترتا ھے۔ اس سے پہلے نہ گرتا ھے۔ اور نہ ھی ڈھیلا ھوتا ھے۔اور یہ ذمہ داری شاھد صاحب جس خوش دلی سے کرتے تھے۔ اس کے بدلہ میں ھم دونوں ان کے لیےصرف دعائیں ھی کرسکتے تھے۔ اور وہ کر کے ھر جگہ سامان بندھوا لیتے تھے۔
سفر سے پہلے شاھد بھائی کی فرمائش پر میں نے دوران سفر ھاتوں کے اشاروں کی تفصیل, ھیڈ لائٹ کی لائٹ سے اگلے سوار کو اپنے موقف کی اگہی, ہارن بجانے کے کوڈ اور سفر کے دوران کوئی سوار اگر اگے یا پیچھے رہ جائے تو کیا کرے اس کے متعلق رھنمائی کی۔
اس رھنمائی کا فائدہ ھم نے بارھا دفعہ اٹھایا۔
بائیک پر سامان باندھنے کے بعد سب نے دعا کے لئے ھاتھ اٹھائے۔ کہ سب حفاظتی تدبیریں اپنی جگہ اپنے آپ کو مالک کل کے حوالے کرنا اپنی جگہ۔
دعا کے بعد اپنے اپنے گھر والوں کو سفر کے آغاز کی اطلاع دی۔ اور دعاوں کی درخواست کی۔
نزدیکی پٹرول پمپ سے پٹرول ڈلوا کر میٹر کی ریڈنگ کی پکچر لی۔ اور اپنے موبائل میں ٹرپ کی ریکارڈنگ سے متعلقہ ایپ میں اس کا اندراج کیا۔ 7 بجے کے قریب سفر کا آغاز اللہ کے پاک نام سے شروع کیا۔ رات کے وقت سفر کے پیشں نظر پہلے سٹاپ کا انتخاب کیا ۔ کہ کوئی ساتھی اگر اگے نکل جائے تو طے شدہ سٹاپ پر باقی ساتھیوں کا انتظار کرے۔
گجرانوالہ نکلنے کے بعد شاھد صاحب نے طے شدہ ترتیب سے ڈپر دینے شروع کئے ۔ جس کا مطلب رکنا تھا۔ نزدیکی پمپ پر بائیک روکی گئی۔
شاھد صاحب نے بندھے سامان کو اچھی طرح چیک کیا۔ اور سفر پھر شروع ھوا۔ پہلے وقفہ کی بریک میاں جی ریسٹورنٹ پر لگائی گئی۔ چائے کا آرڈر یک نہ شد دو شد کے مترادف دو دفعہ اس آواز کے ساتھ دیا گیا کہ میٹھا روک کے اور پتی ٹھوک کے۔ اور اس دوگانہ کپوں کو سب نے دو دفعہ پیا۔
اس کے بعد اگلی بریک راولپنڈی میں اپنے بڑھے بھائی کے گھر لگائی۔ رات کا پر تکلف کھانا ان کے گھر کھایا۔ اور اس کے بعد گھوڑے نہیں پورا اصطبل اونے پونے داموں بیچ کرسو گئے۔
صبح اٹھ کر ناشتہ کیا اور رخت سفر باندھا۔
پنڈی سے نکل کر مری ایکسپرس وے سے پہلے حسان کا چین ٹائٹ کروایا اور مری ایکسپریس کی آرام دہ سڑک کا بھرپور مزا لیا۔
حالانکہ میں پرانے راستے سے جانے کے حق میں تھا۔ کہ وہ زیادہ خوبصورت اور پرانی یادوں سے پر تھا۔
لیکن دوستوں کے اسرار اور مشورے پر ایکسپریس وے کا انتخاب کیا۔ مشورے میں خیر ھوتی ھے۔ سفر کے ابتدا میں ھی میں نے حسان کو سفر کا امیر بنا دیا۔ اور شاھد صاحب کو فنانس کی زمہ داری سونپی گئی۔
رکتے رکاتے مظفر آباد سے پہلے دریا کے پار والی آبشار اور کیبل کار والے پواینٹ پر پہنچ گئے۔
پہلے یہ فیصلہ ہوا کے دریا کے پار جاتے ھیں۔ لیکن لیٹ ھونے کی وجہ سے کچھ دیر رکنے کے بعد دوبارہ سفر کا آغاز کیا۔اور مظفر آباد پہنچ گئے۔
میپ پر نیلم ویلی روڈ کو دیکھتے ھوئے اس سڑک پر بائیک ڈال دی۔ مظفرآباد سے نکلے کے بعد ساری بائیکوں کا آئل چینج کروایا۔ جس جگہ بھی بائیک روکتے لوگوں کا رش لگ جاتا جو نئی بائیک کو دیکھ کرایک ھی طرح کے سوالات کرتے۔ اور ھم بھی خوشدلی سے ان کے جوابات دیتے۔
مظفر آباد سے نکلنے کے بعد کنڈل شاھی تک دریا کے ساتھ ساتھ سفر رات کی تاریکی میں کیا۔ راستے میں دکھائی دینے والے سائن بورڈز کی مدد سے متعلقہ علاقے کا پتہ چلتا۔ کشمیر کا یہ سفر دن کے اجالے میں کرنا چاھیے تاکہ فطرت کے ان نظاروں کو دیکھ کر اس کے بنانے والے کی یاد آئے۔
مظفر آباد کے بعد پہلی بریک کنڈل شاھی میں لگائی۔ اور ویلی ویو ھوٹل کے پورے خالی پڑے ھووے کمروں میں سے ایک کمرے کو مبلغ صرف پانچ سو روپے سکہ رائج الوقت کے عوض رونق بخشی۔اورآوٹ سیزن میں سستی رھائش کا فائدہ اپنی جیب کو دیا۔
بائیکوں سے سامان اتارنے کی ذمہ داری اپنی اپنی تھی۔ لہذا اس کام کو کرنے کے بعد دھول سے اپنے وزن کو کم کرنے کے لئے سب نے باری باری باتھ روم کا رخ کیا۔ اور کھانے کے لئے بازار کا رخ کیا۔ بازار تو بند ھو چکا تھا۔ لیکن ایک ھوٹل والے بیف کڑاھی کی صورت میں ھو گیا سے کھانے کا بندوبست
چیونگم نما گوشت پر ھم نے اپنے پورے دانتوں کا زور لگایا۔ اور مزید زور اس لئے نہیں لگایا کہ قدرت کی دی ھوئی اس نعمت کا ھم نے اور کھانوں پر بھی استعمال کرنا ھے۔ لہذا اس کھانے کو کھاکر اللہ کا شکر اداکیا۔ اور واپس اپنے ھوٹل میں اگئے۔
ھوٹل کا مالک نما مینجر کفائیت بھی ھمارا ھی انتظار کر رھا تھا۔ تاکہ خالی پڑھے ھوٹل کی اداسی کو دور کر سکے۔
شاھد صاحب کی فرمائش پر اپنے سٹوو پر سب کو کافی پلائی اور کچھ دیر ٹی وی پر خبریں سننے کے بعد گھوڑوں کا سودا سستے داموں کر کے سو گئے۔
اس مرحلے کی تصاویر ملاحظہ فرمائیں۔ باقی کہانی مرچ مصالحے کے ساتھ چلتی رھے گئی۔
[/right]