بسم اللہ الرحمن الرحیم
کھودا پہاڑ نکلا ہائیڈرو پاور پلانٹ جاگراں
[right]
صبح اٹھنے کے بعد تیار ہونے کے بعد کٹن کی واٹر فال دیکھنے کا ارادہ کیا۔ ہوٹل کے مالک سے اس کی لوکیشن پوچھی۔ اس کے بقول کے اسی روڈ سے اگے جائیں گے۔ تو اگے ٹی جنکشن بنے گا۔سیدھے ھاتھ والی سڑک تاو بٹ کو جاتی ہے۔ اور الٹے ھاتھ والی کٹن کو۔ ھم نے سارا سامان پیک کرکے ھوٹل میں رکھ دیا۔ صرف ڈے پیک, پنکچر کٹ, اور محکمہ خوراک والا بیگ ساتھ لے لیا۔ ھوٹل کے مالک کو ھم نے بتا دیا ۔ کہ ھم ایک گھنٹہ بعد واپس آکر چیک آوٹ کرے گے۔
ہوٹل سے ناشتہ کر کے ہم لوگ کٹن کی راہ لی۔ لوگوں سے راستے کا دورانیہ 20 منٹ کا معلوم ہوا۔
لیکن عجیب بات یہ ھوئی۔ کہ پونا گھنٹہ گزرنے کے باوجود واٹر فال نہ آئی۔ جب کہ وہ اس سڑک کے اوپر ھی تھی۔ لوگوں سے پوچھا کے واٹر فال کہا ھے۔ جس کے جواب میں وہ ہمیں بتاتے کے ابھی کافی سفر اور آگے ہے۔
کرتے کرتے 2 گھنٹے گزر گئے۔ پر واٹر فال نہ آئی۔ ھم کنڈل شاھی سے کافی دور اور تقریبا 13000 فیٹ کی بلندی پر موجود تھے۔ نہ بندہ نہ بندہ کی زات
خیر کافی اور آگے جا کر ایک مقامی شخص سے ملاقات ھوئی اس کے بقول کے 20 منٹ بعد جاگراں آئے گا۔ وھاں پر مین سڑک سے ھٹ کر زیر زمین پہاڑ کے نیچے ھائیڈرو پاور پلانٹ آئے گا۔
ھائیڈرو پاور پلانٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا اللہ یہ کیا۔
ھم تو کٹن کی آبشار دیکھنے آئے تھے۔ اور یہ کہا پہنچ گئے۔ ایک دوسرے کے گرد اور مٹھی سے اٹے منہ دیکھنے کے بعد تحقیق کی تو پتہ چلا کے ہم وہ آبشار جو کے پندرہ منٹ کے فاصلے پر تھی۔ اس کو پیچھے چھوڑ آئے ھیں۔ اور جاگراں ویلیج پہنچ آئے ھیں۔
ھم آبشار کو پیچھے چھوڑ آنے کے بعد جب واٹر فال کا پوچھتے تو لوگ واٹر فال کو ھائیڈرو پلانٹ سمجھ کر ھمیں آگے آگے کرتے رھے۔
خیر اللہ نے ھمیں جاگراں کی حسین ویلی دکھانی تھی۔ جس کو شاید ھم کبھی بھی نہ دیکھ سکے۔
کچھ اور سفر کرنے کے بعد ھم لوگ جاگراں ھائیڈرو پاور پلانٹ کے دروازے پر تھے۔
جاگراں ھائیڈرو پاور پلانٹ زیر پہاڑ بنایا گیا۔ پہاڑ کا پیٹ چاک کر اس میں آدھ کلومیٹر لمبی سرنگ بنائی گئی۔ اور اس کے بعد ایک بہت بڑے ھال میں ٹربائن لگائی گئی ھیں۔ جس سے وھاں بجلی پیدا کی جاتی ھے۔
گارڈ نے ہمارے ساتھ بہت تعاون کیا۔ پہلے تو ھمیں اندر بجھوانے پر راضی نہ ھوا۔ لیکن ھماری موڑ
سائیکل پر لاھور سے آمد اور ھمارا دوستانہ رویہ دیکھ کر اس نے اندر موجود اپنے آفسران سے خصوصی اجازت لی۔ اور ھمیں اندر جانے کی اجازت دے دی۔
ھم تینوں کو کنڈل شاھی سے جاگراں تک کی پر تکھاوٹ سفر کی تکھاوٹ بھول گئی۔ اور ھم خوشی سے زیر زمین موجود ٹرابائن کی خیالاتی تصویر کشی کرنے لگے۔
لیکن خوشی اس وقت کافور ھوگئی۔ جب اس نے کہا کے کیمرہ, موبائل, اور ھر قسم کا سازوں سامان انٹرنس پر ھی جمع کرایا جائے گا۔
خیر ان کے حقوق داخلہ کے پروٹوکول کا اخترام کرتے ھوئے سامان وھی جمع کرایا۔
اور بغیر سازوں سامان کے ھی جاگراں ھائیڈرو پاور پلانٹ کی سیر کی۔
پلانٹ کے اندر جانے کے لئے آدھا کلومیٹر کی زیر پہاڈ سرنگ ھے۔ اس سرنگ میں ھوا اور روشنی کا معقول انتظام تھا۔ اور ہلکی ہلکی ٹھنڈک کا احساس بہت ھی خوشگوار تھا۔ اس کے بعد برا ھال تھا۔ جس میں ٹربائن لگی ہوئی تھی۔
وھاں پر موجود انجنئیر صاحب نے سارے پراجیکٹ کا تفصیلی تعارف کرایا۔اور بہت خوشدلی سے کرایا۔
میں ھے۔
انجینئر صاحب نے بتایا کہ جاگراں سے کچھ آگے گڑیال گاءوں ضرور جائیں۔ جہاں سے اس پلانٹ کو پانی کی سپلائی آتی ھے۔ ان کے بقول کہ اس جگہ کو ضرور وزٹ کریں۔ کیونکہ بہت ھی شازوں ناظر ٹورسٹ اس علاقے میں آتے ھیں۔
کشمیر کا اصل حسن تو مین سڑک سے ھٹ کے جو گاوں ھیں۔ ان میں ھے۔
ھم نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس پوشیدہ پلانٹ اور اس علاقے کو ھم نے اپنے سفر کی یادوں میں سمایا۔
وزٹ کرنے کے بعد مین گیٹ پر واپس آئے تو گارڈ کے ساتھ تصاویر بنائیں۔ گارڈ کی فرمائش پر علاقے کے امام صاحب کو ساتھ بٹھا لیا۔ امام صاحب نے بھی گڑیال جانا تھا۔ اور ھمیں ان کی صورت میں ایک گارڈ میسر آگیا۔
جو لوگ کشمیر کا سفر بائیک یا اپنی گاڑیوں پر کرتے ھیں۔ ان سے درخواست ھے۔ کہ جاگراں اور گڑیال ضرور جائیں۔ لیکن جیپ پر ۔ کار شاید اتنی چڑھائی نہ کرسکے۔
امام صاحب نے علاقے کے بارے میں ہمارے سوالات کے جوابات بڑے اچھے انداز میں دئیے۔
ان کی دی ھوئی معلومات کے مطابق اس علاقے میں لائیٹ نہیں جاتی۔ تعلیم کا نظام بھی ٹھیک ھے۔ علاقے کے مرد حضرات کی کچھ تعداد برف باری کے دنوں میں ملک کے دوسرے حصوں میں محنت مزدوری کرنے چلی جاتی ھے۔ 6 ماہ گرمیوں کے یہ لوگ برف باری کے دنوں میں اپنے اور اپنے جانوروں کے لیے راشن جمع کرتے ھیں۔ علاقے کے لوگوں میں دینی رجحان زیادہ ھے۔ بچیاں بھی سکول جانے کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کرتی ھیں۔
باتیں کرتے کرتے ھم گڑیال پہنچ گئے۔ گڑیال کا روایتی کشمیری بازار دیکھا۔ اور مقامی مسجد میں نماز ادا کی۔ اس کے بعد لکڑ ی سے بنے ھوئے ھوٹل میں مزیدار کھانا کھایا۔ ھوٹل اور مقامی لوگوں نے ھماری آمد پر
خوشی کا اظہار کیا۔ اور درخواست کی کہ ان علاقوں کو بھی ھائی لائیٹ کریں۔ تاکہ اس طرف بھی سیاحت کا رجھان ھو۔
اس کے بعد امام صاحب نے ھمیں ڈیم دکھایا۔ جہاں سے زیر زمین پلانٹ کو پانی جاتا ھے۔ اور گریوٹی کے زریعے نیچے گرتا ھے۔ اور اس سے ٹربائن چلتی ھے۔
اس کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوا۔ ھم تینوں نے اس سفر کا, اس علاقے کا, اور مقامی لوگوں کی محبت کا خوب مزا لیا۔ یوں بے اختیاری میں کئے ھوئے سفر نے زندگی کی اچھی یادوں میں اضافہ کیا۔
واپسی پر بھی اندھیرا ھونے کی وجہ سے آبشار نہ مل سکی۔ اور ھم لوگ واپس ھوٹل پہنچ گئے۔
واپسی پر ھوٹل کے مالک کو بتایا کہ ھم جاگراں کا پلانٹ دیکھنے چلے گئے تھے۔ اس لئے لیٹ ھو گئے۔ اور ایک اور رات کے لئے اس کے خالی پڑھے کمروں میں سے ایک کمرے کو رونق بخشے گئے۔ کھانا مقامی بازار میں ایک بار بی کیو والے کھایا۔ اور لاھوری کھابوں کو یاد کیا۔ کھانے کے معاملے میں لاھو لاھور اے۔
سفر کی تکھاوٹ کی وجہ سے نندیا پور جلدی چلے گئے۔ تاکہ صبح کیل تک کا سفر کر سکے۔
الفاط کے ساتھ تصاویر آپ کو جاگراں کے سفر پر مجبور کریں گی۔
اگلی صبح ھوٹل سے چیک آوٹ کرنے کے بعد ھم لوگوں نے ناشتہ کیا۔ اور آبشار کی درست معلومات لے کر کیل جانے سے پہلے اس دیکھنے چلے گئے۔
کہ شاید دوبارہ ادھر آنا ھوتا ھے۔ کہ نہیں۔
[/right]