راکا پوشی بیس کیمپ تک کے پہاڑی سفر کا آغاز ہو چکا تھا۔۔۔ ایک مدت بعد میں نے بھی ایک مرتبہ پھر کوہ نوردی کے جنون کے آگے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ ایک بل کھاتا زگ زیگ راستہ کہیں بلندیوں میں روپوش ہو رہا تھا اور میں آہستہ آہستہ قدم رکھتا بلند ہوتا جا رہا تھا۔۔۔ میرے نئے امریکی ٹریکنگ شوز میرے پاؤں کے ساتھ مفاہمت نہ کر رہے تھے، انہیں تنگ کر رہے تھے لیکن یہ تکلیف معمولی تھی، برداشت کی حد میں تھی۔۔۔ میرے آگے ڈاکٹر احسن ایک خوش و خرم اونٹ کی مانند جھومتا چلا جا رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ وہ لارڈ بائرن کی مانند ایک پاؤں ذرا گھسیٹ کر چلتا ہے اور اس کے باوجود وہ ہم سب سے بہتر رفتار اور ردھم میں چل رہا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ ڈاکٹر احسن بچپن میں پولیو کا شکار ہوا جس کے نتیجے میں اس کی ایک ٹانگ نسبتاً کمزور ہو گئی۔۔۔ حیرت ہے کہ اس نیم معذوری کو اس نے اپنے حوصلے اور ہمت سے اپنی قوت بنا لیا اور پاکستان کی کوہ نوردی کی تاریخ میں سب سے زیادہ ٹریک کرنے والا شخص بن گیا۔۔۔ اسے دیکھ کر خیال آتا تھا کہ اگر یہ نیم معذوری ہم سب میں ہوتی تو ہم بھی ڈاکٹر احسن کی مانند بہترین کوہ نورد ہوتے۔۔۔ ابھی ہم چھاؤں میں تھے اور دھوپ بلندیوں سے نیچے اتر رہی تھی لیکن بدن پسینے سے بھیگ رہا تھا۔۔۔ ہمیں مشورہ دیا گیا تھا کہ ہم یہ بل کھاتا راستہ جلد از طے کر جائیں ورنہ دھوپ میں اس پر چڑھنا بے حد اذیت ناک ہو گا۔۔۔ اس راستے کے اختتام پر ہمیں نوید ملی تھی کہ ایک سایہ دار جنگل ہے اور برفانی ندیاں رواں ہیں۔۔۔ پھر مجھ پر تھکاوٹ غالب آنے لگی، جی چاہتا تھا کہ گھاس کے کسی قطعے پر لیٹ جاؤں لیکن میں کوہ نوردی کے اس بنیادی اصول سے خوب واقف تھا کہ آپ بے شک کسی پتھر کے ساتھ ٹیک لگا کر سستا لیجئے لیکن بیٹھنے یا لیٹنے سے گریز کیجئے۔۔۔ دوبارہ اٹھ کر چلیں گے تو بدن ٹھنڈا ہو چکا ہو گااور چلنا محال ہو جائے گا۔۔۔ جمیل وقفے وقفے کے ساتھ مجھے پانی یا نمکول پیش کرتا۔۔۔ اور یہ راستہ بس بلند ہوتا جاتا تھا اس کا اختتام کہیں نظر نہ آتا تھا۔ اس کے علاوہ دو گھنٹے کے مسلسل سفرکے باوجود ہمیں ابھی تک نیچے وادی میں پھیلا مناپن اور دریا پار ہنزہ کی وادی نظر آ رہی تھی اور ہم چاہتے تھے کہ کم از کم یہ مقام تو نظروں تے اوجھل ہو جائیں۔۔۔ ہمارا سامان گدھوں پر لدا ہوا اور پورٹر آگے جا چکے تھے۔۔۔ اور ہاں اسرار بے حد اصرار کے ساتھ ہماری مہم میں شریک ہو گیا تھا۔ اس دوران ایک نہایت دلچسپ منظر دیکھنے کو ملا۔۔۔ ریاست نگر کے کسی سکول کے بچے اور بچیاں بندروں کی طرح اچھلتے کودتے نیچے سے چڑھائی چڑھتے چلے آ رہے ہیں، ان کے ہمراہ دو تین خوش رُو استانیاں بھی بھاگی چلی آ رہی تھیں، چونکہ یہ بچے مقامی تھے اس لئے ان پہاڑوں پر بے خطر چڑھنا ان کے لئے معمول کی بات تھی۔۔۔ اور معلوم یہ ہوا کہ یہ سب راکاپوشی کے آس پاس کہیں پکنک منانے کے لئے جا رہے ہیں۔ ان کے ہمراہ کھانا پکانے کے مکمل انتظامات تھے۔۔۔ ایک نسبتاً دراز قد لڑکا سر پر ایک دیگچہ اٹھائے ہوئے تھا، کسی کے ہاتھ میں چاولوں کا تھیلا تھا اور ایک بچہ دیگ میں پھیرنے والا کڑچھا اٹھائے ہوئے تھا۔۔۔ان معصوم روحوں کو یوں بچپن سے لطف اٹھاتے دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔۔۔ اور ہاں پکنک منانے کے بعد انہوں نے شام تک واپس لوٹ جانا تھا۔۔۔ میرا حال کچھ اچھا اگر نہ تھا تو بہت برا بھی نہ تھا، ویسے اگر میں آج سے بیس برس پیشتر اس ٹریک پر آتا تو یہ میرے لئے چنداں دشوار نہ ہوتا کہ باقاعدہ راستہ تھا اور اس راستے میں کوئی خطرناکی بھی نہ تھی۔۔۔ نہ کوئی برفانی دراڑ، نہ کوئی گرجتا دریا، نہ ایسی کوئی ڈھلوان جہاں سے گرو تو سیدھے حضرت عزرائیل کے بازوؤں میں جا گرو۔۔۔ لیکن ان سب سے خطرناک بندے کی عمر ہوتی ہے کہ اس کی خوفناکیوں سے فرار نہیں حاصل ہو سکتا۔۔۔ بالآخر ہم اس آسمانی زینے کی آخری سیڑھی طے کر کے ایک درختوں میں گھرے راستے پر آ گئے اور یہاں واقعی برفانی ندیاں بہتی تھیں اور گھاس بھرے سایہ دار پانی کی قربت میں ایسے دلکش کُنج تھے جنہیں دیکھ کر ہر کوئی کسی نہ کسی عشق خاص کے خواب دیکھنے لگتاکہ اگر وہ اس کُنج میں میرے پہلو میں ہوتا تو یہ فردوس بر رُوئے زمیں ہوتا یا شاید بڑھ کر ہوتا۔۔۔ یہ راستہ بھی کچھ ایسا آسان نہ تھا، کہیں کہیں شدید چڑھائی سامنے آ جاتی اور کہیں بڑے بڑے چٹانی پتھر جو راستے میں حائل ہوتے بہرحال اگر یہاں سے مویشی گزر سکتے تھے تو ہم بھی تو جانور تھے اگرچہ بولنے والے جانور تھے۔ دوپہر ہو رہی تھی اور ٹانگیں لاجواب ہو رہی تھیں یعنی جواب دیتی جا رہی تھیں اور میں کوہ نوردی کے دوران سب سے زیادہ پوچھا جانے والے سوال??کتنی دور ہے۔۔۔ کتنی دور ہے?? کی گردان کر رہا تھا اور حسب معمول جواب آ رہا تھا ??تھوڑی دور ہے۔۔۔ تھوڑی دور ہے?? اور وہ پُرفضا مقام آ ہی گیا جہاں ہم نے دوپہر کے کھانے کے لئے رکنا تھا۔۔۔ ہری کچور گھاس پر درختوں کے سائے گھنے ہوتے اور برابر میں ایک شیشہ ندی کے خنک پُرشور پانی۔۔۔ سکول کے وہ پکنک کے لئے نکلے ہوئے بچے بھی وہاں کچھ دیر رُکے اور پھر اپنے دیگچوں کو طبل جنگ کی طرح بجاتے قلانچیں بھرتے بلندی کی جانب رواں ہو گئے۔ ہم نے آملیٹ اور پراٹھوں کا لنچ کیا، چائے پی اور گھاس پر لیٹ گئے بلکہ لَم لیٹ گئے یعنی لمبے لیٹ گئے۔۔۔ جی چاہا کہ بس آج کی شب کے لئے یہیں ڈیرے ڈال لئے جائیں لیکن اسرار کا کہنا تھا کہ آج کے لئے ہماری کیمپ سائٹ کچھ زیادہ دور نہیں، ہم دو گھنٹے سے بھی کم وقت میں وہاں پہنچ جائیں گے اور اس نے ہاتھ کے اشارے سے ایک بلند سطح کی جانب اشارہ کیا ??بس وہاں تک جانا ہے??۔
یہ بس وہاں تک بھی چڑھائی کی وجہ سے جان لیوا ثابت ہوا۔۔۔ البتہ راستے میں وہ کُنج بہت آئے جو ہمیں عمر خیام کی یاد دلاتے تھے کہ کنارِ آب جُو، محبوب، شعروں کی ایک کتاب اور شراب۔ اب یہاں کنارِ آب جُو کی سہولت تو موجود تھی لیکن بقیہ غیرشرعی سہولتوں کا بندوبست قدرے دشوار تھا یعنی آپ شاعری کا دیوان بغل میں داب کر لا سکتے تھے، مئے لالہ نام کا ایک مشکیزہ بھی کاندھے پر ڈال کر لایا جا سکتا تھا لیکن ایک محبوب کو آپ کیسے آمادہ کریں گے کہ جان من آؤ میں تمہیں راکاپوشی کے ایک رومانوی کُنج میں لے چلوں۔ اگرچہ چڑھائی تمہارے نزک بدن کو گراں گزرے تو گدھے پر بٹھا کر لے جاؤں گا۔۔۔ محبوب ایسی پیشکش پر یقیناًطیش میں آ کر جھانپڑ رسید کر دے گا ورنہ فِٹے مُنہ کہہ کر ہمیشہ کے لئے داغ مفارقت دے جائے گا۔۔۔ اس نوعیت کے احمقانہ خواب و خیال کوہ نوردی کے دوران بے حد مفید ثابت ہوتے ہیں، راستے کی دشواریاں آسان ہو جاتی ہیں۔۔۔ ایک اور کُتّی چڑھائی سامنے آ گئی جس نے رہا سہا دم بھی نکال دیا۔۔۔ ہم آخری دموں پر تھے جب کیا دیکھتے ہیں پہلی بار راکا پوشی نظروں کے سامنے ظاہر ہو رہی ہے اور ایک کھلے میدان میں ہمارے خیمے نصب ہو چکے ہیں، مجھے دیکھ کر میرے کوہ نورد ساتھیوں نے غیرمعمولی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے میری آمد پر خوب تالیاں بجائیں بلکہ اسرار نے جنگلی پھولوں کا ایک دستہ بھی پیش کیا اور تب کامران کہنے لگا ??سَر جی آپ مائنڈ نہ کرنا لیکن ہمیں یقین تھا کہ آپ کم از کم اپنے قدموں پر تو یہاں تک نہیں پہنچ سکیں گے۔۔۔ بلکہ راستے میں ہی کہیں ڈھیر ہو جائیں گے۔۔۔ سر جی ابھی آپ بوڑھے نہیں ہوئے۔۔۔ مبارک ہو!?? کیسے ناہنجار ساتھی نصیب ہوئے تھے۔۔۔ چونکہ ابھی سورج غروب پر آمادہ نہ تھا، دھوپ تیز اور کٹیلی تھی، خیمے آگ ہو رہے تھے کہ بلندی کی دھوپ جلا کر رکھ دیتی ہے چنانچہ ہم نزدیکی جنگل میں جا بیٹھے اور آرام کیا۔
کیمپنگ سائٹ کے آخرمیں دو پتھریلی کھنڈر چار دیواریاں تھیں، انہیں ترپال سے ڈھانک کر ایک کچن بنایا گیا اور رات کا کھانا ہم نے وہیں کھایا، یہ اسرار کے ہاتھوں سے تخلیق کردہ نہایت شاندار ڈشیں تھیں، چکن چاؤ مین سب سے بڑھ کر ذائقے والی۔
باہر راکاپوشی کی برفوں میں جیسے ابھی پوشیدہ تھا اور ابھی ظاہر ہو گیا اور یہ تیرھویں کا دمکتا سنہری تھال چاند تھا۔ فوٹوگرافر حضرات خاص طور پر اسے دیکھ کر ہیجان میں آ گئے۔ ندیم خاور گیسو دراز ایک عالم وجد میں تھا، مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا ??ہائے ہائے تارڑ صاحب آپ کو پتہ ہے کہ کل شب ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟
??کیا ہونے والا ہے؟??
??ہم پاگل ہو جائیں گے سَر۔۔۔ کل ہم راکاپوشی کے بیس کیمپ میں ہوں گے اور کل چودھویں کی رات ہو گی اور پورا چاند ہو گا۔۔۔ ہم تو پاگل ہو جائیں گے سَر اور آپ۔۔۔ آپ تو پہلے سے ہی کچھ کچھ ہیں، مزید ہو جائیں گے??۔
راکا پوشی بیس کیمپ تک کے پہاڑی سفر کا آغاز ہو چکا تھا۔۔۔ ایک مدت بعد میں نے بھی ایک مرتبہ پھر کوہ نوردی کے جنون کے آگے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ ایک بل کھاتا زگ زیگ راستہ کہیں بلندیوں میں روپوش ہو رہا تھا اور میں آہستہ آہستہ قدم رکھتا بلند ہوتا جا رہا تھا۔۔۔ میرے نئے امریکی ٹریکنگ شوز میرے پاؤں کے ساتھ مفاہمت نہ کر رہے تھے، انہیں تنگ کر رہے تھے لیکن یہ تکلیف معمولی تھی، برداشت کی حد میں تھی۔۔۔ میرے آگے ڈاکٹر احسن ایک خوش و خرم اونٹ کی مانند جھومتا چلا جا رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ وہ لارڈ بائرن کی مانند ایک پاؤں ذرا گھسیٹ کر چلتا ہے اور اس کے باوجود وہ ہم سب سے بہتر رفتار اور ردھم میں چل رہا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ ڈاکٹر احسن بچپن میں پولیو کا شکار ہوا جس کے نتیجے میں اس کی ایک ٹانگ نسبتاً کمزور ہو گئی۔۔۔ حیرت ہے کہ اس نیم معذوری کو اس نے اپنے حوصلے اور ہمت سے اپنی قوت بنا لیا اور پاکستان کی کوہ نوردی کی تاریخ میں سب سے زیادہ ٹریک کرنے والا شخص بن گیا۔۔۔ اسے دیکھ کر خیال آتا تھا کہ اگر یہ نیم معذوری ہم سب میں ہوتی تو ہم بھی ڈاکٹر احسن کی مانند بہترین کوہ نورد ہوتے۔۔۔ ابھی ہم چھاؤں میں تھے اور دھوپ بلندیوں سے نیچے اتر رہی تھی لیکن بدن پسینے سے بھیگ رہا تھا۔۔۔ ہمیں مشورہ دیا گیا تھا کہ ہم یہ بل کھاتا راستہ جلد از طے کر جائیں ورنہ دھوپ میں اس پر چڑھنا بے حد اذیت ناک ہو گا۔۔۔ اس راستے کے اختتام پر ہمیں نوید ملی تھی کہ ایک سایہ دار جنگل ہے اور برفانی ندیاں رواں ہیں۔۔۔ پھر مجھ پر تھکاوٹ غالب آنے لگی، جی چاہتا تھا کہ گھاس کے کسی قطعے پر لیٹ جاؤں لیکن میں کوہ نوردی کے اس بنیادی اصول سے خوب واقف تھا کہ آپ بے شک کسی پتھر کے ساتھ ٹیک لگا کر سستا لیجئے لیکن بیٹھنے یا لیٹنے سے گریز کیجئے۔۔۔ دوبارہ اٹھ کر چلیں گے تو بدن ٹھنڈا ہو چکا ہو گااور چلنا محال ہو جائے گا۔۔۔ جمیل وقفے وقفے کے ساتھ مجھے پانی یا نمکول پیش کرتا۔۔۔ اور یہ راستہ بس بلند ہوتا جاتا تھا اس کا اختتام کہیں نظر نہ آتا تھا۔ اس کے علاوہ دو گھنٹے کے مسلسل سفرکے باوجود ہمیں ابھی تک نیچے وادی میں پھیلا مناپن اور دریا پار ہنزہ کی وادی نظر آ رہی تھی اور ہم چاہتے تھے کہ کم از کم یہ مقام تو نظروں تے اوجھل ہو جائیں۔۔۔ ہمارا سامان گدھوں پر لدا ہوا اور پورٹر آگے جا چکے تھے۔۔۔ اور ہاں اسرار بے حد اصرار کے ساتھ ہماری مہم میں شریک ہو گیا تھا۔ اس دوران ایک نہایت دلچسپ منظر دیکھنے کو ملا۔۔۔ ریاست نگر کے کسی سکول کے بچے اور بچیاں بندروں کی طرح اچھلتے کودتے نیچے سے چڑھائی چڑھتے چلے آ رہے ہیں، ان کے ہمراہ دو تین خوش رُو استانیاں بھی بھاگی چلی آ رہی تھیں، چونکہ یہ بچے مقامی تھے اس لئے ان پہاڑوں پر بے خطر چڑھنا ان کے لئے معمول کی بات تھی۔۔۔ اور معلوم یہ ہوا کہ یہ سب راکاپوشی کے آس پاس کہیں پکنک منانے کے لئے جا رہے ہیں۔ ان کے ہمراہ کھانا پکانے کے مکمل انتظامات تھے۔۔۔ ایک نسبتاً دراز قد لڑکا سر پر ایک دیگچہ اٹھائے ہوئے تھا، کسی کے ہاتھ میں چاولوں کا تھیلا تھا اور ایک بچہ دیگ میں پھیرنے والا کڑچھا اٹھائے ہوئے تھا۔۔۔ان معصوم روحوں کو یوں بچپن سے لطف اٹھاتے دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔۔۔ اور ہاں پکنک منانے کے بعد انہوں نے شام تک واپس لوٹ جانا تھا۔۔۔ میرا حال کچھ اچھا اگر نہ تھا تو بہت برا بھی نہ تھا، ویسے اگر میں آج سے بیس برس پیشتر اس ٹریک پر آتا تو یہ میرے لئے چنداں دشوار نہ ہوتا کہ باقاعدہ راستہ تھا اور اس راستے میں کوئی خطرناکی بھی نہ تھی۔۔۔ نہ کوئی برفانی دراڑ، نہ کوئی گرجتا دریا، نہ ایسی کوئی ڈھلوان جہاں سے گرو تو سیدھے حضرت عزرائیل کے بازوؤں میں جا گرو۔۔۔ لیکن ان سب سے خطرناک بندے کی عمر ہوتی ہے کہ اس کی خوفناکیوں سے فرار نہیں حاصل ہو سکتا۔۔۔ بالآخر ہم اس آسمانی زینے کی آخری سیڑھی طے کر کے ایک درختوں میں گھرے راستے پر آ گئے اور یہاں واقعی برفانی ندیاں بہتی تھیں اور گھاس بھرے سایہ دار پانی کی قربت میں ایسے دلکش کُنج تھے جنہیں دیکھ کر ہر کوئی کسی نہ کسی عشق خاص کے خواب دیکھنے لگتاکہ اگر وہ اس کُنج میں میرے پہلو میں ہوتا تو یہ فردوس بر رُوئے زمیں ہوتا یا شاید بڑھ کر ہوتا۔۔۔ یہ راستہ بھی کچھ ایسا آسان نہ تھا، کہیں کہیں شدید چڑھائی سامنے آ جاتی اور کہیں بڑے بڑے چٹانی پتھر جو راستے میں حائل ہوتے بہرحال اگر یہاں سے مویشی گزر سکتے تھے تو ہم بھی تو جانور تھے اگرچہ بولنے والے جانور تھے۔ دوپہر ہو رہی تھی اور ٹانگیں لاجواب ہو رہی تھیں یعنی جواب دیتی جا رہی تھیں اور میں کوہ نوردی کے دوران سب سے زیادہ پوچھا جانے والے سوال??کتنی دور ہے۔۔۔ کتنی دور ہے?? کی گردان کر رہا تھا اور حسب معمول جواب آ رہا تھا ??تھوڑی دور ہے۔۔۔ تھوڑی دور ہے?? اور وہ پُرفضا مقام آ ہی گیا جہاں ہم نے دوپہر کے کھانے کے لئے رکنا تھا۔۔۔ ہری کچور گھاس پر درختوں کے سائے گھنے ہوتے اور برابر میں ایک شیشہ ندی کے خنک پُرشور پانی۔۔۔ سکول کے وہ پکنک کے لئے نکلے ہوئے بچے بھی وہاں کچھ دیر رُکے اور پھر اپنے دیگچوں کو طبل جنگ کی طرح بجاتے قلانچیں بھرتے بلندی کی جانب رواں ہو گئے۔ ہم نے آملیٹ اور پراٹھوں کا لنچ کیا، چائے پی اور گھاس پر لیٹ گئے بلکہ لَم لیٹ گئے یعنی لمبے لیٹ گئے۔۔۔ جی چاہا کہ بس آج کی شب کے لئے یہیں ڈیرے ڈال لئے جائیں لیکن اسرار کا کہنا تھا کہ آج کے لئے ہماری کیمپ سائٹ کچھ زیادہ دور نہیں، ہم دو گھنٹے سے بھی کم وقت میں وہاں پہنچ جائیں گے اور اس نے ہاتھ کے اشارے سے ایک بلند سطح کی جانب اشارہ کیا ??بس وہاں تک جانا ہے??۔
یہ بس وہاں تک بھی چڑھائی کی وجہ سے جان لیوا ثابت ہوا۔۔۔ البتہ راستے میں وہ کُنج بہت آئے جو ہمیں عمر خیام کی یاد دلاتے تھے کہ کنارِ آب جُو، محبوب، شعروں کی ایک کتاب اور شراب۔ اب یہاں کنارِ آب جُو کی سہولت تو موجود تھی لیکن بقیہ غیرشرعی سہولتوں کا بندوبست قدرے دشوار تھا یعنی آپ شاعری کا دیوان بغل میں داب کر لا سکتے تھے، مئے لالہ نام کا ایک مشکیزہ بھی کاندھے پر ڈال کر لایا جا سکتا تھا لیکن ایک محبوب کو آپ کیسے آمادہ کریں گے کہ جان من آؤ میں تمہیں راکاپوشی کے ایک رومانوی کُنج میں لے چلوں۔ اگرچہ چڑھائی تمہارے نزک بدن کو گراں گزرے تو گدھے پر بٹھا کر لے جاؤں گا۔۔۔ محبوب ایسی پیشکش پر یقیناًطیش میں آ کر جھانپڑ رسید کر دے گا ورنہ فِٹے مُنہ کہہ کر ہمیشہ کے لئے داغ مفارقت دے جائے گا۔۔۔ اس نوعیت کے احمقانہ خواب و خیال کوہ نوردی کے دوران بے حد مفید ثابت ہوتے ہیں، راستے کی دشواریاں آسان ہو جاتی ہیں۔۔۔ ایک اور کُتّی چڑھائی سامنے آ گئی جس نے رہا سہا دم بھی نکال دیا۔۔۔ ہم آخری دموں پر تھے جب کیا دیکھتے ہیں پہلی بار راکا پوشی نظروں کے سامنے ظاہر ہو رہی ہے اور ایک کھلے میدان میں ہمارے خیمے نصب ہو چکے ہیں، مجھے دیکھ کر میرے کوہ نورد ساتھیوں نے غیرمعمولی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے میری آمد پر خوب تالیاں بجائیں بلکہ اسرار نے جنگلی پھولوں کا ایک دستہ بھی پیش کیا اور تب کامران کہنے لگا ??سَر جی آپ مائنڈ نہ کرنا لیکن ہمیں یقین تھا کہ آپ کم از کم اپنے قدموں پر تو یہاں تک نہیں پہنچ سکیں گے۔۔۔ بلکہ راستے میں ہی کہیں ڈھیر ہو جائیں گے۔۔۔ سر جی ابھی آپ بوڑھے نہیں ہوئے۔۔۔ مبارک ہو!?? کیسے ناہنجار ساتھی نصیب ہوئے تھے۔۔۔ چونکہ ابھی سورج غروب پر آمادہ نہ تھا، دھوپ تیز اور کٹیلی تھی، خیمے آگ ہو رہے تھے کہ بلندی کی دھوپ جلا کر رکھ دیتی ہے چنانچہ ہم نزدیکی جنگل میں جا بیٹھے اور آرام کیا۔
کیمپنگ سائٹ کے آخرمیں دو پتھریلی کھنڈر چار دیواریاں تھیں، انہیں ترپال سے ڈھانک کر ایک کچن بنایا گیا اور رات کا کھانا ہم نے وہیں کھایا، یہ اسرار کے ہاتھوں سے تخلیق کردہ نہایت شاندار ڈشیں تھیں، چکن چاؤ مین سب سے بڑھ کر ذائقے والی۔
باہر راکاپوشی کی برفوں میں جیسے ابھی پوشیدہ تھا اور ابھی ظاہر ہو گیا اور یہ تیرھویں کا دمکتا سنہری تھال چاند تھا۔ فوٹوگرافر حضرات خاص طور پر اسے دیکھ کر ہیجان میں آ گئے۔ ندیم خاور گیسو دراز ایک عالم وجد میں تھا، مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا ??ہائے ہائے تارڑ صاحب آپ کو پتہ ہے کہ کل شب ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟
??کیا ہونے والا ہے؟??
??ہم پاگل ہو جائیں گے سَر۔۔۔ کل ہم راکاپوشی کے بیس کیمپ میں ہوں گے اور کل چودھویں کی رات ہو گی اور پورا چاند ہو گا۔۔۔ ہم تو پاگل ہو جائیں گے سَر اور آپ۔۔۔ آپ تو پہلے سے ہی کچھ کچھ ہیں، مزید ہو جائیں گے??۔