haroonmcs26
(haroonmcs26)
#82
اگر تحریر میں سے سسپنس ختم ہو جائے تو پڑھنے والے کی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے حسن بھائی۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#83
بلال بھائی شمالی علاقہ جات کا یہ میرا پہلا بائک ٹور تھا۔ گاڑی اور پبلک ٹرانسپورٹ پر تو بہت کیے ہیں۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#84
بارش اور نماز کی وجہ سے ہمیں اسی پمپ پر تقریبا ً ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا تھا اس لئے اس سے آگے ہم بغیر رکے سفر کر رہے تھے۔ گوجرانوالہ کے راستے میں کئی چھوٹے موٹے پل آئے ان پر کئی جگہ پر گڑھے پڑے ہوئے تھے اور بائک کیلئے وہ خطرناک تھے اس لئے تیزی میں ہم احتیاط کا دامن نہیں چھوڑ رہے تھے۔ بائک کی ہیڈ لائٹ کی روشنی نا کافی معلوم ہو رہی تھی اس لئے بائک پر لگی ایکسٹرا ایل ای ڈی لائٹ روشن کر لی تھی اور وہ اچھا ساتھ دے رہی تھی۔ پھر بھی جہاں موٹر وے پولیس کی گاڑی نظر آتی میں ایکسٹرا لائٹ بند کر لیتا کیونکہ میں کسی جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ روڈ کی خرابی کے باوجود ہمارا سفر ممکن حد تک تیزی سے جاری تھی لیکن یہ تیزی ساٹھ کی سپیڈ سے اوپر نہ تھی۔ گوجرانوالہ سے پہلے گول چکر پر پنڈی کی طرف جانے والے دو راستے آتے ہیں ایک تو سیدھا شہر کے اندر سے جاتا ہے اور دوسرا تھوڑا بائیں ہو کر بائی پاس سے گزرتا ہے۔ گیارہ سے زیادہ کا وقت ہو گیا تھا اور بائی پاس والے راستے کی نسبت شہر والے راستے پر رونق تھی اس لئے ہم سیدھا شہر والے راستے کی طرف چلے گئے اور پل کے اوپر سے گزرتے ہوئے جنرل بس اسٹینڈ کے پاس سے ہو کر آگے بڑھ گئے۔ اس وقت پھل فروش اور ریڑھی بان واپس اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ آم کا سیزن اور و ہ بھی چونسہ تو پھر اس کی مہک ہمیں کیسے متاثر نہ کرتی اور ویسے بھی آم میرا پسندیدہ پھل تھا اس لئے گوجرانوالہ شہر میں ہی ایک گزرتے ہوئے ٹھیلے کو روکا اور اس سے دو بہترین سے آم خرید لیے جو ہمیں چالیس روپے کے پڑے۔ آموں کو ایک شاپر میں ڈال کر اس میں پانی ڈال کر دھویا اور پھر سڑک کنارے ہی بیٹھ گئے اور مہکتے اور رسیلے آموں کا لطف اٹھایا۔ ایسے سڑک کنارے بیٹھ کر آم کھانے کا اپنا ہی مزہ تھا کیونکہ ایسی زندگی میں دکھاوہ نہیں ہوتا۔ تقریبا ً آدھی رات ہونے والی تھی اور ہم تھے اور چونسہ آم۔ کھا کر طبیعت فریش ہو گئی اور ہم دوبارہ آگے کی طرف روانہ ہو گئے۔
saibiq
(Qazi)
#85
Hahaha Mun pani se bhar raha hai
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#86
بھائی کھانا تو دور کی بات آم کی خوشبو ہی منہ میں پانی لے آتی ہے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#87
ہمارا ارادہ پہلے جہلم کے قریب سٹی ہاؤسنگ اسکیم میں ایک جاننے والے کے پاس رات قیام کا تھا اور ہم نے اسے کہہ دیا تھا کہ ہم آٹھ نو بجے ان کے پاس پہنچ جائیں گے لیکن کچھ تو گھر سے ہی لیٹ نکلے اور باقی کسر بارش نے پوری کر دی اسلئے بارہ بجے کے قریب ہم گوجرانوالہ میں ہی تھے ۔ پھر میرے ذہن میں ایک خیال اور آیا کہ میرا ایک آفس کولیگ گوجرانوالہ کا رہنے والا ہے اس کے پاس گوجرانوالہ میں ہی رکتے ہیں اور علی الصبح آگے روانہ ہو جائیں گے۔ میں نے اسے فون کیا تو وہ لاہور تھا ۔ جب اسے میرے ارادے کا پتا چلا تو کہنے لگا کہ اگر آپ پہلے بتا دیتے تو میں پہلے ہی گھر آ جاتا۔ دراصل اس نے لاہور میں ہی کرائے پر رہائش رکھی ہوئی تھی اور وہ ہفتہ بعد گوجرانوالہ اپنے گھر آ تا تھا۔ اس لئے اس کے پاس تو ٹھہرنے کا ارادہ کینسل کر دیا اور آگے روانہ ہو گئے۔ گوجرانوالہ سے آگے ٹریفک کااژدھام کافی کم پڑگیا تھا دوسرا آدھی رات بھی گزر گئی تھی اس لئے ہم سکون سے آگے بڑھ رہے تھے۔ راستے میں کوٹ خضری سے پہلے نو جوان بائکرز اور رکشہ والے ریس لگا رہے تھے اور خطرناک حد تک تیزی سے چلا رہے تھے۔ ہم نے اپنی رفتار کچھ کم کر لی تاکہ یہ گزر جائیں کیونکہ بعض اوقات ان کی یہ تیز رفتاری دوسروں کیلئے بھی جان لیوا بن جاتی ہے۔ جب ہم کوٹ خضری تھے تو میٹر ریڈنگ 23295 تھی۔ تقریبا ً ایک بجے کے قریب ہم کھاریاں سے تقریباً بیس کلومیٹر پہلے ایک جگہ دیونہ منڈی کے علاقے میں چوہدری اختر ہوٹل پر رک گئے تاکہ چائے پی کر سستی کو دور کر سکیں دوسرا ہمارا ارادہ تھا کہ اگر چارپائی کا بندوبست ہو جائے تو تھوڑا سستا بھی لیں۔ دو چائے کا آرڈر دیا اور بیٹھنے کیلئے چارپائیوں کا انتخاب کیا۔ پانی پی کر ان چارپائیوں پر نیم دراز ہو گئے تاکہ تھوڑا سکون لے لیں۔ بائک پر بیٹھنے کے اثرات تو ظاہر ہو رہے تھے لیکن جو تکیہ ہم نے سیٹ پر رکھا ہوا تھا اس کی وجہ سے اثرات ایک حد میں ہی تھے ورنہ تو بائکرز کو تو اس بات کا پتا ہی ہے۔ کچھ دیر بعد چائے آ گئی ۔ چائے اچھی تھی اس لئے اس نے لطف دیا اور اس اچھی چائے کا بل ہمیں پڑا صرف ساٹھ روپے ۔ میں نے بھائی کو فون کیا کہ سٹی ہاؤسنگ والے بندے سے اگر رابطہ ہو جائے تو اس سے رابطہ کرے لیکن وہ بندہ شاید مایوس ہو کر سو گیا تھا اس لئے اس سے رابطہ نہ ہو سکا کیونکہ ہم نے آٹھ نو بجے اس کے پاس پہنچنے کا کہا تھا اور اب ایک سے اوپر وقت ہو گیا تھا۔ہوٹل میں سونے کیلئے چارپائیوں کا انتظام تھا نہیں اسلئے تقریباً آدھے گھنٹہ وہاں رک کر ہم دوبارہ آگے کی طرف روانہ ہو گئے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#88
ہماری ہم سفر بھی بوجھ لادے سستا رہی تھی۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#89
بائک پر بندھے سامان کی تفصیلات۔ سائیڈ بکس نظر نہیں آ رہا وہ دوسری طرف لگاہے جس میں ٹول، پنکچر کٹ وغیرہ تھیں
Haroon bhai safarnama bohat khoob ja rah hai agge ki bhe story paish karein
saibiq
(Qazi)
#91
Haroon bhai ap k Azam or kawish se mutasir ho kar mene bhi kal (220 Km) Rawalpindi se Samandar Katha Lake ka safar Bike per kia. Mager Wapsi per meri Kamar or tango ki bus ho chuki thi or phir mene yehi socha k nahi bhai ye tere bus ki baat nahi
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#92
شکریہ ریحان بھائ۔ آگے کی سٹوری پوسٹ کر رہا ہوں۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#93
برادر آ ہستہ آہستہ عادی ہو جاؤ گے۔ میرا اپنا طریقہ کچھ اس طرح ہے کہ جب میرا ارادہ ٹور کا بنتا ہے تو میں اس سے کم از کم دو ہفتے پہلے واک اور ہلکی پھلکی ایکسر سائز شروع کر دیتا ہوں تاکہ جسم میں لچک بر قرار رہے اس صورت میں مسل پل اور دوسرے مسائل کا انسان کم شکار ہوتا ہے۔ ساتھ اللہ سے دعا کرتا ہوں اور حسب توفیق صدقہ دے کر نکلتا ہوں۔
saibiq
(Qazi)
#94
Great. Chalen ye bhi try karta hon Coz Im far away from the exercises n walk.
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#95
رات اپنے آخری پہر کی طرف بڑھ رہی تھی اور سڑک پر ٹریفک برائے نام ہی تھی اس لئے سفر پرسکون تھا۔ پورا دن بھاگ دوڑ میں گزر ا تھا اور مغرب سے پہلے سے ہی سفر میں تھے تو نیند کا آنا فطری سی بات تھی ۔ مجھے تو لمبے سفر میں نیند پر قابو پانے کا تجربہ تھا لیکن طلحہ کے ساتھ ایسا نہ تھا۔ مجھ پر نیند کم حاوی ہو رہی تھی لیکن طلحہ کو زیادہ ہی احساس ہو رہا تھا۔ ہم نے ایک دو جگہ ہوٹلوں سے چارپائی کا بھی پوچھا لیکن نہ مل سکی۔ تقریباً دو بجے کھاریاں کے آس پاس احمد پٹرولیم کے پاس جا کر رکے ۔سوچا کہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ریسٹ کے بعد نماز پڑھ کر دوبارہ روانہ ہو جائیں گے۔ پمپ والوں سے اجازت لیکر ان کے لان میں پو لیتھین شیٹس بچھائیں اور ان پر لیٹ گئے۔ بائک پر اس کا کور ڈال کر ساتھ ہی کھڑا کر لیا تھا ۔ طلحہ تو لیٹتے ہی سو گیا اور میں نیم غنودگی کے عالم میں رہا ۔ اس طرح ہمارا پہلا دن اختتام پذیر ہوا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#96
دوسرا دن: بارہ جولائی 2019ء۔
ساڑھے تین بجے اٹھ گیا ۔ طلحہ کو اٹھایا اور چیزوں کے پیک کرنے کے بعد بائک کو لیکر پمپ کی مسجد کی طرف چلے گئے۔ بائک کو باہر کھڑا کر کے اس کے اوپر اسکا کپڑا ڈال دیا ۔ جوگرز اور ہیلمٹس دروازے کے قریب رکھ کر وضو وغیرہ سے فارغ ہو کر سنتیں ادا کیں ۔ اسی دوران چند مسافر اور آ گئے اور ان میں سے ایک حافظ صاحب نے جماعت کرائی۔ جماعت کے دوران میں ہی تیز بارش شروع ہو گئی۔ جماعت سے فارغ ہو کر طلحہ فوراً باہر کی طرف بھاگا لیکن اسے دیر ہو چکی تھی ہمارے جوگرز اور ہیلمٹ پانی سے بھیگ چکے تھے۔ ان کو اٹھا کر شیڈ کے نیچے رکھا گیا وہ تو شکر تھا کہ بائک پر ہم نے پہلے ہی پیراشوٹ کا کور ڈال دیا تھا ورنہ باقی سامان کا بھی یہ حال ہوتا۔ باقی مسافر تو اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے جب کہ ہم مسجد میں ہی بیٹھ کر بارش رکنے کا انتظار کرنے لگے۔ ہمارا ارادہ تھا کہ نماز سے فارغ ہو کر تقریباً چار بجے روانہ ہو جاتے اور صبح ہوتے ہوتے پنڈی کے آس پاس پہنچ کر ناشتہ کرتے لیکن بارش کی وجہ سے اپنے خیال کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔ بارش بہت دیر تک ہوتی رہی اور ہم مسجد کی کھڑکی کے پاس بیٹھ کر اسکے رکنے کا انتظار کرتے رہے۔ اسی دوران بیٹھے بیٹھے طلحہ نے مسجد کی صفائی کر دی۔ کافی دیر بعد بارش رکی تو ہم باہر آئے اور سامان کو اچھی طرح پولیتھین کی شیٹ سے کور کرکے باندھ دیا ۔ ہیلمٹ گیلے تو ہوئے تھے لیکن پھر بھی بہت زیادہ نہیں اس لئے اسی طرح انھیں پہن لیا۔ جوگرز زیادہ گیلے ہو گئے تھے ممکن حد تک ان میں سے پانی کو نکالا اور انھیں پہن لیا لیکن تسمے اور زپ ڈھیلی کر لی تاکہ ہوا لگ کر خشک ہو جائیں۔ بائک ٹور میں یہ بارش مجھے ایک سبق دے گئی کہ چاہے آپ کو موسم دیکھ کر اندازہ بھی ہو کہ ابھی بارش نہیں ہونی لیکن اپنے تمام سامان کو اچھی طرح محفوظ کر کے جائیں ورنہ پھر یہی ہو گا اور پھر اس نصیحت کو ہم نے سارے سفر میں یاد رکھا۔ جس وقت تک ہم پنڈی پہنچنے کا ارادہ کر رہے تھے وہ وقت اسی پمپ پر گزارنا پڑا۔ پمپ سے تین سو روپے کا پٹرول ڈلوا کر ہم آگے روانہ ہوئے اور ممکن حد تک رفتار کو تیز رکھا تاکہ ناشتہ سے پہلے کچھ فاصلہ طے ہو سکے۔ دینہ سے آگے نکل کر سوا سات بجے کوٹلہ ککرالی فیصل ہوٹل ناشتہ کیلئے رک گئے۔ میٹر ریڈنگ 23407۔ ہم نے صبح سے کافی فاصلہ طے کر لیا تھا اور اب بھوک اور غنودگی کا احساس ہو رہا تھا۔ ہوٹل کے واش روم کے بیسن سے صابن سے منہ ہاتھ دھویا اور کنگھی وغیرہ کرنے کے بعد چارپائیوں پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے۔ ناشتے میں چنے اور سادہ روٹی کا آرڈر دیا اور پھر چائے پی۔ ناشتہ ذائقے کے اعتبار سے نارمل تھا ۔ 5 روٹیاں، چنے پلیٹ اور دو چائے کا بل 190 روپے بنا۔ ناشتے کے بعد ہوٹل کے برآمدے کے ساتھ بنے ہوئے کنکریٹ کے چبوترے پر آ گئے جس پر قالین بھی بچھا ہوا تھا اور کچھ دیر وہاں نیم دراز رہے۔ دھوپ میں شدت آنا شروع ہو گئی تھی اس لئے وہاں سے آگے کی راہ لی۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#97
تقریبا ً پچپن کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد قضائے حاجت کیلئے ایک اور پمپ پر رکے اور وہیں سے پانی کی بوتل کو بھرنے کے بعد آگے روانہ ہو گئے ۔ آج کے سفر میں ہم کلر کہار اور سطح مر تفع پوٹھو ہار کے پہاڑی سلسلے سےبھی گزرے اور وہاں بائک کی سپیڈ بھی کم کرنا پڑی لیکن ہم رکے نہیں ۔ پہاڑی سلسلے سے گزر کر کچھ دیر بائک کو آرام دیا اور ہم بھی سڑک کنارے ہی ایک سایہ دار جگہ بیٹھ گئے اور پانی پینے کے بعد گپ شپ لگانے لگ گئے۔ اسی دوران کویت سے پھوپھی زاد بھائی امجد کی کال آ گئی۔ میں ٹور پر ہوں اور امجد بھائی کی کال نہ آئے یہ کیسے ممکن ہو سکتا تھا۔ میرے ہر ٹور میں وہ فون کے ذریعے رابطے میں رہتے تھے اور ہر دفعہ تہیہ کرتے کہ اس دفعہ آ کر تمھارے ساتھ فیملی ٹور پر نکلیں گے لیکن اکثر اوقات یہ پروگرام مختلف وجوہات کی بناء پر التوا میں پڑ جاتا۔ انھوں نے کہا کہ پنڈی تک بائک بس یا ٹرین میں لے جاتے پھر آگے بائک کا سفر کرتے لیکن یہ میرا پہلا بائک ٹور تھا اور میں اپنے حوصلے اور ہمت کو آزمانا چاہتا تھا ۔ ظاہر ہے کہ بیٹھ بیٹھ کر تھک تو جاتے تھے لیکن سیٹ پر رکھے ہوئے تکیے نے بڑا ساتھ دیا اور جب بیٹھے بیٹھے جسم سن ہونے لگتا تو کچھ دیر رک جاتے اور تھوڑی دیر میں ہی دوبارہ فریش ہو کر سفر کا آغاز کر لیتے ۔ مجھے اپنے فیصلے پر کوئی پچھتاوہ نہیں تھا لیکن میں بار بار طلحہ کا حوصلہ ضرور بڑھاتا کیونکہ وہ ابھی نیا نیا پنچھی تھا۔ طلحہ بھی حوصلے میں تھا شاید نئی دنیا کو کھوجنے کا اشتیاق تھا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#98
روات سے چند کلومیٹر آگے ہم نے جی ٹی روڈ کو خیر باد کہا اور اسلام آباد ایکسپیریس وے پر گامزن ہو گئے۔ احتیاط ً میں نے گوگل میپ آن کیا ہوا تھا ۔ ایکسپریس وے پر تقریبا دو تین کلومیٹر کے بعد بائیں طرف ایک روڈ نکلتا ہے جو کہ راولا کوٹ کی طرف جاتا ہے ۔ وہاں ایک مقامی شخص سے راستے کی تصدیق کی اور ساتھ ہی اس نے ڈھیروں نصیحتیں بھی کر دیں کہ راولا کوٹ کے علاقے میں رات کو سفر نہ کرنا ، موبائل کو جیب میں رکھو اور جب بھی رک کر دوبارہ روانہ ہو سفر کی دعائیں پڑھ کر آگے روانہ ہو نا وغیرہ ۔ ہم نے غور سے ان کی نصیحتیں سنیں اور پھر اس بائیں طرف جانے والے راستے پر روانہ ہو گئے جو کہ ایک پل کے نیچے سے گھوم کر دوبارہ ایکسپریس وے سے دائیں طرف نکل جاتا ہے۔ کچھ دیر سفر کے بعد ایک جگہ پہنچے جہاںسڑک پر رش تھا اور ٹریفک رکی ہوئی تھی۔ دائیں بائیں سے بائک کو نکال کر آگے گئے تو رش کی وجہ پتا چلی کہ آگے ریلوے پھاٹک تھا اور وہ بند بھی تھا۔ میٹر ریڈنگ 23488۔ وہاں رک گئے اور ساتھ ہی موجود ایک مقامی بائکر سے گپ شپ لگانے لگ گئے۔ اس سے راولا کوٹ کے علاقے ، بنجوسہ جھیل اور تولی پیر کے بارے تبادلہ خیال ہوا۔ انھوں نے ایک اور علاقے حاجی پیر کے بارے بتایا کہ وہ بہت زیادہ خوبصورت ہے لیکن کئی گھنٹوں کا دشوار گزار سفر ہے۔ میں نے اس علاقے کو ذہن میں رکھ لیا کہ پھر کبھی چکر لگا تو ضرور دیکھیں گے۔ لاہور سے آنے والی ریل گاڑی کے گزرنے کے بعد پھاٹک کھل گیا اور ہم آگے روانہ ہو گئے۔ سنگل روڈ تھا لیکن اچھی حالت میں نظر آ رہا تھا ۔ پھاٹک سے چند کلومیٹر کے بعد اس پر ٹریفک بھی کم ہوگئی ۔ ایک پی ایس پمپ سے دو سو روپے کا مزید پٹرول ڈلوایا گیا۔ میری کوشش تھی کہ جب دو تین لٹر پٹرول استعمال ہو جاتا تو دوبارہ پٹرول ڈلوا لیا جائے تاکہ کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو۔ میٹر ریڈنگ 23492۔ اب دوبارہ پہاڑی علاقے کا آغاز ہو گیا تھا۔
saibiq
(Qazi)
#99
Japan road kahlata hai ye n the phatak was near to Sihala Railway Station. Good Going Haroon bhai. Please share your mobile number as well.
ajmalbutt
(ajmal mehmood)
#100
Good going haroon bhai. Following your story.
Abaad rahein.
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#101
معلومات کیلئے شکر گزار ہوں۔ ان شاء اللہ روئیداد قدم بہ قدم آگے بڑھتی رہے گی۔