haroonmcs26
(haroonmcs26)
#123
کراسنگ پوائنٹ پر کوئی آبادی حتی کہ ایک دوکان تک نہ تھی۔ بس ایک سائیڈ پر ایک شیڈ والی انتطار گاہ بنی ہوئی تھی جس میں کرسیاں لگی ہوئیں تھیں جن کی حالت مخدوش تھی۔ یہ انتظار گاہ اسی طرح کی تھی جیسے بس سٹاپ پر بنی ہوتی ہے۔ بائک اور خود کو آرام دینے کیلئے ہم وہاں رک گئے اور کرسیوں پر براجمان ہو گئے۔ راولا کوٹ ابھی بھی ستائیس کلومیٹر دور تھا۔ اگر دیکھا جائے تو ہم گزشتہ شام سوا چھ بجے سے سفر میں تھے ۔ تھکن طاری ہو رہی تھی لیکن اتنی بھی نہیں کہ ہمارے حوصلے کو توڑ دیتی۔ کراسنگ پوائنٹ پر ہمارے علاوہ کوئی انسان موجود نہیں تھا۔ روڈ سے کبھی کبھی کوئی گاڑی گزر جاتی تھی۔ انتظار گاہ کے پیچھے جھاڑیوں میں میں نے ایک اور تقریباً تین انچ کا کیکڑا مرا ہوا دیکھا۔ میں پھر سوچ میں پڑ گیا کہ کیا پہاڑوں پر بھی کیکڑے پائے جاتے ہیں ۔ ایک کیکڑا ہم نے سون کی مسجد میں دیکھا تھا اور دوسرا اس کراسنگ پوائنٹ پر نظر آ رہا تھا۔ ادھر ادھر نظریں دوڑائیں کہ شاید اس کی جنس کا کوئی اور بھی نظروں میں آ جائے لیکن ندارد۔ کوئی اور تھا نہیں جس سے اس سلسلے میں استفسار کرتے۔ پھر ایک ادھیڑ عمر شخص بائک پر وہاں آیا اور کرسی پر براجمان ہو گیا۔ اس سے پوچھنے کا ہمیں موقع ہی نہیں ملا کیونکہ جب تک ہم وہاں رہے وہ حضرت مسلسل فون پر مصروف رہے۔ اور اس کے بعد کیکڑا صاحب ہمارے ذہن سے نکل گئے کہ کسی سے اس کے بارے استفسار کرتے۔
ہماری بائک کا خوبصورت انداز۔
کراسنگ پوائنٹ کی انتظار گاہ۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#124
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#125
ایک جگہ سڑک کی حالت بہت زیادہ خراب تھی۔ کچا راستہ اور وہ بھی کیچڑ ، پانی اور گارے سے بھرا ہوا ۔ وہاں ہیوی مشینری کام کر رہی تھی اور چیک پوسٹ بھی تھی۔ گاڑیاں آہستہ آہستہ وہاں سے گزر رہی تھیں۔ لیکن یہ حصہ مختصر تھا چند سو میٹر کے بعد سڑک کی حالت پھر بہتر ہو گئی۔ آخر کار ہم راولا کوٹ کے مضافات میں پہنچ گئے۔ عصر کا وقت ہو رہا تھا اس لئے ہم نے بائک کو ایک پمپ کی طرف موڑ دیا ۔ پہلے وہاں سے دو سو روپے کا پٹرول ڈلوایا اور اسی دوران پمپ کے عملے سے گپ شپ بھی ہوئی۔ بائک کو ایک طرف پارک کرنے کے بعد واش روم کا رخ کیا۔ واش روم سے فارغ ہو کر وضو کیا اور ایک کمرے میں جو کہ نماز کیلئے مخصوص کیا ہوا تھا وہاں نماز ادا کی۔ تقریبا ً پانچ بج چکے تھے۔ جب وہاں سے روانہ ہونے لگے تو ایک مقامی فرد سے گپ شپ ہونے لگی۔ اس نے پوچھا کہ کس طرف جا رہے ہو ۔ ہم نے کہا کہ پہلے تو ہمارا ارادہ تولی پیر کا ہے اور وہاں سے آج ہی واپس آ کر رات بنجوسہ جھیل پر گزاریں گے۔ اس پر اس نے کہا کہ تولی پیر کا راستہ لمبا ہے اور راستہ اچھی حالت میں نہیں وہاں سے آج آنا مشکل ہے کیونکہ آنے جانے میں کم ازکم تین گھنٹے لگ جانے ہیں اور پھر اوپر پیدل بھی چلنا پڑے گا۔ کچھ دیر اس سے گفتگو کرنے کے بعد مجھے اس کی باتوں میں وزن محسوس ہوا۔ اس لئے میں نے اپنا پروگرام تبدیل کر لیا ۔ اب نیا پروگرام کچھ یوں تھا کہ ہم سیدھا بنجوسہ جھیل جاتے کیونکہ وہ نزدیک تھی اور رات وہاں گزار کر صبح تولی پیر کیلئے نکلتے۔ راستے میں ایک جگہ ہمیں ٹریفک پولیس کے دو اہلکاروں نے روک لیا۔ طلب کر نے پر میں نے انھیں اپنا ڈرائیونگ لائسنس دکھایا اور بائک کے کاغذات کی ڈیمانڈ پر میں نے بتایا کہ وہ بیگ کے اندر رکھے ہیں جو کہ بائک کے ساتھ بندھا ہو ا ہے ساتھ ہی میں نے اپنا سرکاری کارڈ بھی دکھایا جس کی وجہ سے انھوں نے مزید استفسار نہ کیا۔ راولا کوٹ شہر میں داخل ہونے سے پہلے ہی ہم ایک دوراہے پر پہنچے ۔ سیدھا راستہ راولا کوٹ کی طرف اور نسبتاً دائیں طرف والا راستہ تولی پیر اور بنجوسہ جھیل کی طرف جا رہا تھا۔ ہماری منزل بنجوسہ جھیل تھی اس لئے اس کی طرف جانے والا راستہ ہی اختیار کیا جو کہ اس آگاہی بورڈ کے مطابق انیس کلومیٹر دور تھی۔
ajmalbutt
(ajmal mehmood)
#126
Good going Brother. Fantastic.
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#127
شکریہ جناب۔ ویسے پہاڑی علاقوں کی کہانی تو ان علاقوں میں پہنچ کر شروع ہوتی ہے اس لحاظ سے کہانی تو اب شروع ہوئی ہے۔
ajmalbutt
(ajmal mehmood)
#128
Abhi to Party Shuru hui ha.
Hahahahahahahaha
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#129
ان شاء اللہ جلد ہی کھاریاں سے راولا کوٹ کے سفر کی ویڈیو کہانی شیئر کروں گا تاکہ تحریر کے بعد ویڈیو سے بھی لطف اندوز ہو سکیں۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#130
کھاریاں سے راولا کوٹ، ویڈیو کہانی۔ برائے مہربانی لائیک اینڈ سبسکرائب۔
Photo or detail bta dyen usa ka b
Photo share kr dyen
Or isny camp m kaisa kaam diya ?
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#133
کسی بھی بائک آٹو شاپ سے لے سکتے ہیں ۔ اوساکا 4 ایمپیئر مینٹیننس فری بیٹری۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#134
یو ایس بی بلب نے بہترین کام دیا۔ اس کی فوٹو شیئر کر دوں گا۔ چند پوسٹ بعد رات کے قیام کی روئیداد میں اس کی بھی فوٹو آ جائے گی۔
apna contact num share kr dyen
musafir1
(musafir1)
#136
السلام و علیکم
ہارون بھائ آپ اپنا سفر نامہ اتنی تفصیل سے لکھتے ہیں کہ باریک سے باریک بات اور معلومات بھی نہیں چھوڑتے۔۔۔۔
آپ کے سفرناموں سے نوآموز ٹورسٹ کو بہت فائدہ ہوتا ہے کیونکہ عمرو عیار کی زنبیل کی طرح آپ کے سفری خزانے میں سب کچھ مل جاتا ہے
میں نے پاکستان میں اپنی گاڑی سے اور پاکستان سے باہر بہت سفر کئے لیکن بائک پر صرف 3 سفر کئے
پہلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کراچی تا سوات اور ناران وغیرہ
دوسرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کراچی تا تھرپارکر
اور تیسرا۔۔۔۔۔۔۔ کراچی تا گورکھ ہل اسٹیشن (اس سفر میں عبدالوحید طارق بھائ بھی میرے ہمراہ تھے)
لیکن پھر بائک کے بجائے پھر سے گاڑی پر آگیا۔
بائک پر سفر کے اپنے محدود تجربے کی بنیاد پر یوں لگا کہ شائد آپ کے پاس وقت کم تھا۔ میں ہر 30 کلومیتر سفر کے بعد رک کر جوس چائے پیتا تھا اور کچھ دیر آرام کے بعد آگے چلتا تھا۔ جبکہ مغرب سے پہلے ہی کسی مناسب جگہ پر اپنا کیمپ لگا لیتا تھا۔ بارش سے بچنے کے لئے ربڑ کا ایک پورا سوٹ تھا اور سامان کو ٹیوب سے بنی ہوئ ہک والی ڈوریاں استعمال کرتا تھا جس کی خاصیت یہ ہے کہ سامان جھٹکوں سے لڑھکنے کے بجائے مزید کس جاتا تھا۔
میرا پروگرام بائ کار ستمبر کا بن رہا ہے۔ ان شا اللہ تعالی آپ سے ملتے ہوئے آگے جاوں گا
اللہ کرے زور بیاں اور زیادہ
آخری بات یہ کہ کیونکہ آپ نے اس سفرنامے کا لنک مجھے واٹس اپ کیا تھا اس لئے اس فورم پر جواب مجھ پر قرض تاہم اب میں پاک وہیل کا مطالعہ نہیں کرتا اس لئے مزید گفتگو فون یا واٹس اپ پر رہے گی
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#137
آفتاب بھائی آپ جیسے سینئرز کی حوصلہ افزائی مجھ جیسے نا تجربہ کار لکھنے والے کیلئے کسی آب حیات سے کم نہیں ۔ دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں۔ آپ نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی جو میرے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ آپ جب بھی لاہور آئیں گے میں دل کی گہرائیوں سے آپ کو خوش آمدید کہوں گا۔ جزاکم اللہ خیرا
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#138
ان شاء اللہ ارادہ ہے کہ ہفتہ کی شام کووادی کمراٹ کے پانچ روزہ بائک ٹور کیلئے روانہ ہوا جائے۔
smehmood845
(Shahid Mehmood)
#139
are you alone or with group of bikers? please confirm details?
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#140
برادر ابھی تو میں اکیلا ہوں۔ ایک بندے کا شام کو کنفرم ہو گا اور دوسرے کا صبح۔ ہفتہ کی سہ پہر کو ان شاء اللہ روانگی کا ارادہ ہے اور جمعرات کو واپسی۔ وہ دونوں بھائی ذرا اپنی چھٹیوں کا حساب لگا رہے ہیں۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#141
اب تک تو سڑک اچھی حالت میں تھی اور ہم مناسب رفتار سے جھیل کی طرف رواں دواں تھے راستہ بھی آسان ہی نظر آ رہا تھا۔ کچھ آگے جا کر ہم نے ایک رکشہ ڈرائیور سے راستے کا کنفرم کرنے کیلئے پوچھا تو اس نے کہا کہ آپ لوگ اگلے چوک سے دائیں ہاتھ مڑ جائیں کیونکہ وہ راستہ شارٹ کٹ ہے سیدھا جانے والا راستہ طویل ہے۔ اس سے راستہ پوچھ کر ہم دوبارہ آگے روانہ ہوئے ۔ ایک چوک پر پہنچے تو وہاں لگا آگاہی بورڈ کہہ رہا تھا کہ بنجوسہ جھیل سیدھا راستہ ۔ جبکہ اس سے دائیں طر ف وہ راستہ نکل رہا تھا جس کا ہمیں رکشہ ڈرائیور نے بتایا تھا۔ میں نے وہاں بریک لگا دی کیونکہ میں شش و پنج میں تھا کہ سیدھا اور عام طور پر استعمال ہونے والا راستہ اختیار کروں یا دائیں طرف شارٹ کٹ۔ ابھی ہم وہیں کھڑے تھے کہ اتنے میں پیچھے سے وہی رکشہ ڈرائیور آیا اور اس نے ہمیں کہا کہ میرے پیچھے پیچھے آؤ۔ یہ کہہ کر وہ دائیں طرف والے راستے پر مڑ گیا اور ہم نے بھی اس کی تقلید کی اور یہی ہماری غلطی تھی جس کا اندازہ ہمیں آگے جا کر ہوا۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ ہمیشہ سیدھے راستے سے جاؤ چاہے وہ لمبا ہی کیوں نہ ہو لیکن ہم شارٹ کٹ کا لالچ کر بیٹھے تھے اور ضرب المثل ہے کہ لالچ بری بلا ہے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#142
کچھ دیر تو ہم رکشہ کے پیچھے چلتے رہے لیکن پھر شاید رکشہ والے کو احساس ہو گیا کہ ہم اس کی وجہ سے آہستہ چل رہے ہیں تو اس نے رکشہ روک دیا ۔ میں نے اسکے پاس جا کر بریک لگائی تو وہ مجھے راستہ سمجھانے لگا اور پھر ہم اس سے آگے روانہ ہو گئے ۔ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد ہمارے دائیں طرف ایک جھیل نما تالا ب نظر آیا ۔ پہلے تو ہم سمجھے کہ یہی جھیل ہے کیونکہ اس کے آ س پاس لوگ بھی تھے اور چند جھولے بھی لگے ہوئے تھے ۔ وہاں کچھ مقامی بچے تھے ان سے پوچھا تو وہ ہمار ے سوالوں کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے یا شاید ہم ان کو اپنی بات نہ سمجھا سکے۔ اتنے میں وہی رکشہ پیچھے سے ایک جن کی طرح نمودار ہوا اور ہمیں پیچھے آنے کا اشارہ کرتے ہوئے آگے چل پڑا۔ہم اس جھیل نما تالاب کے پاس رکنے کی خواہش کا گلا گھونٹتے ہوئے چل پڑے۔ اب ہم اس کے پیچھے پیچھے تھے لیکن راستہ اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور تنگ ہو گیا تھا اور چڑھائی بھی شروع ہو گئی۔ بائک کو زور لگانا پڑ رہا تھا ۔ کئی جگہوں پر تو چڑھائی اچھی خاصی تھی۔ ہم دوبارہ رکشے سے آگے تھے کیونکہ چڑھائیوں کی وجہ سے بائک کا مومینٹم بنا نا پڑ رہا تھا اور رکشے کے پیچھے تو یہ ممکن نہیں تھا۔ ایک زیادہ چڑھائی والی جگہ پر میں نے بائک کو بھگا کر چڑھایا راستہ ٹوٹا پھوٹا اور ناہموار تھا ایک جگہ پر بائیک کا اگلا ٹائر اچھلا اور اس نے زمین چھوڑ دی ۔ ہمارے گرنے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا لیکن پھر اللہ کے فضل سے بائک کنٹرول میں آ گئی اور ہم گرتے گرتے بچے۔ اب ہمارے ماتھے پر تشویش ظاہر ہونا شروع ہو گئی تھی۔ اس خطرناک چڑھائی کے فوراً بعد ہم ایک دو راہے پر رک گئے جہاں سے ایک راستہ سیدھا اور دوسرا بائیں طرف جا رہا تھا۔ میں اور طلحہ آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ ہم نے شارٹ کٹ اختیار کرکے غلطی تو نہیں کی اور سوچ رہے تھے کہ آگے جایا جائے یا یہیں سے واپس ہو کر سیدھے راستے پر چلیں۔ لیکن ہمیں مشکل میں دھکیلنے والا رکشہ پیچھے سے دوبارہ نمودار ہوا اور اس نے ہمارے پاس آ کر بریک لگائی ۔ کہنے لگا کہ آپ لوگ بائیں جانے والے راستے پر چلے جائیں پندرہ بیس منٹ میں آپ جھیل پر پہنچ جائیں گے ۔ رکشے کی پچھلی سیٹ پر دو عورتیں بھی بیٹھی ہوئیں تھیں ۔ وہ ڈرائیور سے کچھ اختلاف کر رہیں تھیں۔ ان کی باتیں تو زیادہ ہماری سمجھ میں نہیں آئیں لیکن اندازہ یہ ہو رہا تھا کہ وہ اس راستے کے اختیار کرنے کے حق میں نہیں تھیں۔ ڈرائیور اور پیچھے بیٹھی ہوئیں خواتین آپس میں بحث کر رہے تھے اور ہم ہونقوں کی طرح ان کا منہ دیکھ رہے تھے کہ دیکھیں ہماری قسمت کا کیا فیصلہ ہوتا ہے۔ آخر ڈرائیور نے تھوڑا ڈانٹ کر ان کو چپ کروایا اور ہمارے لئے بائیں طرف کا حکم صادر فرما کر سیدھےجانے والے راستہ پر روانہ ہو گیا۔ اب ہم کبھی سیدھے راستے کو کبھی بائیں طرف اور کبھی پیچھے دیکھتے۔ تھوڑا بائک کو گھما کر دائیں طرف موجود ایک چھوٹی سے دوکان کے پاس چلے گئے ۔ وہاں موجود جوان بندے سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ پہلے گیئر میں جاؤ دوسرا گیئر نہیں لگانا پہنچ جاؤ گے۔ میں نے پوچھا کہ کتنی دور ہے تو اس نے دور بلندی کی طرف نظر آنے والی ایک سرخ سی عمارت کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اسکے قریب ہی ہے۔ اب ہمارے ذہن میں کش مکش کہ اب تک کا راستہ مشکل لگ رہا تھا تو آگے کیا حال ہو گا۔ جس عمارت کی طرف دوکان والا بندہ اشارہ کر رہا تھا اسکے لحاظ سے تو ہم آدھا فاصلہ طے کر چکے تھے تو اگر واپس جاتے اور دوسرے راستے سے آتے تو بہت طویل چکر پڑنا تھا۔ اب یہ راستہ ہمارے لئے سانپ کے منہ میں چھچھوندر کی طرح ہو گیا تھا جو نہ نگلا جا رہا تھا اور نہ اگلا جا رہا تھا۔ سوچا آگے ہی چلتے ہیں جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ بسم اللہ پڑھ کر بائیں جانے والے راستے پر بائیک کو بڑھا دیا۔ کچھ آگے جا کر راستے کی چڑھائیاں دیکھ کر تو ہمارے اوسان خطا ہو گئے۔ پر پیچ اور بلند ہوتا ہوا لیکن ٹوٹ پھوٹ کا شکار راستہ۔ کہیں تو پختہ سڑک انتہائی خراب اور کہیں نظر ہی نہیں آ رہی تھی۔ ایک خطرناک چڑھائی پر بائیک نے بڑھنے سے انکار کر دیا اب ہم تقریبا ً پنتالیس کے زاویے پر ریاضی کی شاخ جیومیٹری سیکھنے کی کوشش کر تے ہوئے مثلث کے وتر پر چڑھ رہے تھے ۔ وتر پر تو بائیک چڑھ نہیں رہی تھی لیکن واپس زاویے کے زیرو پوائنٹ پر جانے کے امکانات تھے اور اس صورت میں گوڈے گٹوں کا خیال آ رہا تھا۔ پھر ہم نے فوری ایکشن کیا طلحہ فوری طور پر اترا اور اس نے بائیک کر دھکا لگانا شروع کر دیا اور شکر ہے کہ ہم وہ چڑھائی عبور کر گئے۔ دھکے سے بائیک کو بھی حوصلہ ملا اور اس نے بھی زور لگانا شروع کر دیا۔ چڑھائی چڑھ کر ایک نسبتاً ہموار جگہ پر میں نے بریک لگائی اور طلحہ کا انتظار کرنے لگ گیا جو اس چڑھائی سے پیدل آ رہا تھا۔ دل کہہ رہا تھا اور شارٹ کٹ مارو سیدھے راستے سے نہیں آ سکتے تھے لیکن اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیا ں چگ گئیں کھیت۔ حالانکہ وہ ٹھنڈا علاقہ تھا اور اردگرد گہرا جنگل لیکن ہمیں ہاف بازو شرٹس کے باوجود پسینہ آ رہا تھا۔ واپس جاتے تو پھر خطرناک اترائیوں سے گزرنا پڑتا اور وہ بھی آسان کام نہیں تھا اس لئے بادل نخواستہ آگے ہی بڑھنے کا ارادہ کیا کہ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ طلحہ کو دوبارہ بٹھایا اور آگے روانہ ہو گئے۔ اب تک ہمیں اس راستے پر آمدو رفت نظر نہیں آئی تھی اور ارد گرد بھی گہرا جنگل تھا ایک طرف پہاڑ اور دوسری طرف کھائی ۔ دل میں خیال آ رہا تھا کہ بچوّ اگر نیچے گر گئے تو یہاں تو کوئی اٹھانے والا بھی نہیں۔ اس کے بعد تقریباً ہرخطرناک موڑ اور چڑھائی پر وہی کہانی دوہرائی جانے لگی کہ طلحہ اترتا اور دھکا لگاتا اور میں بائیک کو آگے جا کر روک کر طلحہ کا انتظار کرتا۔ پندرہ بیس منٹ تو کب کے گزر گئے تھے لیکن راستہ تھا کہ شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہوتا چلا جا رہا تھا اور ہمارے پتا نہیں کہاں کہاں سے پسینہ نکلنا شروع ہو گیا تھا۔ کچھ اور آگے بڑھے تو ایک کیری ڈبہ کو دیکھ کر جان میں جان آئی۔ ظاہر ہے یہ کیری ڈبہ کسی مقامی کا ہی ہو سکتا تھا کیونکہ کوئی سیاح شاید ہی ہماری طرح احمق ہوتا تو سیدھے راستے کو چھوڑ کر اس راستے پر کیری ڈبہ لیکر آتا۔ اس سے پوچھا کہ بھائی آگے جھیل کتنی دور ہے تو اس نے پہلے یہ کہا کہ آپ کو کس نے مشورہ دیا کہ اس راستے پر آؤ اور ہم نے اپنے محسن اس رکشہ ڈرائیور کے بارے میں بتانا شروع کر دیا۔ کیری ڈبہ کے ڈرائیور نے کہا کہ راستہ تو شارٹ کٹ ہے لیکن ہے مشکل بہر حال اب آپ چلتے رہو دس پندرہ منٹ میں پہنچ جاؤ گے اور راستہ کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ اس کی باتوں سے حوصلہ پا کر پھر چل پڑے لیکن پھر دس پندرہ منٹ گزر گئے تو راستہ ہنوز اسی طرح۔ اب تو ہمیں یہ بھی بھول گیا تھا کہ طلحہ کتنی بار اترا اور کتنی بار اس نے دھکا لگایا۔ ایک جگہ ایک دوراہا آیا ۔ ایک راستہ جو کنکریٹ کا بنا تھا نیچے اتر رہا تھا اور دوسری تارکول کی ٹوٹی پھوٹی سڑک جو اوپر جا رہی تھی ۔ کچھ دیر وہاں کھڑے رہے پھر اوپر والے راستے کا انتخاب کیا کیونکہ میں نے اب تک یہی دیکھا تھا کہ کسی مقامی آبادی کی طرف جانے والا پہاڑی راستہ عام طور پر کنکریٹ کا بنا ہوتا تھا۔ کچھ دیر کے بعد ایک مہران میں سوار مقامی شخص نظر آیا اس سے کنفرم کیا کہ کہیں ہم غلط راستے پر تو نہیں آ گئے لیکن اس نے بتایا آپ ٹھیک جا رہے ہو اور پھر دیگر کی طرح یہی کہا کہ دس پندرہ منٹ کا راستہ ہے۔ لیکن ہم نے اب مقامی لوگوں کے دس پندرہ منٹ پر دھیان دینا چھوڑ دیا تھا ہم تو اب اس شیطان کی آنت سے نکلنے کیلئے بس آگے بڑھ رہے تھے اور خود کو کوس رہے تھے کہ کیوں کسی کی باتوں میں آ کر سیدھے راستے کو چھوڑا۔ اب بزرگوں کی نصیحت پر کان نہ دھرنے کے جرم کی سزا بھگت رہے تھے۔ آگے جا کر پھر ایک دوراہا آ گیا لیکن شکر ہے وہاں دو مقامی افرا د موجود تھے ان سے پوچھ کر چڑھائی والے راستے کا انتخاب کیا۔ انھوں نے بھی یہی پوچھا کہ اس راستے کا مشورہ کس نے دیا تھا اور ہم نے رکشہ ڈرائیور کی رحمدلی کی تعریف شروع کر دی جس نے ہم پر یہ احسان کیا تھا۔ پھر وہی یو ٹرن قسم کے موڑ اور چڑھائیاں اور دھکے۔ ایک جگہ پر دو دبلے سے مقامی لڑکے سیونٹی بائیک کو لیکر کھڑے تھے ۔ ظاہر ہے ایسے راستے پر کوئی مقامی ہی سیونٹی کو لانے کی ہمت کر سکتا تھا۔ دونوں لڑکوں کا وزن کم تھا لیکن ان کی سیونٹی نے بھی جواب دے دیا تھا اور ان کے انداز سے محسوس ہو رہا تھا کہ بائیک میں کوئی مسئلہ ہو گیا ہے۔ مجھے احساس ہو رہا تھا کہ انجن سے گرمی کی لپٹیں نکل رہیں ہیں اس لئے میں نے بائیک کو بند کر دیا تاکہ چند منٹ اس کو آرام مل سکے۔ ان مقامی لڑکوں سے بھی وہی باتیں ہوئی کہ اس راستے پر کیسے آ گئے اور ہم نے حسب سابق بغیر رکے رکشہ ڈرائیور کی مدح سرائی شروع کر دی۔ ان دونوں لڑکوں نے بھی وہی کہا کہ بس دس پندرہ منٹ کا راستہ ہے لیکن ہمیں تو مقامی افراد کے دس پندرہ منٹ کا اعتبار ہی نہیں رہا تھا۔ ہمیں تو بس یہ فکر تھی کہ کسی طرح سورج غروب ہونے سے پہلے اس راستے سے خیرو عافیت سے نکل جائیں کیونکہ یہ حساب تو ہمارے ذہن سے کافی دیر سے نکل چکا تھا کہ ہمیں کتنی دیر ہوگئی اس راستے پر۔ پانی پینے اور بائیک کو کچھ آرام دینے کے بعد دوبارہ روانہ ہو گئے۔ جتنا بائیک کا زور لگ رہا تھا مجھے ڈر تھا کہ کہیں بائیک میں کوئی مسئلہ نہ ہو جائے ۔ بے ساختہ منہ سے یا حی یا قیوم برحمتک استغیث اور چڑھائی چڑھتے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔انسان کو مشکل میں پھر وہی ایک بادشاہ نظر آ تا ہے اور اس کے ذکر سے دل کو تقویت ملتی ہے۔ کافی چلنے کے بعد ہمارا راستہ ایک نسبتا ً کھلی اور پختہ سڑک کے ساتھ جا کر مل گیا۔ دل مان ہی نہیں رہا تھا کہ ہمارا پیچھا شیطان کی آنت سے چھوٹ گیا تھا لیکن جب کافی دیر تک وہی کھلی اور آسان سڑک ساتھ رہی تو یقین کرنا پڑا لیکن دل میں ایک چھپا چھپا وسوسہ تھا کہ کہیں دوبارہ وہ راستہ شروع نہ ہو جائے۔ اب ہم اترائی والے راستے پر تھے لیکن اس راستے سے ہزار گنا بہتر راستہ تھا۔ بالآخر ہم اس بازار میں پہنچ گئے جہاں سے جھیل کا راستہ نکلتا تھا ۔ وہاں جا کر میں نے بریک لگا دی ۔ دل اور زبان اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے کہ ہم اور بائیک صحیح سلامت یہاں تک پہنچ گئے۔ پہلے ہی بائیک ٹور میں یہ ہمارا پہلا کڑا امتحان تھا لیکن آئندہ آنے والے راستوں نے ثابت کیا کہ اگر ہمیں شروع میں ہی قدرت ایسی سخت ٹریننگ نہ دیتی تو اگلے راستے ہمارے لئے انتہائی مشکل بن جاتے۔ کہتے ہیں نا کہ اس کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے لیکن انسان ہی نہیں سمجھ پاتا۔
اس راستے نے اتنا حواس باختہ کر دیا تھا کہ تصویر بنانے کا ہوش ہی نہیں رہا۔ بس ایک ہی تصویر اس راستے کی اور ایک بازار کی بنی۔ البتہ موبائل ہولڈر میں لگا ویڈیو ضرور بناتا رہا۔ تصویر اور ویڈیو میں اس راستے کے مشکل ہونے کا اندازہ نہیں ہوتا کیونکہ موبائل کا زاویہ ایک ہی رہا تھا اور وہ تو سڑک کو سیدھا ہی دکھا رہا تھا۔ دوسرا جو تصویریں اتاریں ہیں وہ تو اس راستے کے آسان مقامات تھے۔
اس راستے کے بعد آنے والے بازار کی فوٹو۔