بٹہ کنڈی کی یہ آبادی بہت بڑی نہیں تھی۔ کچھ ہوٹل اور دوکانوں پر مشتمل تھی۔ صبح چائے اور چند بسکٹ کھانے کے بعد اب بھوک محسوس ہورہی تھی اور ویسے بھی وقت ناشتے کا تھا۔ اسلئے یاسر بھائی کو بازار میں بھیجا کہ کسی ہوٹل سے روٹیاں لے آئے تاکہ کچھ آگے جا کر کسی مناسب جگہ ناشتہ کیا جا سکے۔ جہاں میں نے گاڑی کو پارک کیا تھا وہاں قریب ہی ایک قصائی ایک بکرے کو مہارت سے ذبح کر رہا تھا۔ جب تک یاسر بھائی روٹی لیکر نہیں آ گئے میں اس منظر کو دیکھتا رہا ۔ پندرہ روپے فی روٹی کے حساب سے چھ روٹیاں نوے روپے کی آئیں تھیں۔ یاسر بھائی نے بتایا کہ روٹیاں تھوڑی مشکل سے ہی ملی ہیں کیونکہ اس وقت پراٹھوں کا وقت تھا اور ہم میں سے پراٹھے کھانے کا کوئی شوقین نہیں تھا۔