[RIGHT]
تقریباً دس بجے ہم بازار میں ہی کسی جگہ ناشتہ کرنے اور پھر وہیں سے سدپارہ جھیل جانے کے لئے ہوٹل سے نکلے۔
مین بازار کے اختتام پر واقع پولو گرائونڈ سے متصل ایک ہوٹل میں ناشتہ کر کے جھیل کی طرف روانہ ہوئے۔ اسکردو
سے خپلو کی طرف جاتی ہوئی اس سڑک کے دونوں اطراف دکانوں اور مختلف سرکاری اور نجی عمارتوں کاسلسلہ
مسلسل جاری تھا۔ 1988 میں تو اس پولو گرائونڈ کے آگے خال خال ہی کوئی بڑی عمارت نظر آتی تھی۔ اس سڑک پر
تھوڑا سا ہی فاصلہ طے کر کے ہم ایک چوک سے سدپارہ جھیل کی طرف جانے والی سڑک پر دائیں طرف مڑ گئے۔
تقریباً دو ڈھائی کلومیٹرتک ہم اسکردو کی آبادی کے درمیان کے ایک دو چوکوں سے گزرتے ہوئے سامنے نظر آتے پہاڑوں
کی جانب بڑھتے رہے۔ جھیل کی طرف جانے والی یہ سڑک آگے جا کر جھیل کے ساتھ ساتھ ہوتی ہوئی اور پھر اسے
پیچھے چھوڑ کر دیوسائی نیشنل پارک سے گزرتی، بلندیوں کی طرف چڑھتی دیوسائی کے مشہور و معروف بلند و بالا
اور وسیع و عریض میدانوں کا رخ کرتی ہے اور پھر ان میدانوں میں واقع حسین سبزہ زاروں ،شفاف چشموں ،دلکش
جھیلوں کے پہلو بہ پہلو گھومتی پھرتی وادی استور کی مشہور جھیل شیوسر کے ساتھ ساتھ سفر کرتی چلم چوکی
سے ہوتی استور پہنچ جاتی ہے۔ ہم 2004 میں جب دیوسائی کے میدان تک پہنچے تھے تو دیوسائی نیشنل پارک کی حدود
میں داخل ہونے کے کچھ ہی دیر بعد زیر تعمیر ہونے کی وجہ سے سڑک انتہائی خراب حالت میں تھی۔ پہاڑ کے ساتھ بل
کھاتی اور اوپر چڑھتی اس سڑک پر صرف پتھر بچھے تھے اور جگہ جگہ سڑک کے کنارے آگ جلا کر ڈرموں میں
تارکول کو پگھلانے کا عمل جاری تھا ، پتھریلی سڑک پر ہماری جیپ اچھلتی کودتی دیوسائی کے میدانوں کی
طرف چڑھتی تھی۔ سڑک کی خراب حالت کے باعث آدھے راستے میں جیپ خراب بھی ہوگئی اور ہم ایک پک اپ
والے سے لفٹ لے کر دیوسائی پہنچ پائے تھے۔ واپسی میں ہماری جیپ والے کو چار بجے سہ پہر تک اوپر پہنچنا تھا لیکن
شام کے پانچ بجے تک بھی اس کا کوئی پتہ نہ تھا، دیوسائی کے سبزہ زار انتہائی یخ بستہ ہوائوں کے باعث برف زاروں
میں بدلتے تھے، میدان میں واقع ایک چھوٹے سے ہوٹل کے اکلوتے کمرے میں بنے چولھے کے گرد دوتین مقامی
لوگ بیٹھے تھے، ہم ہوٹل کے باہر دیوسائی کے کھلے میدانوں میں چلتی تیزہوائوں میں پھڑپھڑاتے چھوٹے سے
بوسیدہ خیمے میں ایک دوسرے میں گھسے بری طرح ٹھر ٹھراتے اپنے جیپ والے کا انتظار کرتے تھے۔ ہمارا جیپ
والا تو نہ آیا ،استور کی طرف سے ایف ڈبلیو او والوں کی ایک ڈبل کیبن پک اپ آئی، انہوں نے مہربانی کی ،ہم سفر
اوربیٹیوں نے کیبن میں بیٹھ کر سکون کا سانس لیا۔ کیبن میں بیٹھے ہوئے دو اہلکار میرے ساتھ پیچھے بنے کھلے حصے
میں آ بیٹھے اور ہم اس برف خانے سے سوئے اسکردو روانہ ہوئے۔ راستے میں چھ بجے کے قریب مجھے دور سے اپنی
جیپ آتی نظر آئی۔ ہم نےایف ڈبلیو او کے اہلکاروں کا بے حد شکریہ ادا کیا اور اپنی جیپ میں سوار ہو کر سد پارہ جھیل
پہنچے۔ آج دس سال بعد ہم اپنی گاڑی میں سدپارہ جھیل کی طرف رواں دواں تھے، سڑک بہت بہتر حالت میں تھی۔
اسکردو کی آبادی سے نکل کر سڑک آہستہ آہستہ بلند ہونا شروع ہو گئی اور پھر گھومتی بل کھاتی بائیں طرف کے
پہاڑ کے قریب پہنچ کر اس کے ساتھ ساتھ چڑھتی آگے بڑھتی رہی۔ کچھ ہی دیر بعد ہمیں بلندی سے پانی کا بڑا ذخیرہ
اپنے اندر سموئے ہوئے سدپارہ کی سبز جھیل دکھائی دینے لگی ، ہم دیکھتے ہی دیکھتے اس کے قریب ہوتے گئے۔ جھیل
ہمارے دائیں طرف نشیب میں تھی جبکہ بائیں طرف بلند وبالا پہاڑوں کا سلسلہ سڑک کے ساتھ ساتھ جاری تھا۔ ہم
جھیل کو چھوڑتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔ جھیل کے اختتام پر دیوسائی کے برف پوش پہاڑوں سے اترتی انتہائی کشادہ
پاٹ کی ندی کا پانی خوبصورت ڈیلٹا بناتا ہئوا جھیل میں اترتا تھا۔ ندی کے دوسری طرف کے پہاڑ بھی بہت بلند
تھے۔ دیوسائی کی طرف جاتی سڑک پر بائیں طرف کے پہاڑ ، دائیں طرف ندی کے چوڑے پتھریلے پاٹ کے بیچ مختلف
چھوٹے چھوٹے شفاف نالوں کی صورت بہتا جھیل کی طرف بڑھتا پانی اور ندی کے دوسرے کنارے کے بلند پہاڑوں کا
یہ نظارہ بہت دلکش تھا۔ میں ندی کے اس حسین کشادہ پتھریلے پاٹ میں اترنا چاہتا تھا۔ دس سال قبل میرا دل
اس وقت بھی اس ندی کنارے اترنے کے لئے مچلتا تھا جب ہم جیپ میں دیوسائی کی طرف جاتے تھے۔ آج اللہ کے فضل
وکرم سےوقت ہماری دسترس میں تھا اور اپنی مرضی سے کہیں بھی رکنے کا اختیار بھی۔ کچھ فاصلہ طے کر کے
بالآخر مجھے ایک ایسی مناسب جگہ نظر آگئی کہ جہاں سے بآسانی نشیب میں اتر کر ہم ندی کے اس کشادہ پتھریلے
پاٹ کے درمیان شفاف نالوں کی صورت بہتے پانی تک پہنچ سکتے تھے۔ گزشتہ روز اسکردو میں داخلے کے وقت ملنے
والی لذیذ چیریاں بھی ہم ساتھ لے آئے تھے۔ دیوسائی کے برف زاروں سے اترتے یخ شفاف پانی میں بھگو نے کے بعد
چیریوں کی لذت بھی دو چند ہو گئی تھی۔ جس طرف سے ندی بہتی آتی تھی دور سدپارہ کا چھوٹا سا گائوں نظر
آتا تھا جس میں موجود سرسبز درختوں کے جھنڈ انتہائی دلکش دکھائی دیتے تھے۔ درختوں کے جھنڈ اور سد پارہ
گائوں سے مزید پرے دکھائی دیتے دیوسائی کے پہاڑوں کی برف پوش چوٹیاں، دائیں طرف ندی کے کشادہ پاٹ کے
دوسرے کنارے کے بلند پہاڑ ،بائیں سمت پہاڑ کے ساتھ ساتھ دیوسائی کے میدانوں کی طرف جاتی سڑک کہ جس کے
کنارے کھڑی ہماری گاڑی ایک چھوٹے سے سفید پتھر کی مانند نظر آتی تھی۔ جس طرف ندی کا یہ پانی بہتا جاتا
تھا اس کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہماری نظرِیں دور دکھائی دیتی سدپارہ جھیل کے سبز جھلملاتے پانی کے خوبصورت
منظر تک پہنچتی تھیں۔ اوپر نیلے آسمان میں تیرتے اور اڑتے سفید بگلوں جیسے بادلوں کے ٹکڑے، ہمارے پیروں کے
پاس بہتا، گنگناتا ندی کا یخ شفاف پانی اور سب سے بڑھ کر اس سحر انگیز منظر کے حسین کینوس پر صرف ہم
دو ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے خوشگوار جھونکے اس خوبصورت منظر کو مزید دلکش بناتے تھے۔ اپنے ہاتھوں میں چیریاں
لئے میں دس سال پہلے کی اس حسین یاد میں کھو گیا کہ جب چیریوں کا شاپر ہاتھ میں لئے گلیشئر کے پگھلتے پانی
میں انہیں ٹھنڈا کرتا تھا۔ آج ہم اس ندی کے شفاف پانی میں چیریاں ٹھنڈی کر کے کھاتے تھے، چیریوں کی لذت اور
ان حسین قدرتی مناظر کی خوبصورتی پر اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے اور شکر بجا لاتے تھے کہ اس نے ہمیں یہ
موقع عطا فرمایا کہ تین دن قبل ہم راما میں گلیشئرز سے اترکر نیچے آتے نالے کے پاس کھڑے تھے اور آج سد پارہ کی
اس سحر انگیز وادی کے درمیان بہتی شفاف ندی کنارے موجود تھے۔ اور اس وسیع و عریض جنت میں ہم دونوں
کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔
اسکردو کے ہوٹل سے سدپارہ کی ندی تک ۔۔۔ کچھ تصاویر
پولو گرائونڈ اسکردو



جہاں ناشتہ کیا ، اس ہوٹل کا تنور ۔۔۔۔

پہاڑ کے دامن میں سڑک کنارے کھڑی گاڑی ، ایک چھوٹے سفید پتھر کی مانند

عقب میں نظر آتی سدپارہ جھیل ۔۔۔۔

دیوسائی کی طرف جاتی سڑک ۔۔ دور سے دکھائی دیتا سدپارہ گائوں ۔۔۔

سال 1904 دیوسائی کے میدان میں خوش ذائقہ چیریوں کے ساتھ ۔۔۔

سال 2014 دیوسائی کے گلیشئرز سے اترتی ندی میں چیریوں کے ساتھ ۔۔۔




سال 2004 دیوسائی کےبرف زاروں میں بڑی بیٹی کے ہمراہ ۔۔۔

سال 2014 دیوسائی کے برف زاروں سے اترتی ندی کنارے ہمسفر کے ساتھ ۔۔۔۔


[/RIGHT]