[RIGHT]
عصر کی نماز ہوٹل میں ہی پڑھ کر ہم ساڑھے چار بجے کے بعد چشمے کے لئے روانہ ہوئے تو ہوائوں کے تیز جھکڑ
تھم چکے تھے لیکن اسکردو کا آسمان سرمئی بادلوں سےڈھکا ہوا تھا۔ راستے میں کچھ بوندیں بھی پڑیں لیکن بادل
اس نوعیت کے نہ تھے کہ باقاعدہ بارش کا کوئی امکان ہو۔ ہوائیں اب بھی چلتی تھیں اور بادل ان کے دوش پر آہستہ
آہستہ اڑتے وادی سے دور ہوتے جاتے تھے۔ دس سال کا طویل عرصہ گزر جانے اور سڑک کے دونوں اطراف نئی تعمیر
کردہ عمارتوں کے باعث چشمے کی طرف جانے والا راستہ ذہن سے فراموش ہو چکا تھا۔ ائر پورٹ کو پیچھے چھوڑتے
ہوئے ہم آگے بڑھتے جاتے تھے۔ جب کیڈٹ کالج اسکردو کی چار دیواری ہمارے بائیں ہاتھ پر ساتھ ساتھ چلنا شروع ہوئی
تو اندازہ ہوا کہ ہم شاید زیادہ آگے نکل آئے ہیں، کیڈٹ کالج کی خوبصورت عمارت کے قریب سڑک کے کنارے موجود ایک
چیک پوسٹ کے قریب گاڑی روک کر ایک دو راہگیروں سے چشمے کا راستہ دریافت کیا۔ اندازہ درست تھا، ہم خاصا
آگے نکل آئے تھے۔ واپس مڑے اور ان کی بتائی گئی نشانی کے مطابق ائرپورٹ سے کچھ قبل دائیں طرف جاتے ایک
کچے راستے پر گاڑی موڑ دی۔ دس سال کا طویل عرصہ اس راستے کی قسمت نہ بدل سکا تھا بلکہ اس بار یہ کچھ
زیادہ ہی کچا محسوس ہوتا تھا۔ ایک پجیرو جیپ ہمیں پیچھے چھوڑتی ہوئی آگے نکلی تو اس کچی راہ پر جیپ کے
پہیوں سے اڑنے والی دھول نے ہمیں شیشے چڑھانے پر مجبور کر دیا ۔ اگر ایسا نہ کرتے تو چشمے کنارے موجود لوگوں
کو یہ یقین دلانا پڑ جاتا کہ ہم انہی میں سے ایک ہیں ،کوئی بھوت پریت نہیں۔ سڑک غیر ہموار تو تھی ہی ، سونے پر
سہاگہ یہ کہ کچی سڑک پر اسقدر مٹی تھی کہ راستہ دیکھنے کے لئے مجھے اپنی رفتار کچھ دھیمی کر کے آگے جانے
والی جیپ سے اپنا فاصلہ بڑھانا پڑا لیکن میں رفتار زیادہ دھیمی اس لئے نہ کرسکتا تھا کہ سڑک پر موجود مٹی کے
ڈھیر گاڑی کے پہیوں کو جکڑنے کی کوشش نہ شروع کر دیں۔ غنیمت تھا کہ ہم اس پریشان کن کیفیت سے زیادہ
دیر تک دوچار نہ ہوئے، کچھ ہی فاصلہ طے کیا تو سڑک کی حالت کچھ بہتر ہو گئی۔ کچھ ہی دوری پر ہرے بھرے
درخت نظر آتے تھے اور ہم تیزی سے ان سے قریب تر ہوتے جاتے تھے۔ جلد ہی ہم چھوٹے سے سبزہ زار کے درمیان
واقع جھیل تک پہنچ چکے تھے۔ سامنے ہی وہ آہنی پائپ نظر آتا تھا جس سے پانی کی موٹی دھار سڑک کے درمیان گرتی
تھی۔ سبزہ زار میں جگہ جگہ بڑے بڑے پتھر موجود تھے۔ ہم نے اس سبزہ زار کے ساتھ ہی گاڑی روک دی۔ چشمے
کے پانی سے لبریز جھیل دیکھتے ہی سب پرانی یادیں تازہ ہو گئیں ، مجھے وہ جگہ بھی یاد آگئی کہ جہاں پتھروں
کے بیچ سے یہ چشمہ پھوٹتا تھا۔ اس جگہ کے قریب ہی ایک بڑے سے چٹان نما پتھر پرکہو اللہ لکھا ہوا تھا۔ دل تھا کہ
بے اختیارسبحان اللہ کا ورد کرتا تھا جبکہ ان چٹیل چٹانوں کے درمیان سے پھوٹتا ٹھنڈے اور شفاف پانی کا یہ چشمہ
کن فیکون کی گواہی دیتا تھا۔ ہم سفر اور میں چشمے کے منبع تک جا پہنچے۔ دس سال قبل ہماری تینوں بیٹیاں بھی اس حسین
مقام پر ہمارے ساتھ تھیں۔ ہم نے جی بھر کریہ ٹھنڈا اورشفاف پانی پیا بھی اور ساتھ لائی ہوئی بوتل میں بھرا بھی۔ پھر جھیل
کنارےکنارے آگے چلتے گئے۔ جھیل کے ساتھ ہی فش فارم کی عمارت موجود تھی لیکن وہاں تالا لگا تھا۔ ٹہلتے
ہوئے کچھ اورآگے بڑھے تو درختوں کے جھنڈ تلے سبزہ زار کے درمیان جھیل سے نکلنے والا چھوٹا سا خوبصورت
نالہ بہتا ہوا گزرتا تھا۔ ہمارے آگے آنے والی پجیرو جیپ ایک جانب کھڑی تھی ۔ یہ جگہ غالباً اہل اسکردو کیلئے ایک تفریح
گاہ کی حیثیت رکھتی تھی کیونکہ جیپ میں آنے والی فیملی نالے کے ساتھ اس سبزہ زار میں موجود تھی۔ ان کے
ساتھ آئے ہوئے بچے ادھر ادھر دوڑتے پھرتے تھے ، نالے میں نہاتے اور اٹھکیلیاں کرتے تھے۔ درختوں کے
نیچے ایک دو بچھڑے بندھے تھے۔ میں نے اس فیملی کے ساتھ آئے ہوئے شخص سے سلام دعا کے ساتھ ساتھ
پیارے سے بچھڑوں سے بھی خیریت دریافت کی۔ نالے کو پار کرنے کے لئے درخت کا ایک سوکھا تنا پل
کا کام انجام دے رہا تھا۔
اسکردو کے ہوٹل سے چشمے تک کے سفر کے دوران کچھ تصاویر ۔۔۔




پتھروں کے بیچ سے پھوٹتا چشمہ ۔۔۔











[/RIGHT]