[RIGHT]گیارہواں دن
منٹھوکھا کی خاموش آبشار ۔۔۔ حسین آباد کا خوبصورت پارک
صبح ناشتے سے قبل ہی تقریباً پونے آٹھ بجے ہم منٹھوکھا آبشار کے لئے روانہ ہو گئے۔ اسکردو سے نکل کر دریائے سندھ[HR][/HR]کے ساتھ ساتھ مزید آگے جانے والی سڑک پر ہم 1988 میں بھی شیگر جانے کیلئے سفر کر چکے تھے لیکن شیگر جانے[HR][/HR]کے لئے اس سڑک پر تقریباً دس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے تھورگو قصبے کےسہ راہے سے ایک راستہ بائیں طرف مڑ[HR][/HR]جاتا ہے جہاں سے دریائے سندھ پر موجود پل عبور کرکے شیگر جانا ہوتا ہے۔ یہی راستہ شیگر سے مزید آگے بڑھتا ہوا[HR][/HR]اسکولے اور پھر کےٹو کے بیس کیمپ تک جانے والی راہ تک چلتا چلا جاتا ہے۔ 1988 میں ہم شیگر کی سیر کے دوران [HR][/HR]وہاں سے کچھ ہی آگے واقع ہاشو پیر باغ تک گئے تھے۔ اگست کا مہینہ ہونے کے باعث پھل پکے ہوئے تھے ۔ تازہ، رسیلے[HR][/HR]اور شیریں آڑوئوں اور سیبوں کا ذائقہ ہم آج تک نہیں بھول پائے۔ آج ہمیں تھورگو کے قصبے کے اس سہ راہے سے [HR][/HR]بائیں طرف شیگر کے لئے مڑنے کے بجائے دریائے سندھ کے دائیں کنارے کے ساتھ ساتھ جاتی سڑک پر سفر کرنا تھا۔[HR][/HR]تھورگو کے قصبے سے آگے یہ سڑک تقریباً تیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ایک اور سہ راہے پر پہنچتی ہے جو کہ[HR][/HR]دریائے سندھ اور دریائے شیوک کے سنگم کے قریب واقع ہے۔ اس سہ راہے سے پھر بائیں طرف مڑتی ایک سڑک [HR][/HR]دریائے سندھ کا پل عبور کر کے دریائے شیوک کے ساتھ ساتھ خپلو کے قصبے کا رخ کرتی ہے جبکہ دریائے سندھ کے [HR][/HR]دائیں کنارے کے ساتھ ساتھ چلتی سڑک اس دوسرے سہ راہے سے تقریباً 17 کلومیٹر کی دوری پر واقع مادھو پور[HR][/HR]کے قصبے تک پہنچتی ہے۔ منٹھو کھا آبشار جانے کے لئے دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ چلتی اس سڑک کو چھوڑ کر[HR][/HR]مادھو پور قصبے کے ساتھ ہی دائیں طرف کے پہاڑوں سے اترتے ایک نالے کے ساتھ ساتھ جاتے راستے پر دو سے ڈھائی[HR][/HR]کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے جبکہ دریائے سندھ کے دائیں کنارے کے ساتھ ساتھ جاتی سڑک مزید آگے بڑھتی ہوئی[HR][/HR]پاکستان اور بھارت کی متنازع سرحد تک جا پہنچتی ہے۔ اس متنازع سرحد کے دوسری طرف کارگل کا قصبہ واقع [HR][/HR]ہے اور اسی حوالے سے یہ سڑک کارگل اسکردو روڈ بھی کہلاتی ہے۔ دریائے سندھ بھی اسی مقام پر بھارتی حدود[HR][/HR]میں واقع لداخ کے علاقے سے نکل کر پاکستان میں داخل ہوتا ہے ۔[HR][/HR]تھورگو کے قصبے تک ہمارا سفر تقریباً میدانی علاقے میں ہی جاری رہا۔ شیگر کی طرف مڑنے والی سڑک کے سہ[HR][/HR]راہے پر پہنچ کر ہمارے دل میں 1988 کے سفر کی یاد تازہ ہو گئی اور ہم نے بائیں طرف مڑتی اس سڑک پر قریب[HR][/HR]ہی واقع دریائے سندھ کے پل تک جانے کا ارادہ کر لیا۔ 1988 میں تھورگو کا یہ قصبہ بہت ہی چھوٹا تھا۔ اس بار[HR][/HR]تقریباً دریا کے پل تک سڑک کے دونوں اطراف آبادی موجود تھی۔ اسی طرح 1988 میں دریائے سندھ پر آہنی رسوں[HR][/HR]اور لکڑی کے تختوں سے بنا ایک انتہائی قدیم پل بنا ہوا تھا کہ جو ہماری وین کے گزرتے وقت باقاعدہ جھولتا[HR][/HR]تھا اور وین کے پہیوں کے نیچے سے آنے والی لکڑی کے تختوں کی آواز سن کر ہم کچھ خوفزدہ بھی ہوتے تھے۔ آج[HR][/HR]اسی مقام پر نیا پل بنا ہوا تھا جو خوبصورت ،پائیدار اور پختہ تھا جبکہ اس نئے پل سے کچھ ہی فاصلے پر وہی[HR][/HR]قدیم پل اب بھی موجود تھا۔ ہم نے کچھ دیر اس پل کے پاس رک کر اپنی پرانی یادوں کو تازہ کیا اور پھر واپس[HR][/HR]اس سہ راہے کا رخ کیا کہ جہاں سے آگے کا سفر ہمارے لئے بالکل نیا تھا۔ دریائے سندھ سڑک کے بائیں جانب ہمارے[HR][/HR]ساتھ ساتھ بہتا تھا۔ دائیں طرف کچھ فاصلے پر چٹیل پہاڑ تھے ۔ ہم ان پہاڑوں کی کشادہ، پتھریلی اور بنجر [HR][/HR]وادیوں سے گزرتی سڑک پر آگے بڑھتے تھے۔ دریا کبھی کبھی ان بنجر وادیوں سے دوری اختیار کرتا تو اپنے چوڑے[HR][/HR]ریتیلے پاٹ سمیت ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتا۔ کبھی پہاڑوں اور دریا کے درمیان کی وادی کچھ تنگ ہو[HR][/HR]جاتی تو ہم دوبارہ دریا کی شکل دیکھ پاتے۔ دریا کا پاٹ بدستور خاصا کشادہ اور ریتیلا تھا۔ دریا کے دوسرے[HR][/HR]کنارے کے پہاڑ کبھی دریا کے کچھ قریب آجاتے تو اس کا سفید ریتیلا پاٹ سکڑ کرکچھ تنگ ہو جاتا۔ تقریباً نو بجے [HR][/HR]صبح ہم گول اسکردو کے قصبے میں پہنچے جہاں ایک چھوٹے سے ہوٹل کے اندر بنے کمرے کی فرشی نشست پر [HR][/HR]بیٹھ کرہم نے ناشتہ کیا۔
[HR][/HR]
ہمارے ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں آویزاں ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے کسی این جی او کی جانب سے شائع کردہ پوسٹر
کہ جس میں ٹریکرز اور کوہ پیمائوں کو اپنی مہم کے دوران ان خوبصورت پہاڑی راستوں اور بیس کیمپس کے ارد گرد
کوڑا کرکٹ پھینکنے کے بجائے اس مقصد کے تحت نصب کی گئی آگ کی بھٹی میں کچرا پھینکنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
یہ بلاشبہ ایک بہت اچھی کوشش اورانتہائی قابل تحسین اقدام ہے۔

ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں رکھا کھرمنگ کے علاقے سے لایا گیا انتہائی بڑے سائز کا پتھر سے تراشیدہ تاریخی
برتن کہ جس میں زمانہ قدیم میں ایک چھوٹے سے قصبے میں رہائش پذیر تمام افراد کیلئے سالن تیار کیا جاتا تھا


شیگر کی طرف جانے والی سڑک ۔۔ دریائے سندھ پر تعمیر کردہ نیا معلق پل

تھورگو کے مقام پر تعمیر کردہ نئے پل کے پیچھے وہ پرانا لکڑیوں کے تختوں سے بنا پل
نظر آرہا ہے جس پر سے ہو کر ہماری وین 1988 میں شیگر گئی تھی۔

تھورگو قصبے کے سہ راہے پر شیگر کی طرف مڑتی سڑک کی طرف اشارہ کرتا اور
فاصلوں سے آگاہ کرتا سائن بورڈ

گول اسکردو کے قصبے میں موجود ہوٹل کی فرشی نشست پر ناشتہ ۔۔۔



[/RIGHT]