[RIGHT]بارہواں دن
سوئے کریم آباد ۔۔۔ راکاپوشی اور میناپن ۔۔ ہنزہ کی حسین راہیں
ہوٹل منیجر کو رات کو ہی آگاہ کردیا تھا کہ ہم صبح سویرے یہاں سے روانہ ہوجائیں گے، اس لئے ہم جوں ہی صبح فجر[HR][/HR]
کی نماز کے بعد کمرے سے نکل کر ڈائننگ ہال میں آئے تو وہ بھی اپنے کمرے سے باہر نکل آیا۔ جس جاپانی جوڑے کو ہم[HR][/HR]
اسکردو کے اس ہوٹل میں اپنی آمد کے پہلے روز سے دیکھتے آئے تھے اس جوڑے کا مرد اتنی صبح بھی ڈائننگ ہال میں[HR][/HR]
موجود تھا۔ اپنی جاپان کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے میں نے اسے اوہایو گزائیموس کہہ کر صبح کا سلام کیا۔ اسکردو[HR][/HR]
میں گزارے ہوئے تینوں دنوں کے دوران یہ جاپانی جوڑا ہمیں جب بھی کبھی ڈائننگ ہال میں نظر آیا تو اپنے لیپ ٹاپ[HR][/HR]
پر نظریں جمائے مصروف کار ہی دکھائی دیا تھا۔ ان تین دنوں کے دوران یہ پہلا اتفاق تھا کہ یہ جاپانی مرد بغیر اپنی[HR][/HR]
ساتھی خاتون کے ڈائننگ ہال میں پایا گیا۔ میرے اوہایو گزائموس کہنے پر وہ مسکرادیا۔ ہال کے بیرونی دروازے پر فرش[HR][/HR]
کے ساتھ بند ہونے والی کنڈی میں ایک چھوٹا سا تالا لگا ہوا تھا۔ اس جاپانی نے منیجر سے چابی لے کر وہ تالا کھولا۔[HR][/HR]
ہوٹل سے رخصت ہوتے وقت منیجر اور جاپانی شخص دونوں باہر نکل کر ہماری گاڑی تک آئے۔ میں نے ہوٹل منیجر کو[HR][/HR]
اللہ حافظ اور جاپانی کو سایونارا کہا۔ اس نے بھی مخصوص جاپانی انداز میں تھوڑا سا جھک کر ہمیں سایونارا کہا۔[HR][/HR]
صبح کی روشنی پھیلنا شروع ہو گئی تھی لیکن اسکردو کی سڑکوں پر ابھی سناٹاتھا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دور نظر[HR][/HR]
آتے یادگار چوک پر الوداعی نظر ڈالی اور گلگت کی طرف اپنے سفر کا آغاز کر دیا۔ فضا میں اچھی خاصی خنکی کے[HR][/HR]
سبب ہم نے گاڑی کے شیشے بند کر رکھے تھے۔ یو ایس بی سے منسلک ہوجانے والا ایک چھوٹا سا اسپیکر ہم راستے میں[HR][/HR]
قرآن کی تلاوت سننے کی غرض سے اپنے ساتھ لائے تھے۔ ڈیش بورڈ پر رکھ کر ہم نے اسے آن کر دیا۔ گاڑی کے باہر [HR][/HR]
صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی روشنی میں نظر آتے حسین و دلکش قدرتی مناظر۔ ہماری گاڑی کے ڈیش بورڈ پر رکھے چھوٹے[HR][/HR]
سے اسپیکر سے نکل کر گونجتی تلاوت قرآن کی دل میں اترتی خوبصورت آواز نے وادی اسکردو کی خوبصورت راہگزر[HR][/HR]
پرصبح کے اس سفر کا لطف دوبالا کر دیا تھا۔[HR][/HR]
شمالی علاقوں میں خوش بختی کی علامت سمجھے جانے والے پرندے کشپ کبھی سڑک کے کنارے کسی درخت پر[HR][/HR]
کبھی کسی سرسبز کھیت کے باہر بنی منڈیر پر تو کبھی بجلی کے کھمبوں پر بیٹھے نظر آتے تھے۔ میں کسی طور قریب[HR][/HR]
سے ان کی تصویر کھینچنا چاہتا تھا۔ لیکن جب بھی میں کہیں گاڑی کی رفتار انتہائی آہستہ کر کے کیمرہ سنبھالتا وہ[HR][/HR]
پھر سے اڑ کر یہ جا وہ جا۔ اس لئے بھرپور کوشش کے باوجود مجھے قریب سے ان کی تصویر لینے میں ناکامی کا سامنا[HR][/HR]
ہی کرنا پڑا۔ دریائے سندھ پر واقع پل عبور کر کے ہم آگے بڑھتے تھے۔ ایک جگہ دور سامنے سڑک کنارے دریا کے ساتھ[HR][/HR]
ایک چٹان کی کگر پر کچھ کوے بیٹھے نظر آئے تو ہم سفر نے ان کی تصویر کھینچنے کا ارادہ کیا۔ لیکن جوں ہی ہماری[HR][/HR]
گاڑی ان کے قریب پہنچی تو انہوں نے وہاں سے اڑان بھرنے میں چنداں دیر نہیں لگائی۔ گردوپیش کے پہاڑوں اور دور
[HR][/HR]
نظر آتی برف پوش چوٹیوں پر اب دھوپ چمکتی دکھائی دیتی تھی۔ جوں جوں یہ دھوپ ان پہاڑی دروں میں اترتی[HR][/HR]
تھی، ان دروں کے بیچ بل کھاتی راہوں پر دوڑتی ہماری گاڑی کے شیشے بھی اترتے تھے ۔ سڑک پر ٹریفک نہ ہونے[HR][/HR]
کے برابر تھا۔ جن قصبوں کے بیچ سے گزر تے ہوئے ہم اسکردو پہنچے تھے اب ان کو پیچھے چھوڑتے ہم شاہراہ قراقرم[HR][/HR]
کی طرف بڑھتے جاتے تھے۔ اسکردو کی طرف آتے ہوئے ہم نے اس سڑک پر بھرپور دوپہر کے وقت سفر کیا تھا اس لئے[HR][/HR]
ان سنگلاخ پہاڑوں کے تپنے کی وجہ سے ہمیں کہیں کہیں کچھ گرمی بھی لگتی تھی۔ واپسی کے اس سفر میں صبح[HR][/HR]
ابھی تک دوپہر میں نہیں بدلی تھی اس لئے کھڑکیوں سے در آتی ہوا بدستور خوشگوار تھی اور ہمارا سفر انتہائی خوش[HR][/HR]
اسلوبی سے طے ہورہا تھا۔ اسکردو آنے کے دوران اس سڑک کے بیشتر خوبصورت مقامات پر ہم رکتے رکاتے آئے تھے[HR][/HR]
اس لئے اس بار ہم بغیر رکے سفر کرتے تھے۔ کوشش یہی تھی کہ گرمی کی شدت بڑھنے سے پہلے پہلے ہم شاہراہ قراقرم[HR][/HR]
کے نزدیک تر پہنچ جائیں، لیکن بہرحال ناشتے کیلئے تو کہیں رکنا ہی تھا۔ شنگس گزرگیا اور شاٹوٹ بھی۔ پونے گیارہ[HR][/HR]
کے قریب بالآخر ہم سسی کے قصبے کے اسی چھوٹے سے ہوٹل کے پاس رکے جہاں اسکردو آتے وقت ہم نے چائے[HR][/HR]
پی تھی۔ ناشتے کا وقت گزر گیا تھا اس لئے ہم پراٹھےکھانے سے محروم رہے۔ بھنڈی کی ترکاری تیاری کے آخری مراحل[HR][/HR]
میں تھی، چنانچہ ہم نے بھنڈی روٹی کھائی۔ بعد میں چائے پی کر دل کو کسی حد تک بہلایا اور پھسلایا کہ ہم نے ناشتہ[HR][/HR]
ہی کیا ہے۔ ہمارا سفر اسکردو روڈ پر جاری تھا۔ دوپہر کا وقت ہو چلا تھا ،دھوپ کی تیزی رفتہ رفتہ بڑھنا شروع ہو[HR][/HR]
گئی تھی۔ راستے میں سڑک کنارے ایک مقامی بچے سے تازہ خوبانیاں خریدیں۔ بچے کے بھولے بھالے اور شگفتہ[HR][/HR]
چہرے سے بھی میٹھی اور رسیلی خوبانیوں کی طرح معصومیت کا رس ٹپکتا تھا۔ ہم نے اس کی ایک تصویر اپنے کیمرے[HR][/HR]
میں محفوظ کر لی۔ پون بجے کے قریب ہم دریائے گلگت پر واقع عالم پل تک پہنچ گئے جس کو پار کر کے ہمیں دریا کے [HR][/HR]
دوسری طرف کچھ بلندی پر دکھائی دیتی شاہراہ قراقرم پر پہنچنا تھا۔[HR][/HR]
اسکردو سے شاہراہ قراقرم تک کے سفر کے دوران ۔۔۔۔۔
کشپ

پتھروں کے بیچ اگے درخت یا درختوں کے بیچ اگے پتھر ۔۔۔ انوکھا منظر



چٹانوں کے سائے تلے گزرتی اسکردو روڈ


صبح صبح اپنے فرائض میں مصروف ہمارے پیارے وطن کے عظیم محنت کش

چٹان کی کگر پر بیٹھے کوے جنہوں نے ہمیں قریب آتا دیکھ کرفوراً اڑان بھر لی


خوبانی کی طرح تازہ ،شگفتہ اور معصوم خوبانی فروش بچہ

دور سے دکھائی دیتا عالم پل

[/RIGHT]