[RIGHT]پونے 11 بجے کے قریب ہم بٹ گرام سے روانہ ہوئے۔ تھاکوٹ یہاں سے 23 جبکہ بشام 53 کلومیٹر کی دوری پر تھا۔
بٹ گرام سے نکلنے کے بعد شاہراہ قراقرم کو ہم نےاب تک کے سفرکی سب سے بہتر حالت میں دیکھا۔ موٹروے جیسی
کشادہ سڑک اب مزید بلند وبالا سرسبز پہاڑوں کے ساتھ چڑھتی اترتی آگے بڑھتی تھی۔ ہمارے بائیں طرف شاہراہ کے
ساتھ ساتھ کافی نشیب میں ایک ندی بہتی تھی۔ بلند سے بلند تر ہوتے ہوئے پہاڑ اور سڑک سے متصل خاصی گہرائی میں
بہتی ہوئی ندی ۔ ہمارا سفر اب زیادہ محتاط ڈرائیونگ کا متقاضی تھا ، میں اس پر عمل پیرا بھی تھا لیکن شاہراہ
بہترین حالت میں بھی تھی اور کشادہ بھی ۔ ندی والی طرف مضبوط حفاظتی منڈیر اور ہر موڑ اور سڑک کے نشیب وفراز
سے آگاہ کرنے والے سائن بورڈز کے باعث سفر میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ تھا۔
ایک سائن بورڈ پر لکھی تحریرنے ہمارا دل باغ باغ کر دیا۔ وہ تحریر نہ تھی بلکہ ہمارے دل کی بات تھی جو ہو بہو اس
بورڈ پر آویزاں کردی گئی تھی۔ ''جہاں ہم قدم بڑھائیں یہ رستے چلتے جائیں''۔
ہمارے قدم بڑھتے جاتے تھے اور رستے چلتے جاتے تھے۔ ایک شعر تھوڑی سی ترمیم پر شاعر سے معذرت کے ساتھ
دیکھنا تحریر کی لذت کہ جو اس نے لکھا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں تھا
موسم مزید خوشگوار ہو گیا تھا کہ بادلوں نے اب زیادہ تر آسمان کوڈھک لیا تھا۔ شاندار شاہراہ قراقرم، خوشگوار
موسم اورجاندار مناظر نے بٹ گرام سے تھاکوٹ تک کے اس سفر کو یادگار بنا دیا تھا۔
تقریبا آدھے گھنٹے بعد ہم تھاکوٹ کے قریب پہنچے تو ہمارے بائیں طرف نشیب میں بہنے والی ندی دورنظر آتے
دریائے سندھ کے چوڑے پاٹ میں گم ہوتی دکھائی دی۔ تھا کوٹ کے قصبے سے کچھ قبل ایک سڑک شاہراہ
قراقرم کے بائیں طرف مڑتی تھی جو بل کھاتی نشیب کی طرف اترتی تھی۔ ندی کا پل عبور کرکے سامنے موجود
ایک چھوٹی سی آبادی سے گزر کر ندی کے اس پار موجود پہاڑ کے دامن سے لپٹتی دریائے سندھ کے کنارے کی طرف
جا رہی تھی۔ وہیں ندی اور دریا کا حسین ملاپ بھی ہو رہا تھا۔ جہاں سے یہ سڑک مڑتی تھی وہیں شاہراہ کے ساتھ ہی
بس اسٹاپ تھا اورمسافروں کے بیٹھنے کے لئے خوبصورت شیڈ تلے کچھ بنچیں موجود تھیں۔ ہم نے اس شیڈ کے قریب
گاڑی روک لی۔ شیڈ کے ساتھ ہی نصب ایک بورڈ پر اس مقام کا نام '' پیر سر'' اوراس کا تاریخی پس منظر بھی تحریر
تھا۔ کچھ دیراس شیڈ تلے اور اس خوبصورت مقام پر سستانے کے بعد ہم دریائے سندھ کے کنارے نشیب کی طرف جاتی اس
سڑک پر مڑ گئے۔
ندی کے پل کے اس پار موجود چھوٹی سی آبادی سے گزر نے کے بعد ہم نے سڑک کے کنارے ایک گھنے درخت کی
چھائوں تلے گاڑی روک دی۔ یہاں سے سڑک کے دائیں طرف ایک راستہ سفید چمکتی ریت اورچھوٹے بڑے پتھروں کے
درمیان سے ہوتا ہوا تھوڑے فاصلے پر کچھ نشیب میں واقع دریائے سندھ اور ندی کے کنارے تک جاتا تھا۔ ہم اس چاندی
کی طرح چمکتی ریت پر چلتے ہوئے دریائے سندھ کے کنارے تک پہنچ گئے۔
دریا ایک بے حد چوڑے پاٹ میں ٹھاٹھیں مارتا بہتا تھا۔ ہم دریا کنارے ریت میں دھنسے ایک چٹان نما بڑے سے
پتھر کے قریب پہنچے۔ پتھر کی اوپری سطح ایک چھوٹے سے میدان کی مانند تھی جس کے دوسری طرف دریا کا
پانی اس سے ٹکراتا ہوا بہتا تھا۔ پانی کی کچھ ہلکی پھلکی موجیں اس پتھر کے ساتھ ساتھ گھوم کر ہماری طرف آتی تھیں
اور ہمارے پیر بھگوتی تھیں۔ ہم دریا کے پانی میں پیر ڈالے پتھر سے ٹیک لگائے کھڑے تھے۔ قریب ہی ندی کا شفاف
پانی دریائے سندھ کے مٹیالے پانی میں مل کر اپنے رنگ سے ہاتھ دھوتا تھا۔ ہم اس پتھر کی سپاٹ سطح پر بھی چڑھے
جہاں سے چاروں طرف کے خوبصورت مناظرہمارے سامنے تھے اور چوڑے پاٹ میں بہتا دریائے سندھ ہمارے
قدموں تلے ٹھاٹھیں مارتا تھا۔
جس سمت سے دریا بہتا ہوا آرہا تھا سامنے کچھ دوری پرموجود شاہراہ قراقرم اور تھاکوٹ کی آبادی کی عمارتیں نظر آتی
تھیں۔ تھاکوٹ کی آبادی کے ساتھ سے گزرتا ہوا یہ دریا آگے تربیلا کی سمت بہتا چلا جاتا تھا۔ تھا کوٹ کے اس مقام پر
پاکستان کے شمالی علاقوں سے نیچےاترتا یہ عظیم دریا پوری آزادی آور جوش سے بہتا تھا لیکن تھاکوٹ سے نکلنے
کے بعد اس کی آزادی رفتہ رفتہ عارضی قید میں بدلتی جاتی تھی۔ یہاں سے تربیلا تک پھیلے ہوئے پہاڑی سلسلوں کی
مضبوط چٹانیں اس کی آزادی سلب کرکے اس کو اپنے حصار میں لیتی تھیں۔ دریا کے اس ٹھاٹھیں مارتے بہائو کو قید کرتی
تھیں اور پانی کے اس بڑے ذخیرے کو تربیلا ڈیم کےمقام پر اللہ کے بے پناہ فضل و کرم سے انسان کے اختیار میں دیتی
تھیں کہ وہ اپنی مرضی سے اس پانی کو فصلوں کی ۤآبیاری اور بجلی کی پیداوار کیلئے استعمال کر سکے۔ ہم یہاں اس پتھر
پرکھڑے آزادی کے ساتھ بہتے اس دریا کا نظارہ کرتے تھے۔ میں سوچتا تھا کہ ہم اپنی گاڑی میں سفر کرنے کے باعث اس
شاہراہ اور اس کے ارد گرد پھیلے اور بکھرے ان بے شمار اور یادگار قدرتی مناظر کا بھرپور لطف اٹھانے
کے قابل تھے۔ میں نے دور درخت کی چھائوں تلے کھڑی اپنی مہران کو دیکھا اور دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ
جس نے ہمیں بے شمار دیگر نعمتوں کے ساتھ ساتھ یہ نعمت بھی عطا فرمائی۔ سندھ کنارے اس خوبصورت مقام پر ہم نے
تقریباً نصف گھنٹے کا یادگار وقت گزارا۔
بٹ گرام سے تھاکوٹ کے درمیان کے کچھ مناظر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔














[/RIGHT]