[RIGHT]نماز کے بعد مسجد سے نکلا تو شاہراہ پر دھوپ خاصی تیز تھی۔ کچھ پیاس محسوس ہو ئی تو شنگ کے اس چھوٹے سے
بازار میں میری نگاہیں کسی دکان کو تلاش کرتی تھیں کہ پانی کی ایک ٹھنڈی بوتل خرید لی جائے۔ اکا دکانیں نظر
آئیں لیکن غالباً وہ جمعے کی نماز کا وقت ہونے کی بنا پر بند تھیں۔ تھاکوٹ سے یہاں تک ڈیڑھ گھنٹے کے اس
پر صعوبت سفر نے ہم سفر کو بھی کچھ کوفت اور تکان میں مبتلا کر دیا تھا۔ میں بازار بند دیکھ کر گاڑی کی طرف
بڑھا تو سڑک کے بائیں طرف گاڑی کے ساتھ ہی سرکاری صحت مرکز کا بورڈ اور عمارت نظر آئی۔ سوچا کہ یہاں
پینے کے لئے پانی تو مل ہی جائے گا، ہو سکتا ہے ہم سفر کو نماز پڑھنے کے لئے کوئی مناسب جگہ بھی
مل جائے اور وہ بھی میری طرح وضو کر کے کچھ تازہ دم ہو سکے۔ میں ہمسفر کو ساتھ لے کر بورڈ کے ساتھ ہی
کچھ فاصلے پر واقع صحت مرکز کے گیٹ کی طرف بڑھ گیا۔ گیٹ پر تالا لٹکتا دیکھ کر ہم دونوں کے چہرے بھی کچھ
لٹک گئے۔ میں نے ایک دفعہ پھر بازار کا طائرانہ جائزہ لیا کہ شاید کوئی دکاندار جمعے کی نماز ختم ہونے کے بعد
دکان کھولتا ہو لیکن بے سود۔ ہم شنگ سے خالی ہاتھ ہی بشام کی طرف روانہ ہونے کے لئے گاڑی کی طرف چل دئے۔
مسجد سے نمازیوں کے باہر نکلنے کا سلسلہ جاری تھا۔ ابھی ہم گاڑی کے قریب ہی پہنچے تھے کہ ہمیں نماز پڑھ کر
باہر نکلنے والے ایک شخص نے سلام کیا۔ شاید وہ مسجد سے نکلنے کے بعد سے ہمارا صحت مرکز تک جانا اور
بازار کی طرف اٹھتی ہماری متلاشی نظروں کو دیکھ چکا تھا۔
"آپ کیا تلاش کر رہے ہیں ؟"
"اہلیہ کو نماز ادا کرنا تھی ،خیال تھا کہ شاید اس صحت مرکز میں کوئی مناسب جگہ ہو ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ "
جمعے کے دن دوپہر کے وقت یہ بند ہوتا ہے " میری بات کاٹ کر اس نے جملہ تو پورا کیا ہی، ساتھ ہی یہ پیشکش
بھی کر دی کہ " اگر آپ مناسب سمجھیں تو میرا گھر بالکل نزدیک ہے ،آپ کی اہلیہ نماز بھی ادا کر لیں اورآپ لوگ
پانی شانی بھی پی لیں۔
پیشکش رسمی نہ تھی بلکہ خلوص کی بھرپور چاشنی لیے ہوئے تھی، سب سے بڑھ کر اس وقت ہماری طلب کے
عین مطابق تھی۔ ہم اس چھوٹے سے قصبے کے مخلص مکین کے شکر گزار ہوئے اور بلا تکلف پیشکش کو
قبول کرتے ہوئے بن بلائے اس میزبان کے ہمراہ سڑک کے دائیں طرف نشیب میں اترتی ہوئی ایک تنگ گلی میں داخل
ہو گئے۔ گلی کے دونوں اطراف مکان بنے ہوئے تھے جن کا سلسلہ گلی کے ساتھ ساتھ نشیب میں اترتا تھا۔
ہمیں زیادہ دور تک نہیں جانا پڑا لیکن غالباً گلی اور مکانوں کا یہ سلسلہ نیچے بہتے دریائے سندھ کے قریب تک
جارہا تھا۔ ہمارے میزبان نے راستے میں دوران گفتگو میرے اس خیال کی تصدیق بھی کر دی۔ بائیں ہاتھ پر واقع ایک
گھر کا لکڑی کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوئے اور ہمیں بھی اندر آنے کا اشارہ کیا۔ ہم جھجھکے کہ اندر خواتین
بھی موجود ہوں گی لیکن یہ ایک خالی مکان تھا۔ ایک بڑا ساکچا صحن جس میں ایک دو درخت بھی موجود تھے۔
اس سے متصل پختہ برآمدہ اور برآمدے سے متصل عقب میں ترتیب وار تین کمرے۔
یہ گھر میں نے نیا بنوایا ہے۔ کچن ابھی زیر تعمیر ہے اس لئے اہل خانہ اسی گھر سے متصل میرے دوسرے گھر میں
مقیم ہیں۔
ہمارے میزبان نے گھر کے خالی ہونے کی وجہ سے ہمیں آگاہ کیا۔ برآمدے میں رکھے ہوئے ایک پلنگ پر ہم بیٹھ گئے۔
برآمدے کے ایک کونے میں صحن کے ساتھ پانی کا ایک ڈرم رکھا تھا۔ میری ہمسفر اس ڈرم کی طرف وضو کرنے
اور ہمارے میزبان ہمارے پینے کے لئے پانی شانی لینے اپنے دوسرے گھر چلے گئے۔ ان کی واپسی تک ہم دونوں
اس پلنگ پر بیٹھے اپنی نظروں کے سامنے موجود دریائے سندھ کے دوسرے کنارے پر واقع اس
بلند و بالا پہاڑ کو دیکھتے تھے کہ جس کی اونچائی نے آسمان کے بڑے حصے کو ہماری نگاہوں سے اوجھل کررکھا تھا۔
شنگ ، بشام اور پھر مزید آگے بڑھتی شاہراہ پر ہمارا واسطہ اسی طرح کے بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ بلند پہاڑوں
سے پڑنے والا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں صحن میں موجود لکڑی کا دروازہ کھلا اور ہمارے میزبان ٹرے میں پانی کا جگ
اور گلاس لئے داخل ہوئے۔ قریب پہنچے تو وہ ٹھنڈے پانی کے ساتھ ہمارے لئے ایک مزید پیشکش بھی ساتھ
لائے تھے۔
"آپ ہمارے گھر سے دوپہر کا کھانا کھا کر جائیں گے۔"
ہم دونوں نے بہ یک زبان ان کی اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا لیکن ان کی یہ پیشکش پہلے اصرار اور پھر
اس قدر پرزور اصرار میں بدلی کہ ہمارا بھرپور انکار، پہلے انکار اور پھر اقرار میں بدلنے پر مجبور ہو گیا لیکن اس
اقرار کیلئے ہم نے یہ شرط رکھی کہ فوری طور پر جو بھی ماحضر ہو ہم صرف اسی پر اکتفا کریں گے ،کوئی تکلف
اور خصوصی اہتمام قطعاً نہ کیا جائے۔ انہوں نے ہماری شرط مان لی۔ کمرے میں میری ہم سفر کیلئے جانماز بچھا کر
وہ دوبارہ چلے گئے۔ ہم سفر نماز پڑھ کر آئی اور ہم ایک دفعہ پھر سامنے آسمان کو چھوتے پہاڑ کو دیکھتے ہوئے یہ
سوچتے تھے کہ اس کی چڑھائی اتنی عمودی اور خطرناک ہے کہ اس پر کسی انسان کا چڑھنا تو بالکل ناممکن نظر آتا
ہے۔ ہمارے میزبان نے ہمیں زیادہ غورو خوض کا موقع نہیں دیا اور صرف دس منٹ بعد ہی ایک بڑی سی ٹرے میں کھانا
لا کر اندر کمرے میں رکھی میز پر سجا دیا۔ تین مختلف ڈشز کے ساتھ ساتھ دہی کی نمکین لسی اور کولڈ ڈرنک۔
اتنا اہتمام اور وہ بھی اتنی جلد۔ ہمارے شنگ کے اس میزبان نے ہمیں دنگ کر دیا۔ دریائے سندھ ان کے گھر کے بالکل
قریب بہتا تھا اور یہ یقیناً اس کا اثر تھا ۔ ہمارے میزبان دریا دل بھی تھے اورشنگ میں برق رفتاری سے بہتے دریا کی
طرح پھرتیلے بھی۔ ہمیں پوری میز پر سجے کھانے کو دیکھ کر اعتراض تھا کہ وہ ہماری صرف ماحضر والی شرط
سے انحراف کے مرتکب ہوئے لیکن ان کا ٹھاٹھیں مارتا خلوص ہمارے اعتراض کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے
جاتا تھا۔ کھانے کے دوران گفتگو سے اجتناب کرنا چاہئیے لیکن ہمارے اور ہمارے میزبان کے پاس کچھ کہنے اور
سننے کے لئے یہی مختصر ساوقت تھا سو ہم دونوں کی طرف سے اس اجتناب کو خاطر میں نہ لایا گیا۔
سامنے والے پہاڑ کے بارے میں ہمارے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ اس پر باقاعدہ لوگوں کے گھر موجود ہیں
جن کے باسی سردیوں کے دوران دریا میں پانی کی سطح کم ہونے پرفولادی تار کے چرخی والے پل سے ٹرالی
کے ذریعے اس پار آتے جاتے ہیں۔ اور گرمیوں کے آغاز سے قبل اشیائے خوردونوش کا ذخیرہ لے کر اپنے گھروں
تک محدود ہو جاتے ہیں اور ان پہاڑوں میں اپنے مال مویشی چرایا کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ باقاعدہ
ایک کچی سڑک بھی پہاڑ کے عقب سےآکر چوٹی سے ہوتی ہوئی پہاڑ کے اس طرف کچھ نشیب تک آتی ہے
جب کہ شاہراہ قراقرم کی تعمیر میں مصروف چینی انجینئرز کی سیکورٹی کی غرض سے اس پہاڑ پر حفاظتی چوکی
بھی موجود ہے۔ تھاکوٹ سے اس طرف شاہراہ کی تباہ حالی کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ 2010 میں ہونے
والی شدید بارشوں کے باعث شاہراہ سے متصل سنگلاخ پہاڑوں سے آنے والے پانی کے طوفانی ریلوں نے ان
پہاڑوں کے ساتھ ساتھ بچھی اس شاہراہ کو برباد کر کےرکھ دیا۔ خاص طور پر پہاڑی ندی نالوں
میں اس شدت کی طغیانی تھی کی ایک دو دن تک ایک سیلاب تھا جو کہ تھمتا ہی نہ تھا کہ کسی قسم کا ٹریفک
ان نالوں کو عبور کر سکے۔ انہوں نے 2010 کی تباہ کاریوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ بشام کی طرف جاتے ہوئے
شنگ سے نکلتے ہی ایک پہاڑی نالہ آتا ہے جس میں طغیانی کے باعث ایک بس نالے کے اس طرف شنگ میں رکنے
پر مجبور ہو گئی تھی ۔ بس میں موجود شہری علاقوں کی کچھ فیمیلیزان کے اسی مکان میں دو راتوں تک ان کی
مہمان بنی تھیں۔ کھانا بہت لذیذ تھا۔ دہی کی نمکین لسی نے پنجاب کے دیہات میں گزرے ہوئے میرے بچپن کی یادیں تازہ
کر دیں کہ جس کے گھر میں بھینسیں ہوتی تھیں اس کے سب اڑوس پڑوس والے اپنے اپنے برتن رات میں ہی ان کے گھر
رکھوا دیتے تھے اور پھر صبح صبح جب وہ بڑے سے مٹکے میں دہی بلو کر مکھن نکالتے تو مٹکے میں موجود نمکین
لسی سے پڑوسیوں کے یہ برتن بھر دیے جاتے۔ ہم ناشتے سے قبل جا کر اپنا برتن اس شان سے لے کر آتے کہ جیسے ان
کی بھینسیں دراصل ہماری ہوں اور اس لسی پر ہمارا پورا استحقاق ہو۔ یہ محبت، اپنائیت ، سانجھی خوشیاں اور
مل جل کر کھانا پینا ہی دیہات کا اصل سرمایہ تھا۔
[/RIGHT]