[RIGHT]
بشام سے آگے بھی شاہراہ کی حالت بہت خراب تھی۔ جگہ جگہ سے ادھڑی ہونے کے باعث سڑک پر جا بجا گڑھے
تھے اس لئے ہمارا سفر بدستور سست روی سے جاری تھا۔ ہم جوں جوں آگے بڑھتے تھے پہاڑوں سے درختوں
اور سبزے کا سلسلہ تیزی سے ختم ہو تا جاتا تھا۔ تھاکوٹ سے بشام کے درمیان کم از کم سڑک کی تعمیر کا کام تو جاری
تھا جبکہ اب صرف ایک تباہ حال سڑک تھی جس پر ہم سفر کرتے تھے۔ گاڑیوں کی تعداد بھی برائے نام تھی۔ دریائے
سندھ ہمارے دائیں طرف گہرائی میں بہتا تھا ۔ ہم سنگلاخ ،چٹیل اور بلند پہاڑوں میں بل کھاتی شاہراہ پر چڑھتے جاتے
تھے اور دریا کی طرف کھائیوں کی گہرائیاں بڑھتی جاتی تھیں۔ غنیمت تھا کہ سڑک خاصی کشادہ تھی اس لئے
میں زیادہ مشکل میںپڑے بغیراسٹیرنگ گھما گھما کر ٹائروں کو سڑک کے گڑھوں اور ابھرے ہوئے پتھروں سے بچاتا
تھا۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد ہم ضلع بشام کی حدود سے نکل کرکوہستان کی حدود میں داخل ہوئے۔ ہمارے شنگ کے
میزبان نے ہمیں مشورہ دیا تھا کہ کوہستان کے علاقے میں داخل ہونے کے بعد کسی راہگیر کے اشارہ کرنے پر گاڑی
روکنے یا ازراہ ہمدردی لفٹ دینے سے اجتناب کیا جائے سو ہم زیادہ محتاط تھے۔ ان سنگلاخ پہاڑوں میں جا بجا شفاف
پانی کے چشمے اور نالے پہاڑوں کی بلندیوں سے نیچے اترتے تھے۔ زیادہ بڑے نالوں کیلئے تو شاہراہ پر باقاعدہ پل
بنا ئے گئے تھے لیکن کہیں یہ چشمے اور چھوٹے نالے خوبصورت آبشاروں کی شکل میں پہاڑوں کی بلندی سے شاہراہ
کے ساتھ ہی سڑک پر گرتے تھے توکبھی چپکے سے پہاڑوں سے اترتے کسی نالے سے نکل کر سڑک کے اوپر بہتے
ہوئے بائیں جانب نشیب میں بہتے دریا کا رخ کرتے ۔ کبھی دریا کے دوسری جانب یہ حسین جھرنے پہاڑوں سے دریا
میں گرتے ہمیں نظر آتے ۔ سڑک کی خستہ حالی کے باعث جب بھی ہم کچھ بوریت یا کوفت کا شکار ہونے لگتے تو
پہاڑوں کے بیچ بہتے یہ ٹھنڈے چشمے اورپانی کی یہ آبشاریں اور جھرنے ہمارا موڈ پھر سے خوشگوار کر دیتے۔
کبھی دریا کے دوسرے پار کا کوئی خوبصورت منظر اور کبھی شاہراہ کے اوپر سے گزرتے کسی حسین چشمے کا
صاف شفاف پانی ہمارے آگے بڑھتے قدموں میں زنجیر ڈال دیتا۔
سہ پہر شام میں بدلتی جاتی تھی۔ آسمان پر چھائے بادل گہرے ہوتے جاتے تھے جو اس شام کے سایوں کو مزید گہرا
کرتے تھے۔ ہمیں بشام سے روانہ ہوئے دو گھنٹے سے زائد ہو چلے تھے لیکن ہماری سست روی تو کبھی کسی پر کشش
مقام پر ٹہر کر کچھ وقت گزارنے کے باعث ہم ابھی تک پتن کے قصبے تک نہیں پہنچ پائے تھے۔ فاصلوں کا حساب
بتانے والے میل کے پتھر بھی شاید سڑک کے ساتھ ہی ٹوٹ پھوٹ گئے تھے۔ 1984 کے ہمارے سفر کے دوران
شاہراہ کی بہتر صورتحال اور بس ڈرائیور کی مہارت کے باعث بشام سے پتن ہوتے ہوئے کومیلا کے بازار تک ہم
صرف دو گھنٹے میں پہنچ گئے تھے۔ پتن کب ٓآیا اور کب گزر گیا، 30 سال قبل کے اس سفر کے دوران ہمیں وقت
کے گزرنے اور فاصلوں کے سمٹنے کا اندازہ اس لئے بھی نہیں ہو پاتا تھا کہ ہم ایک دوجے کے نئے نویلے ہم سفر تھے
سو بس کی کھڑکیوں سے باہر کم اور ایک دوجے کو زیادہ دیکھتے تھے۔ شام کے پانچ بج چکے تھے ۔ پتن کا ابھی
کچھ پتہ نہ تھا۔ سیاہ بادل اب تیزی سے آسمان پر امڈتے آتے تھے۔ ابھی ہم تشویش سے ان سیاہ بادلوں کو دیکھتے
ہی تھے کہ بوندا باندی شروع ہو گئی۔ شروع شروع میں تو یہ ہلکی ہلکی پھوار ہمیں بہت خوشگوار محسوس ہوئی
لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ بوندا باندی پہلے بارش اور پھر موسلا دھار بارش میں تبدیل ہو گئی۔ مینگورہ میں
بادل گرجتے بہت تھے پر برستے نہ تھے، یہاں گر جتے بالکل نہ تھے، بس برستے تھے اور خوب برستے
تھے۔ مینگورہ اور یہاں کے بادلوں نے اس محاورے کے بارے میں میری غلط فہمی دور کر کے اسے حرف بہ
حرف درست ثابت کر دیا تھا کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں اور جو برستے ہیں وہ گرجتے نہیں۔
پہاڑ سے اترنے والے صاف شفاف چشموں نے نہ صرف رنگ بدلا بلکہ پہاڑوں سے اترکر سڑک تک آنے اور
پھر سڑک پر بہنے کا اپنا ڈھنگ بھی بدل لیا۔ مٹیالے بلکہ سرخی مائل مٹیالے رنگ کا یہ پانی اب سکون سے
سڑک پربہنے کے بجائے تیز ریلوں کی صورت میں اچھلتا کودتا بہتا تھا۔ مجھے اب سڑک کے گڑھے نظر نہ آتے
تھے بلکہ ان سنگلاخ چٹانوں سے اترتے سرخ مٹیالے پانی اور سڑک پرریلوں کی شکل میں بہتے نالوں کا سامنا
تھا ۔ گاڑی پانی میں چھپے ہوئے ان گڑھوں میں جا کر اچھلتی تھی اور میں اسے اس اچھل کود سے بچانے سے
قاصر تھا۔ سڑک کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے کی طرف جانے کیلئے اسٹیرنگ گھماتا تھا ، گڑھوں سے
بچنے کے لئے نہیں بلکہ گاڑی کو ریلوں کی صورت بہتے پانی کی گہرائی سے بچاتا تھا۔
ہماری سست روی رینگنے میں بدل گئی تھی۔ ونڈ اسکرین پر بارش برستی نہ تھی بلکہ آبشار کی طرح بہتی تھی۔
وائپرز اتنی مدد ضرور کرتے تھے کہ اس بہتی آبشار کا بہائو کم کرکے مجھے سامنے کا منظر دیکھنے کا موقع مل
جاتا تھا۔ سڑک کے کنارے رک کر بارش کے تھمنے کا انتظار کرنا اس لئے خطرناک تھا کہ تیز سے تیز تر ہو تی
اس بارش میں لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ ہو سکتا تھا۔ میں یہ سوچتا تھا کہ پہاڑوں پر سبزےاور درختوں کا وجود کس قدر
اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ وہ بارش کے ان بہتے ریلوں کے آگے بند بھی باندھتے ہیں اوران کی موجودگی پہاڑوں کے
ساتھ ساتھ چلتی سڑکوں کوتباہ و برباد ہونے سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ ہم ایک موڑ مڑے توآگے سڑک کچھ نشیب
کی طرف اتر رہی تھی۔ خیال تھا کہ اس موڑ کے بعد شاید ہمیں پتن کی آبادی نظر آجائے لیکن موسلا دھار بارش میں
ونڈ اسکرین سے بہتی آبشار سے مجھےپتن کے بجائےسامنے موجود سڑک نشیب میں بہتے ہوئے مٹیالے پانی کے
ایک نالے کی صورت نظر آئی۔ ہماری گاڑی اس نالے میں رینگتی آگے بڑھتی تھی۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر تھا کہ وہ
رینگتی تھی ریلے میں بہتی نہ تھی۔
بشام سے پتن کے درمیان سفر کے دوران کچھ مناظر ۔۔۔۔۔۔۔









موسلا دھار بارش کے دوران لی گئی کچھ تصویریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔






[/RIGHT]