[RIGHT]
چلاس کے ہوٹل میں ہم نے تقریباً ایک گھنٹہ گزارا۔ اس ایک گھنٹے کے دوران جہاں ہم نے کھانا کھایا ،نماز پڑھی
چائے پی اور کچھ آرام بھی کیا، وہیں میرے ذہن میں چپکے چپکے چلاس کے حوالے سے ماضی کے دریچے بھی
وا ہوتے چلے گئے۔ چلاس کا نام میرے ذہن کے پردے پر آج سے 38 سال قبل 1976 سے نقش ہے کہ جب آتش جوان
تھا بلکہ نوجوان تھااور کاغان اور ناران کے سفر پر پہلی بار اور اکیلا نکلا تھا۔ تب میں نے پہلی بار چلاس کے
بارے میں جانا کہ ناران سے آگے کی طرف جاتا کچا راستہ انتہائی بلند و بالا درہ بابوسر سے ہوتا ہوا چلاس تک
جاتا ہے اور یہ چلاس نامی قصبہ پاکستان کو چین سے ملانے کے لئے بنائی جانے والی سڑک پر واقع ہے۔ اس وقت
یہ عظیم شاہراہ قراقرم زیر تعمیر تھی۔ اس طرح چلاس کا نام خواب وخیال کی دنیا کے ایک طلسماتی شہر
کی صورت میرے ذہن پر نقش ہو گیا۔ اس دور میں ناران اور جھیل سیف الملوک تک پہنچنا ہی انتہائی دشوار
ہوا کرتا تھا کجا کہ درہ بابوسر اور پھر وہاں سے ہوتے ہوئے چلاس جانا۔ سو چلاس اور بابوسر میرے ذہن میں
صرف ایک خواب کی حیثیت رکھتے تھے۔ 1978 میں دوسری بار میں ناران اور جھیل سیف الملوک تک گیا اور
اس بار بھی ان دل فریب وادیوں کے سفر پر میں تنہا ہی نکلا تھا۔ شاہراہ قراقرم ہنوز زیر تعمیر تھی اور ان
وادیوں تک پہنچنے کے راستے بھی بدستور خطرناک اور دشوار گزار۔ بابوسر اور چلاس خواب تھے ، خواب ہی رہے۔
وادی کاغان کا تیسرا سفر میں نے 1982 میں کیا لیکن اس بار میں اکیلا نہ تھا۔ میرا چھوٹا بھائی اور دو دوست
ہمراہ تھے۔ کراچی سے ہمارے ساتھ ہی ہماری دو موٹرسائیکلیں بھی ٹرین میں لاہور تک گئی تھیں لیکن لاہور
سے روانہ ہو کر ہمارا سفر ناران کے بجائے کاغان پر ہی اختتام کو پہنچا کہ مارچ کا مہینہ تھا اور کاغان سے آگے
صرف برف کا راج تھا۔ ناران تک پیدل جانا بھی ممکن نہ تھا۔ سو اس سفر کے دوران تو بابوسر اور چلاس
کا تصور ہی محال تھا۔ 1978 سے 1982 کے درمیانی عرصے کی بڑی خبر یہ تھی کہ 1979میں شاہراہ قراقرم
کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی اور اس کے علاوہ ایک اچھی خبر یہ بھی ملتی تھی کہ گرمیوں کے دو تین
مہینوں کے دوران جب موسم صاف اور سازگار ہو تو بذریعہ جیپ ناران سے چلاس تک آمدو رفت ممکن ہو
سکتی ہے۔ جولائی 1984 کے آخری ہفتے میں جب مجھے زندگی بھر کے لئے ایک ہم سفر مل گیا تو میں نے سوات
کی سیر کے ساتھ ساتھ شاہراہ قراقرم پر گلگت اور ہنزہ تک جانے کا بھی پروگرام بنا لیا اور اگست کے دوسرے
ہفتے میں ہی ہم روانہ ہو گئے۔ ہمارے اس سفر کے دوران میں نے اپنے خواب و خیال میں بسے چلاس کو پہلی بار
دیکھا لیکن وہ ٹھیک سے نظر نہ آتا تھا کہ رات کی تاریکی میں گم تھا۔ چلاس تک کے اس سفر کے دوران
میری ملاقات بس میں سوار چلاس کے ایک باسی سے ہو ئی تھی جس سے میں نے دوران سفر چلاس سے
بابوسر کے راستے ناران جانے والی سڑک کے بارے میں دریافت کیا ۔ معلوم ہوا کہ اس راستے پر صرف جیپ جاتی
ہے لیکن وہ بھی صرف اس وقت کہ آسمان صاف ہو اور بارش کا کوئی امکان نہ ہو کیونکہ خراب موسم
اور بارش کی صورت میں اس سڑک پر سفر کرنا انتہائی خطرناک ہو جاتا ہے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ جیپ والے
اس راستے کا انتخاب کرنے والوں سے ٹھیک ٹھاک کرایہ وصول کرتے ہیں اس لئے پانچ یا چھ مسافر مل کر
ہی ناران تک جانے کے لئے کوئی جیپ بک کرانے کے قابل ہوتے ہیں۔ دل میں گلگت اور ہنزہ سے واپسی پر چلاس
سے براستہ بابوسر ناران جانے کی جو ایک خواہش اٹھتی تھی وہ چلاس کے اس مکین سے ملنے والی دل
شکن معلومات کے بعد دم توڑ گئی اور یہ خواب ایک دفعہ پھر خواب ہی رہا۔
کاغان اور ناران کی وادی کا اگلا سفر میں نے 1988 میں کیا کہ جب ہم ہوائی جہاز سے اپنی 3سال کی
بیٹی کو ساتھ لے کر پہلے اسلام آباد سے اسکردو اور پھر واپس اسلام آباد پہنچنے کے بعد ناران جا پہنچے۔ اس
سفر میں ہم نے کوشش کی کہ کم از کم ناران سے بابوسر تک جاتی اس سڑک پر لالہ زار تک ہی ہو آئیں
لیکن لینڈ سلائیڈنگ کے باعث راستہ مسدود ہو جانے کی وجہ سے ہم اس راہ پر قدم نہ بڑھا سکے۔ میں نے ایک
بار پھر حسرت سے ناران سے آگے جاتی اس سڑک کو دیکھا اور ہم ناران اور جھیل سیف الملوک سے ہی
واپس پلٹ آئے۔ 2004 میں اسکردو، دیوسائی ، گلگت اور ہنزہ کے سفر کے دوران ہماری تینوں بیٹیاں ہمارے
ساتھ تھیں چنانچہ گلگت سے واپسی میں بچیوں کے ہمراہ چلاس سے ناران تک جیپ کا دشوار گزار اور
خطرناک سفر ناممکن تھا سو اس سفر کے دوران بھی واپسی میں رات کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں لپٹا
چلاس کا شہر خاموشی سے گزر گیا۔ میں ایک بار پھر حسرت سے بس کی کھڑکی کے باہر دور تاریکی میں
مشرق کی سمت پہاڑوں کے ان سیاہ ہیولوں کو دیکھتا تھا کہ جن کے بیچ سے ہو کر ایک راستہ بابوسر
کی طرف جاتا تھا۔ 2004 کے اس سفر میں گلگت سے واپسی پر ہم مانسہرہ اتر گئے اور ناران جا پہنچے۔
ایک بار پھر ہم نے لالہ زار جانے کا ارادہ کیا اور لینڈ سلائیڈنگ پھر ہماری راہ میں حائل ہو گئی۔ میں ناران
کے پی ٹی ڈی سی موٹل کے ساتھ بہتے دریائے کنہار کے ریتیلے ساحل پر اپنی ہم سفر اور بچیوں کے ساتھ
ٹہلتا تھا اور دریائے کنہار کے ساتھ ساتھ بلندیوں کی طرف جاتی اس سڑک کو دیکھتا تھا جو بابوسر اور
چلاس جاتی تھی۔ سوچتا تھا کہ کبھی میں اس سڑک کے مشرقی قصبے ناران میں ہوتا ہوں تو کبھی
اس سڑک کے مغربی سرے پر واقع چلاس کے قصبے سے گزرتا ہوں۔ آخر یہ سڑک مجھ پراتنی نامہربان
کیوں ہے کہ اس پر سفر کرنے سے ابھی تک محروم ہوں۔
آج میرے خواب و خیال میں بسنے والا چلاس کا شہر تاریکی کی سیاہ چادر اتار کر میری نظروں کے سامنے
تھا۔ چلاس اور بابوسر کے حوالے سے میرے خواب کو تعبیر ملی بھی تو ادھوری۔ اس سفر کا ابتدائی
منصوبہ جو میں نے بنایا تھا اس پر عمل کر کے میں اپنے خواب کی مکمل تعبیر پا سکتا تھا۔ اس منصوبے
کے مطابق استور جانے کے لئے مجھے براستہ ناران اور بابوسر چلاس پہنچنا تھا لیکن اس راستے کی تازہ
ترین صورتحال کے مطابق مئی کے آخری ہفتے میں درہ بابوسر کا راستہ کھلنے کا کوئی امکان ہی نہ تھا۔
اگر پروگرام میں ایک دو دنوں کا ردو بدل کرتا اور اتفاقاً راستہ کھل بھی جاتا تو ناران کی طرف سے
گلیشئرز کی بھرمار اور اس کے ساتھ بابوسر تک کی چڑھائی مہران کے بس کی بات نہ ہوتی سو وہ
منصوبہ ناقابل عمل قرار پایا، پھر یہ منصوبہ مرتب ہوا کہ استور، اسکردو، ہنزہ، خنجراب اور گلگت سے
واپسی کے وقت چلاس سے درہ بابوسر عبور کرکے ناران پہنچا جائے کہ اس وقت تک نصف ماہ جون
گزر جانے کے بعد راستہ زیادہ بہتر طور پر کھل چکا ہو گا لیکن عقل و خرد یہ کہتی تھی کہ بے شک
راستہ کھل ہی کیوں نہ گیا ہو اور چلاس سے بابوسر پہنچنا قدرے سہل ہی کیوں نہ ہو اپنی خاتون ہم
سفر کے ہمراہ مہران میں درہ بابوسر کے راستے ناران جانے کا خطرہ مول نہ لیا جائے ۔ سو جب اس سفر
کی منصوبہ بندی مکمل ہوئی تو درہ بابوسر کا راستہ اختیار کرنے کا خیال بالکل ترک ہی کر دیا گیا۔
میں چلاس کے اس ہوٹل سے نکلتے وقت کچھ بے چین اور مضطرب تھا ۔
[/RIGHT]