[RIGHT]
گھڑی کی سوئیاں ڈھائی کو کراس کر چکی تھیں۔ آنے والی رات کے پڑائو کے حوالے سے میرے ذہن میں
صرف رائے کوٹ ہی تھا کیونکہ رائے کوٹ کے آگے شاہراہ قراقرم چھوڑ کر استور جانے والے راستے اور اس
سڑک کی حالت سے ہم ناواقف تھے۔ ہم سفر کو گاڑی میں بیٹھنے کا کہہ کرمیں رائے کوٹ میں رات گزارنے
کے حوالے سے کچھ معلومات حاصل کرنے کے لئے ہوٹل کے کاؤنٹر پر موجود شخص کی طرف بڑھ گیا۔
" کیا رائے کوٹ میں رات گزارنے کے لئے شنگریلا کے علاوہ کوئی اور ہوٹل بھی ہے ؟"
"نہیں جناب صرف شنگریلا ہی ہے "
اس ہوٹل کا کوئی فون نمبر آپ کے پاس ہو تو ہم وہاں پہنچنے سے پہلے معلوم کر لیں کہ ہمیں کمرہ مل
سکے گا یا نہیں ؟ " میں نے اس ضمن میں اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
اسی سڑک پر جدھر سے آپ آئے ہیں کچھ ہی فاصلے پر چلاس کا شنگریلا ہوٹل ہے۔ اس سلسلے میں آپ
وہاں سے معلوم کر لیں۔
اگلا سوال میں نے نہیں کیا۔ میرے دل نے کیا۔ زبان میری تھی بات دل کی تھی۔
" کیا ناران جانے کے لئے بابو سر والا راستہ کھلا ہوا ہے ؟ "
نہیں جناب ۔ ویسے تو اسے کل یکم جون سے کھلنا تھا لیکن ابھی بابوسر پر برف پگھلی نہیں۔ سنا ہے
ابھی ایک ہفتہ اور لگے گا۔
دل پہ جو گزری ہوگی وہ دل ہی جانتا ہوگا۔
اس مارکیٹ کی پارکنگ سے نکلے تو کچھ ہی دوری پر واقع شنگریلا ہوٹل کی خوبصورت عمارت کی
پارکنگ میں جا پہنچے۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ رائے کوٹ والے شنگریلا سے چلاس والے شنگریلا ہوٹل والوں
کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی یہاں سے کسی طور ان سے رابطے کی کوئی صورت ممکن ہے۔ مجھے کچھ
حیرت تو ہوئی لیکن زیادہ نہیں۔ ہمارے ہاں لوگوں کو بےوقوف بنانے کیلئے کسی بھی مشہور نام کو ہتھیا کراپنا
کاروبار چمکانا عام سی بات ہو گئی ہے۔ شمالی علاقوں کے ہوٹلوں میں شنگریلا یقیناً ایک بڑا نام ہے۔ اب
نہ جانے چلاس کا یہ شنگریلا جعلی تھا یا رائے کوٹ کا ؟ میں نے ابھی اس سلسلے میں زیادہ دماغ کھپانا
مناسب نہ جانا کیونکہ یہ عقدہ رائے کوٹ کے شنگریلا پہنچ کر بھی حل ہو سکتا تھا۔ بظاہر تو چلاس کے
اس ہوٹل کی خوبصورتی اور عمدہ طرز تعمیر اسی کے اصلی ہونے کا پتہ دیتی تھی۔ چلاس کے بازار سے
نکلنے سے پہلے ایک ٹائر شاپ سے پہیوں کی ہوا چیک کرائی ،گاڑی کا تیل پانی چیک کیا اور سہ پہر
تین بجے سے پہلے ہی ہم چلاس کے طویل بازار کو پیچھے چھوڑتے ہوئے رائے کوٹ کی طرف روانہ ہو
گئے۔ سڑک کی حالت بہتر تھی۔ قصبے کی آبادی سے نکلنے کے کچھ ہی دیر بعد دریائے سندھ شاہراہ کی
بائیں طرف ہم سے قریب آ گیا۔ سڑک دریا سے زیادہ بلند نہیں تھی۔ کچھ فاصلہ طے کر کے ہم ایک سہ راہے
پر پہنچے یہاں سے ایک سڑک دائیں ہاتھ کی طرف مڑتی تھی جو تھک نالے کے ساتھ ساتھ بلند ہوتی
بابوسر کی طرف جاتی تھی۔ اچھی خاصی چوڑی سڑک تھی اور شاہراہ قراقرم سے زیادہ بہتر حالت
میں دکھائی دیتی تھی۔ میں نے بہت محبت بھری نظروں سے اسے دیکھا کہ شاید اس کی نامہربانی کبھی
مہربانی میں بدل جائے۔ ہم بائیں طرف مڑتی شاہراہ قراقرم پر رواں دواں رہے۔ قریب ہی موجود تھک
نالے کا پل عبور کیا۔ پل کے بعد تھوڑا سا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ شاہراہ ایک نسبتاً کشادہ وادی میں داخل
ہو گئی۔ دریا پھر ہم سے کچھ فاصلے پر چلا گیا۔ دائیں ہاتھ پر موجود ایک پٹرول پمپ پر میں نے گاڑی
روک دی۔ پٹرولپمپ والے کے استفسار پر ہم نے اسے بتایا کہ ہم کراچی سے آرہے ہیں۔ اس نے ہمیں اور ہماری
گاڑی کو بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔
" کس راستے سے آئے ہیں؟"
"شاہراہ قراقرم سے۔"
"اوہو بہت لمبا سفر کیا آپ نے۔ واپسی پر بابوسر والے راستے سے جانا، یہ چھوٹا راستہ ہے"
اس نے اپنے قیمتی مشورے سے ہمیں آگاہ کیا۔
"کیا گاڑیاں اس راستے سے آتی جاتی ہیں ؟ سڑک کیسی ہے ؟ "
دل بے تاب کے سوالات پھر شروع ہو گئے۔
" سڑک اچھی ہے ، کافی گاڑیاں اس راستے سے آتی جاتی ہیں "
" ٹھیک ہے ۔انشاءاللہ واپسی پر دیکھیں گے ۔ ابھی تو یہ راستہ کھلا ہی نہیں ہے "
میں نے اسے جواب دینے کے ساتھ ساتھ اپنے دل کو بھی تسلی دی۔
ہمارا سفر جاری رہا۔ شاہراہ کبھی دریا کے قریب آجاتی تو کبھی دریا پھر شاہراہ سے دور چلاجاتا۔
کبھی دونوں اطراف کے پہاڑوں کی گھاٹیاں کچھ تنگ ہو جاتیں تو کہیں پھر اتنی کشادہ کہ دریا
کا پاٹ انتہائی چوڑا ہو جاتا۔ دریا سڑک سے زیادہ نشیب میں نہ تھا اس لئے اس کے کشادہ پاٹ کے ساتھ
موجود ریتیلے میدان کبھی کبھی ہمارے بہت قریب آجاتے اور ان وادیوں میں چلتی ہوا دریا کے پانی
پر سرسراتی اور ریتیلے میدانوں سے لہراتی ہماری طرف آتی ، کبھی زیادہ تیزی سے چلتی تو
ریت کے بگولے بھی اپنے ساتھ لاتی۔ ہم سفر ان ریتیلے ہوا کے جھونکوں سے گھبراکر کھڑکی کا
شیشہ چڑھاتی تھی۔
چھوٹے چھوٹے قصبوں سے گزرتے ،مختلف نالوں کے پل عبور کرتے ہم آگے بڑھتے تھے۔ ادھر پہاڑ خاموشی
سےاپنی ہیئت تبدیل کرتے تھے ۔ پتھروں کے ساتھ ساتھ ان میں مٹی کی مقدار بڑھتی جاتی تھی۔
مٹی اور پتھروں کے ان پہاڑوں میں موجود پتھروں کی ساخت بھی بدلنا شروع ہو گئی۔ یہ پتھر اب
پہاڑی ندی نالوں میں پائے جانے والے پانی کے تیز بہائو سے تراشے گئے گول گول پتھروں کی شکل اختیار
کرتے جاتے تھے۔ کہیں ایسا دکھائی دیتا کہ یہ پہاڑ مٹی کے ہیں اور ان میں یہ گول پتھر تہوں کی صورت
موجود ہیں تو کہیں مٹی اور ایسے ہی گول پتھروں والی چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں زمین پر رکھے بڑے
بڑے ڈھیروں کی شکل میں نظر آتیں۔ اس علاقے سے گزرتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ پورا
علاقہ زمانہ قدیم میں کبھی کوئی عظیم آبی گزرگاہ رہا ہو اور بعد ازاں کسی بڑی ماحولیاتی تبدیلی
کے باعث یہ آبی گزرگاہ ختم ہو گئی ہو اور یہ پہاڑ نمودار ہوگئے ہوں۔ ایسی عظیم ماحولیاتی تبدیلی
کی تازہ ترین مثال شمالی علاقوں میں چند سال پہلے ہی وجود میں آنے والی عطاآباد جھیل ہے۔
جس طرح قدرت نے وہ جھیل تخلیق کی ہے اسی طرح ایک طویل مدت بعد قدرت کبھی
اس جھیل کا خاتمہ کر دے تو دس پندرہ کلومیٹر کا وہ علاقہ بالکل مختلف شکل میں نمودار ہو سکتا ہے۔
بہرحال اس علاقے سے گزرتے ہوئے یہ میرے محسوسات تھے۔ اس بارے میں ماہرین علم ارضیات زیادہ
بہتر جانتے ہوں گے۔ ضروری نہیں کہ میرا قیاس حقیقت ہو۔
سہ پہر شام میں بدلنا شروع ہو گئی تھی۔ ساڑھے چار بجے کے قریب ہم انہی مٹی اور پتھروں
کے پہاڑوں میں سفر کرتے تتا پانی کے علاقے میں پہنچ گئے۔ ہمارے ملک میں بولی جانی والی کچھ
زبانوں میں تتا کا لفظ گرم کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ علاقہ گرم پانی کہلاتا ہے۔
اس علاقے میں گندھک کی آمیزش والے گرم پانی کے چشمے پائے جاتے ہیں اور غالباً گرم پانی کے یہ
چشمے ہی تتا پانی کی وجہ تسمیہ رہے ہوں گے۔ اس علاقے میں ہونے والی تیز بارشوں
نے مٹی کے ان پہاڑوں پر پرنالوں کی شکل میں اوپر سے نیچے تک لمبی لمبی دراڑیں بنا دی تھیں جو
بڑی آرٹسٹک دکھائی دیتی تھیں۔ ان مٹی کے پہاڑوں کے بیچ سے گزرتی شاہراہ خود بھی کہیں کہیں
مٹی کی چادر اوڑھ کر کچی سڑک کی طرح نظر آنے لگتی تھی۔ 2004 کے سفر کے دوران جب ہم اس
علاقے سے گزرے تھے تو گندھک کی آمیزش والی اس ہوا کے باعث میری چھوٹی بیٹی کی آنکھوں
سے پانی بہتا تھا اور جلد کی حساسیت کی وجہ سے چہرے پر کچھ سوجن بھی آ گئی تھی
جبکہ ہم بھی گندھک کی ہلکی سی بو اور آنکھوں میں کچھ جلن محسوس کرتے تھے۔ آج ہم
نے ایسا کچھ محسوس نہیں کیا ،ممکن ہے موسم کی تبدیلی اس کی وجہ رہی ہو۔
تتا پانی کے علاقے سے نکلنے کے کچھ ہی دیر بعد ان مٹی کے پہاڑوں کا سلسلہ ختم ہو گیا ۔ ابھی تھوڑا
ہی فاصلہ طے کیا ہوگا کہ شاہراہ کے ایک موڑ سے ہمیں دور دریائے سندھ پر بنا رائے کوٹ کا پل نظر
آگیا۔
چلاس سے رائے کوٹ تک کے سفر کی کچھ تصویریں ۔۔۔۔۔








رائے کوٹ کا پل ۔۔۔۔۔۔۔

میری فوٹوگرافر ہم سفر دریائے سندھ کی تصویر لینے میں مصروف ۔۔۔۔۔۔۔[/RIGHT]
