[RIGHT]چھٹا دن
راما،جنت ارضی ۔۔۔۔ تشنگی ۔۔۔۔ استور کی شام
استور کی صبح بہت خوشگوار تھی۔ بادل بدستور چھائے ہوئے تھے۔ نیلا آسماں خال خال ہی دکھائی دیتا تھا۔ ناشتہ ہم نے
اپنے کمرے میں ہی کیا۔ راما جھیل کنارے سہ پہر تک رکنے کا پروگرام تھا اس لئے تھرماس میں چائے بھروانے کے
ساتھ ساتھ ہوٹل والوں سے دوپہر کا کھانا بھی پیک کر والیا۔ سوا نو بجے کے قریب ہم جیپ میں راما جھیل کے لئے
روانہ ہو گئے۔ استور کے اونچے نیچے بازاروں کے درمیان سے گزرتے ہوئے جیپ نے جلد ہی استور کی آبادی کو
پیچھے چھوڑ دیا۔ راما جانے والی سڑک کی حالت زیادہ بہتر نہ تھی۔ ہمارا سفر ایک پہاڑ کے ساتھ ساتھ بلندی
کی طرف شروع ہو گیا البتہ یہ پہاڑ اب بنجر اور چٹیل نہ تھے، سر سبز تھے اور ان پردرخت بھی نظر آتے تھے۔
سڑک کے ساتھ ساتھ استور کے مضافات کی چھوٹی آبادیوں اور ان سے ملحق کھیتوں کا سلسلہ کچھ دیر
تک جاری رہا۔ تھوڑی دیر بعد ہم ایک شفاف پانی کے نالے کے پل پر سے گزرے۔ نالے کے ساتھ کچھ ہی
بلندی پر اس نالے کے تیز بہائو والے پانی کی مدد سے چلنے والی چھوٹی سی چکی بنی ہوئی تھی۔
مزید کچھ فاصلہ طے کیا تو منظر یکدم تبدیل ہوگیا اورسڑک سرسبز اور کشادہ وادی میں داخل ہو گئی۔ دونوں
اطراف پھیلے ہوئے ہرے بھرے میدان ، دور نظر آتے برف پوش پہاڑ اور برف پوش چوٹیوں سے
نیچے گہرے سبز ،گھنے اور اونچے اونچے قطار در قطار لگے درختوں کا حسین سلسلہ۔ ان سرسبز میدانوں
میں پتھروں اور لکڑیوں سے تعمیر کردہ اکا دکا گھر بھی دکھائی دیتے تھے۔ سر سبز وادی سے گزرتی ہوئی
یہ سڑک دور نظر آتے برف پوش پہاڑوں کی طرف رواں دواں تھی۔ کچھ دیر بعد سڑک پھر ایک پہاڑ کے ساتھ بل
کھاتی ہوئی بلندیوں کا رخ کرنے لگی، برفیلی چوٹیاں اورپہاڑوں پر موجود درختوں کے جھنڈ اب ہمیں زیادہ
واضح طور پرنظر آنے لگے تھے۔ بلندی سے گزرنے والے اس درے پر ہم اتنی اونچائی پر پہنچ گئے کہ دور
نظر آتے پہاڑوں سے اترتے گلیشیئر ہمیں اپنی نظروں کے سامنے دکھائی دینے لگے بلکہ ہماری سڑک کی
نسبت یہ گلیشیئر کچھ نشیب میں نظر آتے تھے۔ اس درے سے اترے تو راما کی کشادہ، حسین اور سرسبز وادی
ہماری نظروں کے سامنے تھی۔ اونچے اونچے گہرے سبز درخت چپکے چپکے اس خوبصورت وادی کے
سرسبز میدانوں میں اتر نا شروع ہو گئے تھے۔ کچھ آگے بڑھے تو سڑک کے بائیں طرف ہمیں راما کے پی ٹی
ڈی سی موٹل کا چھوٹا سا بورڈ دکھائی دیا۔ دائیں طرف سڑک کے ساتھ ساتھ ایک ہموار اور ہرا بھرا وسیع
و عریض میدان کسی دبیز سبز قالین کی طرح بچھا ہوا تھا۔ ایک صاف شفاف پانی کا نالہ اس دبیز سبز قالین کے
درمیان بل کھاتا بہتا تھا۔ ارد گرد نظر آتی برف پوش چوٹیاں، چوٹیوں تلے نظر آتے سرسبز پہاڑوں پر دکھائی
دیتے درختوں کے گھنے جھنڈ ، بادلوں سے ڈھکا آسمان اور اس حسین وادی میں مسلسل بڑھتی ہوئی
خنکی ۔ وادی کا سحر انگیز ماحول انتہائی پر کشش تھا۔ راما کی دلکش وادی میں تا حد نظر حسن بکھرا پڑا تھا۔
استور سے راما کی وادی تک کے سفر کے دوران کی کچھ تصویریں ۔۔۔۔۔۔۔












[/RIGHT]